: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،   

بَابُ مَنْ تَجَمَّلَ لِلْوُفُودِ

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،  

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،   

5753 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ : حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ : قَالَ لِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ : - مَا الإِسْتَبْرَقُ ؟ قُلْتُ : مَا غَلُظَ مِنَ الدِّيبَاجِ ، وَخَشُنَ مِنْهُ - قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ ، يَقُولُ : رَأَى عُمَرُ عَلَى رَجُلٍ حُلَّةً مِنْ إِسْتَبْرَقٍ ، فَأَتَى بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، اشْتَرِ هَذِهِ ، فَالْبَسْهَا لِوَفْدِ النَّاسِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ . فَقَالَ : إِنَّمَا يَلْبَسُ الحَرِيرَ مَنْ لاَ خَلاَقَ لَهُ فَمَضَى مِنْ ذَلِكَ مَا مَضَى ، ثُمَّ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَيْهِ بِحُلَّةٍ ، فَأَتَى بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : بَعَثْتَ إِلَيَّ بِهَذِهِ ، وَقَدْ قُلْتَ فِي مِثْلِهَا مَا قُلْتَ ؟ قَالَ : إِنَّمَا بَعَثْتُ إِلَيْكَ لِتُصِيبَ بِهَا مَالًا فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ ، يَكْرَهُ العَلَمَ فِي الثَّوْبِ لِهَذَا الحَدِيثِ

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،  

`Umar saw a silken cloak over a man (for sale) so he took it to the Prophet (ﷺ) and said, 'O Allah's Apostle! Buy this and wear it when the delegate come to you.' He said, 'The silk is worn by one who will have no share (in the Here-after).' Some time passed after this event, and then the Prophet (ﷺ) sent a (similar) cloak to him. `Umar brought that cloak back to the Prophet (ﷺ) and said, 'You have sent this to me, and you said about a similar one what you said?' The Prophet (ﷺ) said, 'I have sent it to you so that you may get money by selling it.' Because of this, Ibn `Umar used to hate the silken markings on the garments.

":"ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالصمد بن عبدالوارث نے ، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے ، کہا کہمجھ سے سالم بن عبداللہ نے پوچھا کہ استبرق کیا چیز ہے ؟ میں نے کہا کہ دیبا سے بنا ہوا دبیز اور کھردرا کپڑا پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو استبرق کا جوڑا پہنے ہوئے دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسے لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اسے آپ خرید لیں اور وفد جب آپ سے ملاقات کے لئے آئیں تو ان کی ملاقات کے وقت اسے پہن لیا کریں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ریشم تو وہی پہن سکتا ہے جس کا ( آخرت میں ) کوئی حصہ نہ ہو خیر اس بات پر ایک مدت گزر گئی پھر ایسا ہوا کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انہیں ایک جوڑا بھیجا تو وہ اسے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جوڑا میرے لئے بھیجا ہے ، حالانکہ اس کے بارے میں آپ اس سے پہلے ایسا ارشاد فرما چکے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ میں نے تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے تاکہ تم اس کے ذریعہ ( بیچ کر ) مال حاصل کرو ۔ چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اسی حدیث کی وجہ سے کپڑے میں ( ریشم کے ) بیل بوٹوں کو بھی مکروہ جانتے تھے ۔

':'Telah menceritakan kepada kami Abdullah bin Muhammad telah menceritakan kepada kami Abdush Shamad dia berkata; telah menceritakan kepadaku Ayahku dia berkata; telah menceritakan kepadaku Yahya bin Abu Ishaq dia berkata; Salim bin Abdullah berkata kepadaku; 'Apakah istabraq itu?' aku menjawab; 'yaitu kain sutera yang agak tebal dan kasar.' Salim berkata; saya mendengar Abdullah berkata; 'Umar pernah melihat seorang laki-laki mengenakan baju sutera dari istabraq (sutera tebal) lalu dia datang kepada Nabi shallallahu 'alaihi wasallam dan berkata; 'Wahai Rasulullah Alangkah bagusnya jika Anda membelinya untuk Anda pakai saat menerima para utusan yang datang kepada Anda.' Maka beliau menjawab: 'Yang memakai sutera ini hanyalah orang yang tidak mendapat bagian di akhirat. Tidak berapa lama dari peristiwa itu