هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
3306 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : بَيْنَمَا ثَلاَثَةُ نَفَرٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ يَمْشُونَ ، إِذْ أَصَابَهُمْ مَطَرٌ ، فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فَانْطَبَقَ عَلَيْهِمْ ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ : إِنَّهُ وَاللَّهِ يَا هَؤُلاَءِ ، لاَ يُنْجِيكُمْ إِلَّا الصِّدْقُ ، فَليَدْعُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بِمَا يَعْلَمُ أَنَّهُ قَدْ صَدَقَ فِيهِ ، فَقَالَ وَاحِدٌ مِنْهُمْ : اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي أَجِيرٌ عَمِلَ لِي عَلَى فَرَقٍ مِنْ أَرُزٍّ ، فَذَهَبَ وَتَرَكَهُ ، وَأَنِّي عَمَدْتُ إِلَى ذَلِكَ الفَرَقِ فَزَرَعْتُهُ ، فَصَارَ مِنْ أَمْرِهِ أَنِّي اشْتَرَيْتُ مِنْهُ بَقَرًا ، وَأَنَّهُ أَتَانِي يَطْلُبُ أَجْرَهُ ، فَقُلْتُ لَهُ : اعْمِدْ إِلَى تِلْكَ البَقَرِ فَسُقْهَا ، فَقَالَ لِي : إِنَّمَا لِي عِنْدَكَ فَرَقٌ مِنْ أَرُزٍّ ، فَقُلْتُ لَهُ : اعْمِدْ إِلَى تِلْكَ البَقَرِ ، فَإِنَّهَا مِنْ ذَلِكَ الفَرَقِ فَسَاقَهَا ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا ، فَانْسَاحَتْ عَنْهُمُ الصَّخْرَةُ ، فَقَالَ الآخَرُ : اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ ، فَكُنْتُ آتِيهِمَا كُلَّ لَيْلَةٍ بِلَبَنِ غَنَمٍ لِي ، فَأَبْطَأْتُ عَلَيْهِمَا لَيْلَةً ، فَجِئْتُ وَقَدْ رَقَدَا وَأَهْلِي وَعِيَالِي يَتَضَاغَوْنَ مِنَ الجُوعِ ، فَكُنْتُ لاَ أَسْقِيهِمْ حَتَّى يَشْرَبَ أَبَوَايَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُمَا ، وَكَرِهْتُ أَنْ أَدَعَهُمَا ، فَيَسْتَكِنَّا لِشَرْبَتِهِمَا ، فَلَمْ أَزَلْ أَنْتَظِرُ حَتَّى طَلَعَ الفَجْرُ ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا ، فَانْسَاحَتْ عَنْهُمُ الصَّخْرَةُ حَتَّى نَظَرُوا إِلَى السَّمَاءِ ، فَقَالَ الآخَرُ : اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي ابْنَةُ عَمٍّ ، مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ ، وَأَنِّي رَاوَدْتُهَا عَنْ نَفْسِهَا فَأَبَتْ ، إِلَّا أَنْ آتِيَهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ ، فَطَلَبْتُهَا حَتَّى قَدَرْتُ ، فَأَتَيْتُهَا بِهَا فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهَا ، فَأَمْكَنَتْنِي مِنْ نَفْسِهَا ، فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا ، فَقَالَتْ : اتَّقِ اللَّهَ وَلاَ تَفُضَّ الخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ ، فَقُمْتُ وَتَرَكْتُ المِائَةَ دِينَارٍ ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا ، فَفَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَخَرَجُوا
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
3306 حدثنا إسماعيل بن خليل ، أخبرنا علي بن مسهر ، عن عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر رضي الله عنهما ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : بينما ثلاثة نفر ممن كان قبلكم يمشون ، إذ أصابهم مطر ، فأووا إلى غار فانطبق عليهم ، فقال بعضهم لبعض : إنه والله يا هؤلاء ، لا ينجيكم إلا الصدق ، فليدع كل رجل منكم بما يعلم أنه قد صدق فيه ، فقال واحد منهم : اللهم إن كنت تعلم أنه كان لي أجير عمل لي على فرق من أرز ، فذهب وتركه ، وأني عمدت إلى ذلك الفرق فزرعته ، فصار من أمره أني اشتريت منه بقرا ، وأنه أتاني يطلب أجره ، فقلت له : اعمد إلى تلك البقر فسقها ، فقال لي : إنما لي عندك فرق من أرز ، فقلت له : اعمد إلى تلك البقر ، فإنها من ذلك الفرق فساقها ، فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا ، فانساحت عنهم الصخرة ، فقال الآخر : اللهم إن كنت تعلم أنه كان لي أبوان شيخان كبيران ، فكنت آتيهما كل ليلة بلبن غنم لي ، فأبطأت عليهما ليلة ، فجئت وقد رقدا وأهلي وعيالي يتضاغون من الجوع ، فكنت لا أسقيهم حتى يشرب أبواي فكرهت أن أوقظهما ، وكرهت أن أدعهما ، فيستكنا لشربتهما ، فلم أزل أنتظر حتى طلع الفجر ، فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا ، فانساحت عنهم الصخرة حتى نظروا إلى السماء ، فقال الآخر : اللهم إن كنت تعلم أنه كان لي ابنة عم ، من أحب الناس إلي ، وأني راودتها عن نفسها فأبت ، إلا أن آتيها بمائة دينار ، فطلبتها حتى قدرت ، فأتيتها بها فدفعتها إليها ، فأمكنتني من نفسها ، فلما قعدت بين رجليها ، فقالت : اتق الله ولا تفض الخاتم إلا بحقه ، فقمت وتركت المائة دينار ، فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا ، ففرج الله عنهم فخرجوا
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated Ibn `Umar:

Allah's Messenger (ﷺ) said, Once three persons (from the previous nations) were traveling, and suddenly it started raining and they took shelter in a cave. The entrance of the cave got closed while they were inside. They said to each other, 'O you! Nothing can save you except the truth, so each of you should ask Allah's Help by referring to such a deed as he thinks he did sincerely (i.e. just for gaining Allah's Pleasure).' So one of them said, 'O Allah! You know that I had a laborer who worked for me for one Faraq (i.e. three Sas) of rice, but he departed, leaving it (i.e. his wages). I sowed that Faraq of rice and with its yield I bought cows (for him). Later on when he came to me asking for his wages, I said (to him), 'Go to those cows and drive them away.' He said to me, 'But you have to pay me only a Faraq of rice,' I said to him, 'Go to those cows and take them, for they are the product of that Faraq (of rice).' So he drove them. O Allah! If you consider that I did that for fear of You, then please remove the rock.' The rock shifted a bit from the mouth of the cave. The second one said, 'O Allah, You know that I had old parents whom I used to provide with the milk of my sheep every night. One night I was delayed and when I came, they had slept, while my wife and children were crying with hunger. I used not to let them (i.e. my family) drink unless my parents had drunk first. So I disliked to wake them up and also disliked that they should sleep without drinking it, I kept on waiting (for them to wake) till it dawned. O Allah! If You consider that I did that for fear of you, then please remove the rock.' So the rock shifted and they could see the sky through it. The (third) one said, 'O Allah! You know that I had a cousin (i.e. my paternal uncle's daughter) who was most beloved to me and I sought to seduce her, but she refused, unless I paid her one-hundred Dinars (i.e. gold pieces). So I collected the amount and brought it to her, and she allowed me to sleep with her. But when I sat between her legs, she said, 'Be afraid of Allah, and do not deflower me but legally. 'I got up and left the hundred Dinars (for her). O Allah! If You consider that I did that for fear of you than please remove the rock. So Allah saved them and they came out (of the cave).

D'après ibn 'Umar, le Messager d'Allah dit: «Tandis que trois hommes d'entre ceux qui ont vécu avant vous étaient en train de marcher, la pluie les surprit. Ils se dirigèrent vers une grotte où ils s'abritèrent; mais l'ouverture de cette grotte se referma derrière eux. Alors ils se dirent: Par Allah! à part la vérité, rien ne peut nous tirer d'affaire; que chacun de nous invoque [Allah] en mentionnant une њuvre dans laquelle il se voyait sincère! «  Allah! s'écria le premier, tu sais bien que j'avais un ouvrier qui a fait un travail pour moi moyennant un faraq de riz mais qui est parti en laissant son

":"ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا ، کہا ہم کو علی بن مسہر نے خبر دی ، انہیں عبیداللہ بن عمر نے ، انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پچھلے زمانے میں ( بنی اسرائیل میں سے ) تین آدمی کہیں راستے میں جا رہے تھے کہ اچانک بارش نے انہیں آ لیا ۔ وہ تینوں پہاڑ کے ایک کھوہ ( غار ) میں گھس گئے ( جب وہ اندر چلے گئے ) تو غار کا منہ بند ہو گیا ۔ اب تینوں آپس میں یوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سے اب تو صرف سچائی ہی نجات دلائے گی ۔ بہتر یہ ہے کہ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے کیا تھا ۔ چنانچہ ایک نے اس طرح دعا کی ، اے اللہ ! تجھ کو خوب معلوم ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا جس نے ایک فرق ( تین صاع ) چاول کی مزدوری پر میرا کام کیا تھا لیکن وہ شخص ( غصہ میں آ کر ) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑ گیا ۔ پھر میں نے اس ایک فرق چاول کو لیا اور اس کی کاشت کی ۔ اس سے اتنا کچھ ہو گیا کہ میں نے پیداوار میں سے گائے بیل خرید لئے ۔ اس کے بہت دن بعد وہی شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا ۔ میں نے کہا کہ یہ گائے بیل کھڑے ہیں ان کو لے جا ۔ اس نے کہا کہ میرا تو صرف ایک فرق چاول تم پر ہونا چاہیے تھا ۔ میں نے اس سے کہا یہ سب گائے بیل لے جا کیونکہ اسی ایک فرق کی آمدنی ہے ۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا ۔ پس اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ ایمانداری میں نے صرف تیرے ڈر سے کی تھی تو تو غار کا منہ کھول دے ۔ چنانچہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا ۔ پھر دوسرے نے اس طرح دعا کی ۔ اے اللہ ! تجھے خوب معلوم ہے کہ میرے ماں باپ جب بوڑھے ہو گئے تو میں ان کی خدمت میں روزانہ رات میں اپنی بکریوں کا دودھ لا کر پلایا کرتا تھا ۔ ایک دن اتفاق سے میں دیر سے آیا تو وہ سو چکے تھے ۔ ادھر میرے بیوی اور بچے بھوک سے بلبلا رہے تھے لیکن میری عادت تھی کہ جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لوں ، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا مجھے انہیں بیدار کرنا بھی پسند نہیں تھا اور چھوڑنا بھی پسند نہ تھا ( کیونکہ یہی ان کا شام کا کھانا تھا اور اس کے نہ پینے کی وجہ سے وہ کمزور ہو جاتے ) پس میں ان کا وہیں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی ۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تو ہماری مشکل دور کر دے ۔ اس وقت وہ پتھر کچھ اور ہٹ گیا اور اب آسمان نظر آنے لگا ۔ پھر تیسرے شخص نے یوں دعا کی ، اے اللہ ! میری ایک چچا زاد بہن تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی ۔ میں نے ایک بار اس سے صحبت کرنی چاہی ، اس نے انکار کیا مگر اس شرط پر تیار ہوئی کہ میں اسے سو اشرفی لا کر دے دوں ۔ میں نے یہ رقم حاصل کرنے کے لئے کوشش کی ۔ آخر وہ مجھے مل گئی تو میں اس کے پاس آیا اور وہ رقم اس کے حوالے کر دی ۔ اس نے مجھے اپنے نفس پر قدرت دے دی ۔ جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ چکا تو اس نے کہا کہ اللہ سے ڈر اور مہر کو بغیر حق کے نہ توڑ ۔ میں ( یہ سنتے ہی ) کھڑا ہو گیا اور سو اشرفی بھی واپس نہیں لی ۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ عمل تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تو ہماری مشکل آسان کر دے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مشکل دور کر دی اور وہ تینوں باہر نکل آئے ۔

D'après ibn 'Umar, le Messager d'Allah dit: «Tandis que trois hommes d'entre ceux qui ont vécu avant vous étaient en train de marcher, la pluie les surprit. Ils se dirigèrent vers une grotte où ils s'abritèrent; mais l'ouverture de cette grotte se referma derrière eux. Alors ils se dirent: Par Allah! à part la vérité, rien ne peut nous tirer d'affaire; que chacun de nous invoque [Allah] en mentionnant une њuvre dans laquelle il se voyait sincère! «  Allah! s'écria le premier, tu sais bien que j'avais un ouvrier qui a fait un travail pour moi moyennant un faraq de riz mais qui est parti en laissant son

شرح الحديث من إرشاد الساري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    باب حَدِيثُ الْغَارِ
(حديث الغار).


[ قــ :3306 ... غــ : 3465 ]
- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ -رضي الله عنهما- أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: «بَيْنَمَا ثَلاَثَةُ نَفَرٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ يَمْشُونَ إِذْ أَصَابَهُمْ مَطَرٌ، فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فَانْطَبَقَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: إِنَّهُ وَاللَّهِ يَا هَؤُلاَءِ لاَ يُنْجِيكُمْ إِلاَّ الصِّدْقُ، فَلْيَدْعُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بِمَا يَعْلَمُ أَنَّهُ قَدْ صَدَقَ فِيهِ.
فَقَالَ وَاحِدٌ مِنْهُمُ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي أَجِيرٌ عَمِلَ لِي عَلَى فَرَقٍ مِنْ أَرُزٍّ، فَذَهَبَ وَتَرَكَهُ، وَأَنِّي عَمَدْتُ إِلَى ذَلِكَ الْفَرَقِ فَزَرَعْتُهُ، فَصَارَ مِنْ أَمْرِهِ أَنِّي اشْتَرَيْتُ مِنْهُ بَقَرًا، وَأَنَّهُ أَتَانِي يَطْلُبُ أَجْرَهُ، فَقُلْتُ لَهُ: اعْمِدْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ.
فَسُقْهَا، فَقَالَ لِي: إِنَّمَا لِي عِنْدَكَ فَرَقٌ مِنْ أَرُزٍّ.
فَقُلْتُ لَهُ: اعْمِدْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ، فَإِنَّهَا مِنْ ذَلِكَ الْفَرَقِ.
فَسَاقَهَا.
فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا.
فَانْسَاخَتْ عَنْهُمُ الصَّخْرَةُ.
فَقَالَ الآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ، وَكُنْتُ آتِيهِمَا كُلَّ لَيْلَةٍ بِلَبَنِ غَنَمٍ لِي، فَأَبْطَأْتُ عَنهمَا لَيْلَةً، فَجِئْتُ وَقَدْ رَقَدَا؛ وَأَهْلِي وَعِيَالِي يَتَضَاغَوْنَ مِنَ الْجُوعِ، وَكُنْتُ لاَ أَسْقِيهِمْ حَتَّى يَشْرَبَ أَبَوَاىَ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُمَا، وَكَرِهْتُ أَنْ أَدَعَهُمَا فَيَسْتَكِنَّا لِشَرْبَتِهِمَا، فَلَمْ أَزَلْ أَنْتَظِرُ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ.
فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ، فَفَرِّجْ عَنَّا.
فَانْسَاخَتْ عَنْهُمُ الصَّخْرَةُ حَتَّى نَظَرُوا إِلَى السَّمَاءِ.
فَقَالَ الآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي ابْنَةُ عَمٍّ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَىَّ، وَأَنِّي رَاوَدْتُهَا عَنْ نَفْسِهَا فَأَبَتْ إِلاَّ أَنْ آتِيَهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَطَلَبْتُهَا حَتَّى قَدَرْتُ، فَأَتَيْتُهَا بِهَا فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهَا، فَأَمْكَنَتْنِي مِنْ نَفْسِهَا، فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا فَقَالَتِ اتَّقِ اللَّهَ وَلاَ تَفُضَّ الْخَاتَمَ إِلاَّ بِحَقِّهِ , فَقُمْتُ وَتَرَكْتُ الْمِائَةَ دِينَارٍ.
فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا، فَفَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَخَرَجُوا».

وبه قال: (حدّثنا إسماعيل بن خليل) الخزاز بمعجمات أبو عبد الله الكوفي قال: (أخبرنا علي بن مسهر) بضم الميم وسكون السين المهملة وكسر الهاء بعدها راء القرشي الكوفي قاضي الموصل (عن عبيد الله) بضم العين مصغرًا (ابن عمر عن نافع) مولى ابن عمر (عن ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قال):
(بينما) بالميم (ثلاثة نفر) لم يسموا (ممن كان قبلكم) في الطبراني عن عقبة بن عامر من بني إسرائيل (يمشون) مرفوع خبر ثلاثة.
وفي حديث عقبة المذكور وأبي هريرة عند ابن حبان والبزار أنهم خرجوا يرتادون (لأهلهم إذ أصابهم مطر فأووا) بقصر الهمزة في الفرع كأصله وتمد (إلى غار فانطبق عليهم) باب الغار.
وعند الطبراني من حديث النعمان من وجه آخر إذ وقع حجر من الجبل مما يهبط من خشية الله حتى سد فم الغار (فقال بعضهم لبعض: إنه) إن الشأن (والله يا هؤلاء لا ينجيكم) بضم أوله وسكون النون مخففًا ولأبي ذر ينجيكم بفتح النون مثقلاً مما أنتم فيه
(إلا الصدق فليدع كل رجل منكم بما يعلم أنه قد صدق فيه) في حديث علي عند البزار: تفكّروا في أحسن أعمالكم فادعوا الله بها لعل الله يفرج عنكم.

(فقال: واحد منهم) سقط واحد وتاليه لأبوي ذر والوقت بإسقاط القائل (اللهم إن كنت تعلم) ظاهره الشك والمؤمن يجزم بأن الله تعالى عالم بذلك فهو على خلاف الظاهر فالمعنى أنت تعلم (إنه كان لي أجير عمل لي) بكسر الميم عملاً (على فرق) بفتح الفاء والراء بعدها قاف مكيال يسع ثلاثة آصع (من أرز) بفتح الهمزة وضم الراء وتشديد الزاي، ولأبي ذر: ارز بضم الهمزة وفتحها وسكون الراء (فذهب وتركه) في حديث النعمان بن بشير عند أحمد كان لي أجراء يعملون فاستأجرت كل رجل منهم بأجر معلوم فجاء رجل ذات يوم في نصف النهار فاستأجرته بشطر أصحابه فعمل في نصف نهاره كما عمل رجل منهم في نهاره كله فرأيت علي في الزمان أن لا أنقصه مما استأجرت به أصحابه لما جهد في عمله فقال رجل منهم: تعطي هذا مثل ما أعطيتني.

فقلت: يا عبد الله لم أبخسك شيئًا من شرطك وإنما هو مالي أحكم فيه بما شئت.
قال: فغضب وذهب وترك أجره (وأني) بفتح الهمزة (عمدت) بفتح العين والميم (إلى ذلك الفرق فزرعته فصار من أمره أني اشتريت) ولأبي ذر عن الكشميهني: أن اشتريت (منه بقرًا) زاد موسى بن عقبة وراعيها (وأنه أتاني يطلب أجره فقلت: اعمد) بكسر الميم ولأبي ذر فقلت له اعمد (إلى تلك البقر
فسقها فقال لي إنما لي عندك فرق من أرز) بالتشديد مع فتح الهمزة وضم الراء (فقلت له: اعمد) بكسر الميم (إلى تلك البقر فإنها من ذلك الفرق فساقها فإن كنت تعلم) أن عملي هذا مقبول و (أني فعلت ذلك من خشيتك ففرّج عنا) ما نحن فيه وكأنه لم يجزم بقبول عمله (فانساخت) بهمزة الوصل وسكون النون وبالسين المهملة والخاء المعجمة المفتوحتين بينهما ألف أي انشقت (عنهم الصخرة).
ويقال: انصاخت بالصاد بدل السين أي انشق من قبل نفسه، وأنكر الخطابي انساخت بالسين والخاء المعجمة وصوب كونها بالحاء المهملة وهي التي في اليونينية وفرعها أي اتسعت، لكن الرواية بالسين والخاء المعجمة صحيحة وإن كان الأصل بالصاد فهي تقلب سينًا.
وفي حديث النعمان بن بشير فانصدع الجبل حتى رأوا الضوء.
وفي حديث أبي هريرة عند ابن حبان فزال ثلث الحجر.

(فقال الآخر: اللهم إن كنت) أي أنت (تعلم كان) وللأصيلي أنه كان (لي أبوان) فهو من باب التغليب أي أب وأم (شيخان كبيران) وفي حديث علي أبوان ضعيفان فقيران ليس لهما خادم ولا راع ولا ولي غيري فكنت أرعى لهما بالنهار وآوي إليهما بالليل (وكنت) ولغير أبوي ذر والوقت فكنت (آتيهما) بالمد (كل ليلة بلبن غنم لي فأبطأت عليهما) ولأبي ذر عنهما (ليلة) بسبب تباعد العشب الذي ترعاه الغنم (فجئت وقد رقدا) الأبوان (وأهلي) مبتدأ (وعيالي) عطف عليه والخبر (يتضاغون) بضاد وغين معجمتين أي وزوجتي وأولادي وغيرهم يتصايحون أو يستغيثون (من الجوع) بسبب الجوع (فكنت) بالفاء ولأبي ذر كنت (لا أسقيهم) شيئًا من اللبن (حتى يشرب
أبواي فكرهت أن أوقظهما) من نومهما فيشق عليهما (وكرهت أن أدعهما) أتركهما (فيستكنا) بتشديد النون في الفرع كأصله من الاستكنان أي يلبثا في كونهما منتظرين (لشربتهما) أو بتخفيف النون كما أفهمه كلام الكرماني، وتفسير الحافظ ابن حجر مقتصرًا عليه حيث قال: وأما كراهية أن يدعهما فقد فسره بقوله فيستكنا لشربتهما أي يضعفا لأنه عشاؤهما وترك العشاء يهرم، وقوله: يستكنا من الاستكانة، وقوله لشربتهما أي لعدم شربهما فيصيران ضعيفين مسكينين والمسكين الذي لا شيء له انتهى.

(فلم أزل انتظر) استيقاظهما (حتى طلع الفجر فإن كنت تعلم) أن عملي هذا مقبول و (أني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا) ما نحن فيه (فانساخت عنهم الصخرة) بالخاء المعجمة أي انشقت (حتى نظروا إلى السماء.
فقال الأخر: اللهم إن كنت تعلم) أي أنت تعلم (أنه كان) ولأبي ذر كانت (لي ابنة عم) لم تسم (من أحب الناس إليّ) زاد في رواية موسى بن عقبة في باب إذا اشتر شيئًا لغيره بغير إذنه من البيوع كأشدّ ما يحب الرجال النساء (وإني راودتها عن نفسها) أي طلبت منها النكاح يقال راود فلان جاريته على نفسها وراودته هي على نفسه إذا حاول كل منهما الوطء، وعداه هنا بعن لأنه ضمن معنى المخادعة أي خادعتها عن نفسها والمفاعلة هنا من الواحد نحو: داويت المريض أو هي على بابها فإن كل واحد منهما كان يطلب من صاحبه شيئًا برفق هو يطلب منها الفعل وهي تطلب منه الترك إلا أن أعطاها مالاً كما قال (فأبت) أي امتنعت (إلا أن آتيها بمائة دينار).
وفي رواية سالم عن أبيه في باب من استأجر أجيرًا من البيوع فامتنعت مني حتى ألمت بها سنة أي سنة قحط فجاءتني فأعطيتها عشرين ومائة دينار، وجمع بينه وبين رواية الباب بأنها امتنعت أوّلاً عفة عنه ودافعته بطلب المال فلما احتاجت أجابت، وأما قوله فأعطيتها عشرين ومائة دينار فيحتمل أنها طلبت منه المائة وزادها من قبل نفسه العشرين (فطلبتها) أي المائة دينار (حتى قدرت) عليها (فأتيتها بها فدفعتها إليها) وفي حديث النعمان أنها ترددت إليه ثلاث مرات تطلب شيئًا من معروفه ويأبى عليها إلا أن تمكنه من نفسها فأجابت في الثالثة بعد أن استأذنت زوجها فأذن لها وقال لها: أغني عيالك.
قال: فرجعت فناشدتني بالله (فأمكنتني من نفسها فلما قعدت بين رجليها) أي جلست منها مجلس الرجل من امرأته لأطأها (قالت): كذا في الفرع والمدّ في أصله فقالت (اتق الله ولا تفض الخاتم إلا بحقه) بفتح التاء وضم الفاء وتشديد الضاد المعجمة أي لا تكسره وكنّت عن عذرتها بالخاتم وكأنها كانت بكرًا فقالت: لا تزل بكارتي إلا بتزويج صحيح، لكن في حديث النعمان بن بشير ما يدل على أنها لم تكن بكرًا فتكون كنّت عن الإفضاء بالكسر وعن الفرج بالخاتم، وفي حديث عليّ فقالت: أذكرك الله أن تركب مني ما حرم الله عليك.
وفي حديث النعمان فأسلمت إليّ نفسها فلما كشفتها أرعدت من تحتي فقلت: مالك؟ قالت: أخاف الله رب العالمين، فقلت: خفتيه في الشّدة ولم أخفه في الرخاء.

وفي حديث ابن أبي أوفى عند الطبراني فما جلست منها مجلس الرجل من المرأة ذكرت النار (فقمت) عنها من غير فعل (وتركت المائة دينار) ولأبي ذر وتركت المائة الدينار (فإن كنت تعلم) أن
عملي مقبول (وأني فعلت ذلك من خشيتك ففرّج عنا) ما نحن فيه (ففرج الله عنهم فخرجوا) من الغار يمشون.

فإن قلت: أي الثلاثة أفضل؟ أجيب: صاحب المرأة لأنه اجتمع فيه الخشية وقد قال تعالى: (وأما من خاف مقام ربه ونهى النفس عن الهوى فإن الجنة هي المأوى} [النازعات: 40] قال الغزالي: شهوة الفرج أغلب الشهوات على الإنسان وأعصاها عند الهيجان على الفعل فمن ترك الزنا خوفًا من الله تعالى مع القدرة وارتفاع الموانع وتيسر الأسباب سيما عند صدق الشهوة نال درجة الصديقين.

وهذا الحديث سبق في باب: من استأجر أجيرًا فترك أجره عن سالم، وفي باب إذا اشترى شيئًا لغيره عن موسى بن عقبة عن نافع، وفي باب إذا زرع بمال قوم عن موسى بن عقبة أيضًا ولم يخرجه إلا من رواية ابن عمر، ورواه الطبراني عن أنس وابن حبان عن أبي هريرة، وأحمد عن النعمان بن بشير، والطبراني عن علي وعقبة بن عامر وعبد الله بن عمرو بن العاصي وعبد الله بن أبي أوفى، واتفقوا على أن القصص الثلاثة في الأجير والمرأة والأبوين إلا حديث عقبة بن عامر ففيه بدل الأجير أن الثالث قال: كنت في غنم أرعاها فحضرت الصلاة فقمت أصلي فجاء الذئب فدخل الغنم فكرهت أن أقطع صلاتي فصبرت حتى فرغت، واختلافهم في التقديم والتأخير يفيد جواز الرواية بالمعنى.