هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
2303 حَدَّثَنَا مُوسَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : أُصِيبَ عَبْدُ اللَّهِ ، وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا ، فَطَلَبْتُ إِلَى أَصْحَابِ الدَّيْنِ أَنْ يَضَعُوا بَعْضًا مِنْ دَيْنِهِ فَأَبَوْا ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَاسْتَشْفَعْتُ بِهِ عَلَيْهِمْ ، فَأَبَوْا ، فَقَالَ : صَنِّفْ تَمْرَكَ كُلَّ شَيْءٍ مِنْهُ عَلَى حِدَتِهِ ، عِذْقَ ابْنِ زَيْدٍ عَلَى حِدَةٍ ، وَاللِّينَ عَلَى حِدَةٍ ، وَالعَجْوَةَ عَلَى حِدَةٍ ، ثُمَّ أَحْضِرْهُمْ حَتَّى آتِيَكَ ، فَفَعَلْتُ ، ثُمَّ جَاءَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَعَدَ عَلَيْهِ ، وَكَالَ لِكُلِّ رَجُلٍ حَتَّى اسْتَوْفَى ، وَبَقِيَ التَّمْرُ كَمَا هُوَ ، كَأَنَّهُ لَمْ يُمَسَّ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
2303 حدثنا موسى ، حدثنا أبو عوانة ، عن مغيرة ، عن عامر ، عن جابر رضي الله عنه ، قال : أصيب عبد الله ، وترك عيالا ودينا ، فطلبت إلى أصحاب الدين أن يضعوا بعضا من دينه فأبوا ، فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم ، فاستشفعت به عليهم ، فأبوا ، فقال : صنف تمرك كل شيء منه على حدته ، عذق ابن زيد على حدة ، واللين على حدة ، والعجوة على حدة ، ثم أحضرهم حتى آتيك ، ففعلت ، ثم جاء صلى الله عليه وسلم فقعد عليه ، وكال لكل رجل حتى استوفى ، وبقي التمر كما هو ، كأنه لم يمس
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Jâbir (radiallahanho) dit: «Tué, 'Abd Allah laissa des enfants et des dettes. Je demandai aux créanciers de soustraire une partie des dettes mais ils refusèrent. J'allai voir le Prophète () pour qu'il intercède auprès d'eux... mais ils refusèrent aussi. Sur ce, le Prophète me dit: Range tes dattes en mettant chaque genre à part: les ibnzayd, les lîn et les 'ajwa. Ensuite appelle les créanciers et attendezmoi jusqu'à ce que je vienne! Je fis la chose et à son arrivée, il () s'assit sur les dattes. Après quoi, il mesura pour chacun des créanciers et leur donna leurs dus en entier. Et quand même, les dattes restèrent telles qu'elles étaient [avant le partage], comme si on ne les avait pas touchées.

":"ہم سے موسیٰ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ا بوعوانہ نے بیان کیا ، ان سے مغیرہ نے ، ان سے عامر نے ، اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ( میرے والد ) عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اپنے پیچھے بال بچے اور قرض چھوڑ گئے ۔ میں قرض خواہوں کے پاس گیا کہ اپنا کچھ قرض معاف کر دیں ، لیکن انہوں نے انکار کیا ، پھر میں نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی سفارش کروائی ۔ انہوں نے اس کے باوجود بھی انکار کیا ۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ ولم نے فرمایا کہ ( اپنے باغ کی ) تمام کھجور کی قسمیں الگ الگ کر لو ۔ عذق بن زید الگ ، لین الگ ، اور عجوہ الگ ( یہ سب عمدہ قسم کی کھجوروں کے نام ہیں ) اس کے بعد قرض خواہوں کو بلاؤ اور میں بھی آؤں گا ۔ چنانچہ میں نے ایسا کر دیا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ڈھیر پر بیٹھ گئے ۔ اور ہر قرض خواہ کے لیے ماپ شروع کر دی ۔ یہاں تک کہ سب کا قرض پورا ہو گیا اور کھجور اسی طرح باقی بچ رہی جیسے پہلے تھی ۔ گویا کسی نے اسے چھوا تک نہیں ۔ اور ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جہاد میں ایک اونٹ پر سوار ہو کر گیا ۔ اونٹ تھک گیا ۔ اس لیے میں لوگوں سے پیچھے رہ گیا ۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیچھے سے مارا اور فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے بیچ دو ۔ مدینہ تک اس پر سواری کی تمہیں اجازت ہے ۔ پھر جب ہم مدینہ سے قریب ہوئے تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی ، عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے ابھی نئی شادی کی ہے ۔ آپ نے دریافت فرمایا ، کنواری سے کی ہے یا بیوہ سے ؟ میں نے کہا کہ بیوہ سے ۔ میرے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اپنے پیچھے کئی چھوٹی بچیاں چھوڑ گئے ہیں ۔ اس لیے میں نے بیوہ سے کی تاکہ انہیں تعلیم دے اور ادب سکھاتی رہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اچھا اب اپنے گھر جاؤ ۔ چنانچہ میں گھر گیا ۔ میں نے جب اپنے ماموں سے اونٹ بیچنے کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے ملامت کی ۔ اس لیے میں نے ان سے اونٹ کے تھک جانے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ کا بھی ذکر کیا ۔ اور آپ کے اونٹ کو مارنے کا بھی ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو میں بھی صبح کے وقت اونٹ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ نے مجھے اونٹ کی قیمت بھی دے دی ، اور وہ اونٹ بھی مجھے واپس بخش دیا اور قوم کے ساتھ میرا ( مال غنیمت کا ) حصہ بھی مجھ کو بخش دیا ۔

Jâbir (radiallahanho) dit: «Tué, 'Abd Allah laissa des enfants et des dettes. Je demandai aux créanciers de soustraire une partie des dettes mais ils refusèrent. J'allai voir le Prophète () pour qu'il intercède auprès d'eux... mais ils refusèrent aussi. Sur ce, le Prophète me dit: Range tes dattes en mettant chaque genre à part: les ibnzayd, les lîn et les 'ajwa. Ensuite appelle les créanciers et attendezmoi jusqu'à ce que je vienne! Je fis la chose et à son arrivée, il () s'assit sur les dattes. Après quoi, il mesura pour chacun des créanciers et leur donna leurs dus en entier. Et quand même, les dattes restèrent telles qu'elles étaient [avant le partage], comme si on ne les avait pas touchées.

شرح الحديث من فتح الباري لابن حجر

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    ( قَولُهُ بَابُ الشَّفَاعَةِ فِي وَضْعِ الدَّيْنِ)
أَيْ فِي تَخْفِيفِهِ ذَكَرَ فِيهِ حَدِيثَ جَابِرٍ فِي دَيْنِ أَبِيهِ وَفِيهِ حَدِيثُهُ فِي قِصَّةِ بَيْعِ الْجَمَلِ جَمَعَهُمَا فِي سِيَاقٍ وَاحِدٍ وَالْمَقْصُودُ مِنْهُ

[ قــ :2303 ... غــ :2405] .

     قَوْلُهُ  فَطَلَبْتُ إِلَى أَصْحَابِ الدَّيْنِ أَنْ يَضَعُوا بَعْضًا فَأَبَوْا فَاسْتَشْفَعْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ فَأَبَوُا الْحَدِيثَ وَقَولُهُ فِي هَذِهِ الرِّوَايَةِ صَنِّفْ تَمْرَكَ أَيِ اجْعَلْ كُلَّ صِنْفٍ وَحْدَهُ وَقَولُهُ عَلَى حِدَةٍ بِكَسْرِ الْحَاءِ وَتَخْفِيفِ الدَّال أَي على انْفِرَاد وَقَوله عذق بن زَيْدٍ بِفَتْحِ الْعَيْنِ وَسُكُونِ الذَّالِ الْمُعْجَمَةِ نَوْعٌ جَيِّدٌ مِنَ التَّمْرِ وَالْعَذْقُ بِالْفَتْحِ النَّخْلَةُ وَاللِّينُ بِكَسْرِ اللَّامِ وَسُكُونِ التَّحْتَانِيَّةِ نَوْعٌ مِنَ التَّمْرِ وَقِيلَ هُوَ الرَّدِيءُ وَقَولُهُ فَأَزْحَفَ بِفَتْحِ الْهَمْزَةِ وَسُكُونِ الزَّايِ وَفَتْحِ الْمُهْمَلَةِ أَيْ كَلَّ وَأَعْيَا وَأَصْلُهُ أَنَّ الْبَعِيرَ إِذَا تَعِبَ يَجُرُّ رَسَنَهُ وَكَأَنَّهُمْ كَنَّوْا بِقَوْلِهِمْ أَزْحَفَ رَسَنَهُ أَيْ جَرَّهُ مِنَ الْإِعْيَاءِ ثُمَّ حَذَفُوا الْمَفْعُولَ لِكَثْرَةِ الِاسْتِعْمَالِ وَحكى بن التِّينِ أَنَّ فِي بَعْضِ النُّسَخِ بِضَمِّ الْهَمْزَةِ وَزَعَمَ أَنَّ الصَّوَابَ زَحَفَ الْجَمَلُ مِنَ الثُّلَاثِيِّ وَكَأَنَّهُ لَمْ يَقِفْ عَلَى مَا قَدَّمْنَاهُ وَقَولُهُ وَوَكَزَهُ كَذَا لِلْأَكْثَرِ بِالْوَاوِ أَيْ ضَرَبَهُ بِالْعَصَا وَفِي رِوَايَةِ أَبِي ذَرٍّ عَنِ الْمُسْتَمْلِي وَالْحَمَوِيِّ وَرَكَزَهُ بِالرَّاءِ أَيْ رَكَزَ فِيهِ الْعَصَا وَالْمُرَادُ الْمُبَالغَة فِي ضربه بهَا وَسَيَأْتِي بَقِيَّةُ الْكَلَامِ عَلَى دَيْنِ أَبِيهِ فِي عَلَامَاتِ النُّبُوَّةِ وَعَلَى بَيْعِ جَمَلِهِ فِي الشُّرُوطِ إِنْ شَاءَ الله تَعَالَى