هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6933 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ ، قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ : أَشَهِدْتَ العِيدَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَلَوْلاَ مَنْزِلَتِي مِنْهُ ، مَا شَهِدْتُهُ مِنَ الصِّغَرِ ، فَأَتَى العَلَمَ الَّذِي عِنْدَ دَارِ كَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ ، فَصَلَّى ، ثُمَّ خَطَبَ وَلَمْ يَذْكُرْ أَذَانًا وَلاَ إِقَامَةً ، ثُمَّ أَمَرَ بِالصَّدَقَةِ فَجَعَلَ النِّسَاءُ يُشِرْنَ إِلَى آذَانِهِنَّ وَحُلُوقِهِنَّ ، فَأَمَرَ بِلاَلًا فَأَتَاهُنَّ ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6933 حدثنا محمد بن كثير ، أخبرنا سفيان ، عن عبد الرحمن بن عابس ، قال : سئل ابن عباس : أشهدت العيد مع النبي صلى الله عليه وسلم ؟ قال : نعم ، ولولا منزلتي منه ، ما شهدته من الصغر ، فأتى العلم الذي عند دار كثير بن الصلت ، فصلى ، ثم خطب ولم يذكر أذانا ولا إقامة ، ثم أمر بالصدقة فجعل النساء يشرن إلى آذانهن وحلوقهن ، فأمر بلالا فأتاهن ، ثم رجع إلى النبي صلى الله عليه وسلم
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated `Abdur-Rahman bin `Abis:

Ibn `Abbas was asked, Did you offer the Id prayer with the Prophet? He said, Yes, had it not been for my close relation to the Prophet, I would not have performed it (with him) because of my being too young The Prophet (ﷺ) came to the mark which is near the home of Kathir bin As-Salt and offered the Id prayer and then delivered the sermon. I do not remember if any Adhan or Iqama were pronounced for the prayer. Then the Prophet (ﷺ) ordered (the women) to give alms, and they started stretching out their hands towards their ears and throats (giving their ornaments in charity), and the Prophet (ﷺ) ordered Bilal to go to them (to collect the alms), and then Bilal returned to the Prophet.

":"ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی ‘ ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہکیا آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید میں گئے ہیں ؟ کہا کہ ہاں میں اس وقت کم سن تھا ۔ اگر آنخصرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھ کو اتنا نزدیک کا رشتہ نہ ہوتا اور کم سن نہ ہوتا تو آپ کے ساتھ کبھی نہیں رہ سکتا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکل کر اس نشان کے پاس آئے جو کثیر بن صلت کے مکان کے پاس ہے اور وہاں آپ نے نمازعید پڑھائی پھر خطبہ دیا ۔ انہوں نے اذان اور اقامت کا ذکر نہیں کیا ‘ پھر آپ نے صدقہ دینے کا حکم دیا تو عورتیں اپنے کانوں اور گردنوں کی طرف ہاتھ بڑھانے لگیں زیوروں کا صدقہ دینے کے لیے ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا ۔ وہ آئے اور صدقہ میں ملی ہوئی چیزوں کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس گئے ۔