باب الصدقة على اليتامى

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،   

بَابُ الصَّدَقَةِ عَلَى اليَتَامَى

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،  

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،   

1407 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يُحَدِّثُ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى المِنْبَرِ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ ، فَقَالَ : إِنِّي مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِي ، مَا يُفْتَحُ عَلَيْكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَزِينَتِهَا فَقَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَوَيَأْتِي الخَيْرُ بِالشَّرِّ ؟ فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقِيلَ لَهُ : مَا شَأْنُكَ ؟ تُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلاَ يُكَلِّمُكَ ؟ فَرَأَيْنَا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ ؟ قَالَ : فَمَسَحَ عَنْهُ الرُّحَضَاءَ ، فَقَالَ : أَيْنَ السَّائِلُ ؟ وَكَأَنَّهُ حَمِدَهُ ، فَقَالَ : إِنَّهُ لاَ يَأْتِي الخَيْرُ بِالشَّرِّ ، وَإِنَّ مِمَّا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ ، إِلَّا آكِلَةَ الخَضْرَاءِ ، أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلَتْ عَيْنَ الشَّمْسِ ، فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ ، وَرَتَعَتْ ، وَإِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ ، فَنِعْمَ صَاحِبُ المُسْلِمِ مَا أَعْطَى مِنْهُ المِسْكِينَ وَاليَتِيمَ وَابْنَ السَّبِيلِ - أَوْ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَإِنَّهُ مَنْ يَأْخُذُهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ ، كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ ، وَيَكُونُ شَهِيدًا عَلَيْهِ يَوْمَ القِيَامَةِ

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،   عن أبي سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يُحَدِّثُ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى المِنْبَرِ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ ، فَقَالَ : إِنِّي مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِي ، مَا يُفْتَحُ عَلَيْكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَزِينَتِهَا فَقَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَوَيَأْتِي الخَيْرُ بِالشَّرِّ ؟ فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقِيلَ لَهُ : مَا شَأْنُكَ ؟ تُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلاَ يُكَلِّمُكَ ؟ فَرَأَيْنَا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ ؟ قَالَ : فَمَسَحَ عَنْهُ الرُّحَضَاءَ ، فَقَالَ : أَيْنَ السَّائِلُ ؟ وَكَأَنَّهُ حَمِدَهُ ، فَقَالَ : إِنَّهُ لاَ يَأْتِي الخَيْرُ بِالشَّرِّ ، وَإِنَّ مِمَّا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ ، إِلَّا آكِلَةَ الخَضْرَاءِ ، أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلَتْ عَيْنَ الشَّمْسِ ، فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ ، وَرَتَعَتْ ، وَإِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ ، فَنِعْمَ صَاحِبُ المُسْلِمِ مَا أَعْطَى مِنْهُ المِسْكِينَ وَاليَتِيمَ وَابْنَ السَّبِيلِ - أَوْ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَإِنَّهُ مَنْ يَأْخُذُهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ ، كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ ، وَيَكُونُ شَهِيدًا عَلَيْهِ يَوْمَ القِيَامَةِ .

Once the Prophet (ﷺ) sat on a pulpit and we sat around him. Then he said, The things I am afraid of most for your sake (concerning what will befall you after me) is the pleasures and splendors of the world and its beauties which will be disclosed to you. Somebody said, O Allah's Messenger (ﷺ)! Can the good bring forth evil? The Prophet (ﷺ) remained silent for a while. It was said to that person, What is wrong with you? You are talking to the Prophet (ﷺ) (p.b.u.h) while he is not talking to you. Then we noticed that he was being inspired divinely. Then the Prophet (ﷺ) wiped off his sweat and said, Where is the questioner? It seemed as if the Prophet (ﷺ) liked his question. Then he said, Good never brings forth evil. Indeed it is like what grows on the banks of a water-stream which either kill or make the animals sick, except if an animal eats its fill the Khadira (a kind of vegetable) and then faces the sun, and then defecates and urinates and grazes again. No doubt this wealth is sweet and green. Blessed is the wealth of a Muslim from which he gives to the poor, the orphans and to needy travelers. (Or the Prophet said something similar to it) No doubt, whoever takes it illegally will be like the one who eats but is never satisfied, and his wealth will be a witness against him on the Day of Resurrection.

Abu Sa'îd al Khudry () rapporte: «Un jour, le Prophète () s'assit sur le minbar et nous prîmes place autour de lui. Il dit:

":"ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ہشام دستوائی نے ‘ یحییٰ سے بیان کیا ۔ ان سے ہلال بن ابی میمونہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عطاء بن یسار نے بیان کیا ‘ اور انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ کہتے تھے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے ۔ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے متعلق اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا کی خوشحالی اور اس کی زیبائش و آرائش کے دروازے کھول دئیے جائیں گے ۔ ایک شخص نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ! کیا اچھائی برائی پیدا کرے گی ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے ۔ اس لیے اس شخص سے کہا جانے لگا کہ کیا بات تھی ۔ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات پوچھی لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تم سے بات نہیں کرتے ۔ پھر ہم نے محسوس کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہے ۔ بیان کیا کہ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پسینہ صاف کیا ( جو وحی نازل ہوتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آنے لگتا تھا ) پھر پوچھا کہ سوال کرنے والے صاحب کہاں ہیں ۔ ہم نے محسوس کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ( سوال کی ) تعریف کی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھائی برائی نہیں پیدا کرتی ( مگر بے موقع استعمال سے برائی پیدا ہوتی ہے ) کیونکہ موسم بہار میں بعض ایسی گھاس بھی اگتی ہیں جو جان لیوا یا تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں ۔ البتہ ہریالی چرنے والا وہ جانور بچ جاتا ہے کہ خوب چرتا ہے اور جب اس کی دونوں کوکھیں بھر جاتی ہیں تو سورج کی طرف رخ کر کے پاخانہ پیشاب کر دیتا ہے اور پھر چرتا ہے ۔ اسی طرح یہ مال و دولت بھی ایک خوشگوار سبزہ زار ہے ۔ اور مسلمان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جو مسکین ‘ یتیم اور مسافر کو دیا جائے ۔ یا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ہاں اگر کوئی شخص زکوٰۃ حقدار ہونے کے بغیر لیتا ہے تو اس کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو کھاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا ۔ اور قیامت کے دن یہ مال اس کے خلاف گواہ ہو گا ۔

':'Telah menceritakan kepada kami Mu'adz bin Fadhalah telah menceritakan kepada kami Hisyam dari Yahya dari Hilal bin Abu Maimunah telah menceritakan kepada kami 'Atha' bin Yasar bahwa dia mendengar Abu Sa'id Al Khudriy radliallahu 'anhu menceritakan bahwa Nabi Shallallahu'alaihiwasallam suatu hari duduk diatas mimbar dan kami pun duduk didekatnya lalu Beliau berkata: 'Sesungguhnya diantara yang aku khawatirkan terjadi pada kalian sepeninggalku adalah apabila telah dibuka untuk kalian (keindahan) dunia serta perhiasannya'. Tiba-tiba ada seorang laki-laki berkata: 'Wahai Rasulullah apakah kebaikan dapat mendatangkan keburukan?'. Maka Nabi Shallallahu'alaihiwasallam terdiam. Dikatakan kepada orang yang bertanya tadi; 'Apa yang telah kamu lakukan kamu mengajak Nabi Shallallahu'alaihiwasallam berbicara yang membuat Beliau tidak berbicara kepadamu'. Maka kami melihat bahwa wahyu sedang turun kepada Beliau. Abu Said berkata: 'Beliau mengusap keringatnya yang banyak lalu berkata: 'Mana orang yang bertanya tadi?'. Lalu nampak Beliau memuji Allah seraya bersabda: 'Kebaikan tidak akan mendatangkan keburukan. Sesungguhnya apa yang ditumbuhkan pada musim semi dapat membinasakan atau dapat mendekatkan kepada kematian kecuali seperti (ternak) pemakan dedaunan hijau yang apabila sudah kenyang dia akan memandang matahari lalu mencret kemudian kencing lalu dia kembali merumput (makan lagi). Dan sungguh harta itu seperti dedaunan hijau yang manis. Maka beruntunglah seorang muslim yang dengan hartanya dia memberi orang-orang miskin anak yatim dan ibnu sabil (musafir yang kehabisan bekal) '. Atau seperti yang didabdakan oleh Nabi Shallallahu'alaihiwasallam: 'Dan sesungguhnya barangsiapa yang mengambil harta dunia tanpa hak ia seperti orang yang memakan namun tidak pernah kenyang dan harta itu akan menjadi saksi yang menuntutnya pada hari qiyamat'.'