هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6089 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ أَكْثَرَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ بَرَكَاتِ الأَرْضِ قِيلَ : وَمَا بَرَكَاتُ الأَرْضِ ؟ قَالَ : زَهْرَةُ الدُّنْيَا فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : هَلْ يَأْتِي الخَيْرُ بِالشَّرِّ ؟ فَصَمَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ ، ثُمَّ جَعَلَ يَمْسَحُ عَنْ جَبِينِهِ ، فَقَالَ : أَيْنَ السَّائِلُ ؟ قَالَ : أَنَا - قَالَ أَبُو سَعِيدٍ : لَقَدْ حَمِدْنَاهُ حِينَ طَلَعَ ذَلِكَ - قَالَ : لاَ يَأْتِي الخَيْرُ إِلَّا بِالخَيْرِ ، إِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ ، وَإِنَّ كُلَّ مَا أَنْبَتَ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ حَبَطًا أَوْ يُلِمُّ ، إِلَّا آكِلَةَ الخَضِرَةِ ، أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا ، اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ ، فَاجْتَرَّتْ وَثَلَطَتْ وَبَالَتْ ، ثُمَّ عَادَتْ فَأَكَلَتْ . وَإِنَّ هَذَا المَالَ حُلْوَةٌ ، مَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ ، وَوَضَعَهُ فِي حَقِّهِ ، فَنِعْمَ المَعُونَةُ هُوَ ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  قال أبو سعيد : لقد حمدناه حين طلع ذلك قال : لا يأتي الخير إلا بالخير ، إن هذا المال خضرة حلوة ، وإن كل ما أنبت الربيع يقتل حبطا أو يلم ، إلا آكلة الخضرة ، أكلت حتى إذا امتدت خاصرتاها ، استقبلت الشمس ، فاجترت وثلطت وبالت ، ثم عادت فأكلت . وإن هذا المال حلوة ، من أخذه بحقه ، ووضعه في حقه ، فنعم المعونة هو ، ومن أخذه بغير حقه كان كالذي يأكل ولا يشبع
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri:

Allah's Messenger (ﷺ) said, The thing I am afraid of most for your sake, is the worldly blessings which Allah will bring forth to you. It was said, What are the blessings of this world? The Prophet (ﷺ) said, The pleasures of the world. A man said, Can the good bring forth evil? The Prophet (ﷺ) kept quiet for a while till we thought that he was being inspired divinely. Then he started removing the sweat from his forehead and said, Where is the questioner? That man said, I (am present). Abu Sa`id added: We thanked the man when the result (of his question) was such. The Prophet (ﷺ) said, Good never brings forth but good. This wealth (of the world) is (like) green and sweet (fruit), and all the vegetation which grows on the bank of a stream either kills or nearly kills the animal that eats too much of it, except the animal that eats the Khadira (a kind of vegetation). Such an animal eats till its stomach is full and then it faces the sun and starts ruminating and then it passes out dung and urine and goes to eat again. This worldly wealth is (like) sweet (fruit), and if a person earns it (the wealth) in a legal way and spends it properly, then it is an excellent helper, and whoever earns it in an illegal way, he will be like the one who eats but is never satisfied.

":"ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے زید بن اسلم نے ، ان سے عطا ء بن یسار نے اور ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے متعلق سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ زمین کی برکتیں تمہارے لئے نکال دے گا ۔ پوچھا گیا زمین کی برکتیں کیا ہیں ؟ فرمایا کہ دنیا کی چمک دمک ، اس پر ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا بھلائی سے برائی پیدا ہو سکتی ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش ہو گئے اور ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ وحی نازل ہو رہی ہے ۔ اس کے بعد اپنی پیشانی کو صاف کرنے لگے اور دریافت فرمایا ، پوچھنے والے کہاں ہیں ؟ پوچھنے والے نے کہا کہ حاضر ہوں ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب اس سوال کا حل ہمارے سامنے آ گیا تو ہم نے ان صاحب کی تعریف کی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھلائی سے تو صرف بھلائی ہی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ مال سرسبز اور خوشگوار ( گھاس کی طرح ) ہے اور جو چیزبھی ربیع کے موسم میں اگتی ہیں وہ حرص کے ساتھ کھانے والوں کو ہلاک کر دیتی ہیں یا ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہیں ۔ سوائے اس جانور کے جو پیٹ بھر کے کھائے کہ جب اس نے کھا لیا اور اس کی دونوں کوکھ بھر گئیں تو اس نے سورج کی طرف منہ کر کے جگالی کر لی اور پھر پاخانہ پیشاب کر دیا اور اس کے بعد پھر لوٹ کے کھا لیا اور یہ مال بھی بہت شیریں ہے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور حق میں خرچ کیا تو وہ بہترین ذریعہ ہے اور جس نے اسے ناجائز طریقہ سے حاصل کیا تو وہ اس شخص جیسا ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا ۔