هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
5421 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الخَطَّابِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، خَرَجَ إِلَى الشَّأْمِ ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أُمَرَاءُ الأَجْنَادِ ، أَبُوعُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاحِ وَأَصْحَابُهُ ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِأَرْضِ الشَّأْمِ . قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَقَالَ عُمَرُ : ادْعُ لِي المُهَاجِرِينَ الأَوَّلِينَ ، فَدَعَاهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ ، وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ الوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّأْمِ ، فَاخْتَلَفُوا ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : قَدْ خَرَجْتَ لِأَمْرٍ ، وَلاَ نَرَى أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : مَعَكَ بَقِيَّةُ النَّاسِ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ نَرَى أَنْ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الوَبَاءِ ، فَقَالَ : ارْتَفِعُوا عَنِّي ، ثُمَّ قَالَ : ادْعُوا لِي الأَنْصَارَ ، فَدَعَوْتُهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ ، فَسَلَكُوا سَبِيلَ المُهَاجِرِينَ ، وَاخْتَلَفُوا كَاخْتِلاَفِهِمْ ، فَقَالَ : ارْتَفِعُوا عَنِّي ، ثُمَّ قَالَ : ادْعُ لِي مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشٍ مِنْ مُهَاجِرَةِ الفَتْحِ ، فَدَعَوْتُهُمْ ، فَلَمْ يَخْتَلِفْ مِنْهُمْ عَلَيْهِ رَجُلاَنِ ، فَقَالُوا : نَرَى أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَلاَ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الوَبَاءِ ، فَنَادَى عُمَرُ فِي النَّاسِ : إِنِّي مُصَبِّحٌ عَلَى ظَهْرٍ فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ . قَالَ أَبُوعُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاحِ : أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللَّهِ ؟ فَقَالَ عُمَرُ : لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ ؟ نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ لَكَ إِبِلٌ هَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ ، إِحْدَاهُمَا خَصِبَةٌ ، وَالأُخْرَى جَدْبَةٌ ، أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الخَصْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ ، وَإِنْ رَعَيْتَ الجَدْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ ؟ قَالَ : فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ - وَكَانَ مُتَغَيِّبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ - فَقَالَ : إِنَّ عِنْدِي فِي هَذَا عِلْمًا ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَقْدَمُوا عَلَيْهِ ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ قَالَ : فَحَمِدَ اللَّهَ عُمَرُ ثُمَّ انْصَرَفَ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  وكان متغيبا في بعض حاجته فقال : إن عندي في هذا علما ، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : إذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه ، وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فرارا منه قال : فحمد الله عمر ثم انصرف
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated `Abdullah bin `Abbas:

`Umar bin Al-Khattab departed for Sham and when he reached Sargh, the commanders of the (Muslim) army, Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah and his companions met him and told him that an epidemic had broken out in Sham. `Umar said, Call for me the early emigrants. So `Umar called them, consulted them and informed them that an epidemic had broken out in Sham. Those people differed in their opinions. Some of them said, We have come out for a purpose and we do not think that it is proper to give it up, while others said (to `Umar), You have along with you. other people and the companions of Allah's Messenger (ﷺ) so do not advise that we take them to this epidemic. `Umar said to them, Leave me now. Then he said, Call the Ansar for me. I called them and he consulted them and they followed the way of the emigrants and differed as they did. He then said to them, Leave me now, and added, Call for me the old people of Quraish who emigrated in the year of the Conquest of Mecca. I called them and they gave a unanimous opinion saying, We advise that you should return with the people and do not take them to that (place) of epidemic. So `Umar made an announcement, I will ride back to Medina in the morning, so you should do the same. Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah said (to `Umar), Are you running away from what Allah had ordained? `Umar said, Would that someone else had said such a thing, O Abu 'Ubaida! Yes, we are running from what Allah had ordained to what Allah has ordained. Don't you agree that if you had camels that went down a valley having two places, one green and the other dry, you would graze them on the green one only if Allah had ordained that, and you would graze them on the dry one only if Allah had ordained that? At that time `Abdur-Rahman bin `Auf, who had been absent because of some job, came and said, I have some knowledge about this. I have heard Allah's Messenger (ﷺ) saying, 'If you hear about it (an outbreak of plague) in a land, do not go to it; but if plague breaks out in a country where you are staying, do not run away from it.' `Umar thanked Allah and returned to Medina.

":"ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے ، انہیں عبدالحمید بن عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب نے ، انہیں عبداللہ بن عبداللہ بن حارث بن نوفل نے اور انہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام تشریف لے جا رہے تھے جب آپ مقام سرغ پر پہنچے تو آپ کی ملاقات فوجوں کے امراء حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں سے ہوئی ۔ ان لوگوں نے امیرالمؤمنین کو بتایا کہ طاعون کی وبا شام میں پھوٹ پڑی ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے پاس مہاجرین اولین کو بلا لاؤ ۔ آپ انہیں بلا لائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مشورہ کیا اور انہیں بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے ، مہاجرین اولین کی رائیں مختلف ہو گئیں ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی باقی ماندہ جماعت آپ کے ساتھ ہے اور یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ انہیں اس وبا میں ڈال دیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا اب آپ لوگ تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ انصار کو بلاؤ ۔ میں انصار کو بلا کر لایا آپ نے ان سے بھی مشورہ کیا اور انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح اختلاف کیا کوئی کہنے لگا چلو ، کوئی کہنے لگا لوٹ جاؤ ۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ اب آپ لوگ بھی تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ یہاں پر جو قریش کے بڑے بوڑھے ہیں جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کر کے مدینہ آئے تھے انہیں بلا لاؤ ، میں انہیں بلا کر لایا ۔ ان لوگوں میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں ہوا سب نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں اور وبائی ملک میں لوگوں کو نہ لے کر جائیں ۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کرا دیا کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہو کر واپس مدینہ منورہ لوٹ جاؤں گا تم لوگ بھی واپس چلو ۔ صبح کو ایسا ہی ہوا حضرت ابوعبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ نے کہا کیا اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کیا جائے گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کاش ! یہ بات کسی اورنے کہی ہوتی ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں لیکن اللہ ہی کی تقدیر کی طرف ۔ کیا تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم انہیں لے کر کسی ایسی وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک سرسبز شاداب اور دوسرا خشک ۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اگر تم سرسبز کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہو گا ۔ اور خشک کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہو گا ۔ بیان کیا کہ پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ آ گئے وہ اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس وقت موجود نہیں تھے انہوں نے بتایا کہ میرے پاس مسئلہ سے متعلق ایک ” علم “ ہے ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا کہ جب تم کسی سرزمین میں ( وبا کے متعلق ) سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب ایسی جگہ وبا آ جائے جہاں تم خود موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو ۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پھر واپس ہو گئے ۔

شرح الحديث من عمدة القاري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،   
[ قــ :5421 ... غــ :5729 ]
- حدّثنا عَبْدُ الله بنُ يُوسُفَ أخبرنَا مالِكٌ عنِ ابنِ شِهابٍ عنْ عبْدِ الحَميدِ بنِ عَبْدِ الرَّحْمانِ بن زَيْدِ بنُ الخَطَّابِ عنْ عَبْدِ الله بنِ عبْد الله بنِ الحارِث بنِ نَوْفَلٍ عنْ عَبْدِ الله بنِ عَبَّاسٍ أنَّ عُمَرَ بنَ الخَطَّابِ رَضِي الله عَنهُ خَرَجَ إِلَى الشَّأْمِ حتَّى إِذا كَانَ بِسرْغَ لَقِيَهُ أُمَراءُ الأجنادِ: أبُو عُبَيْدَةَ بنُ الجَرَّاحِ وأصْحابُهُ، فأخْبرُوهُ أنَّ الوَباءَ قَدْ وقَعَ بأرْضِ الشَّأْمِ.
قَالَ ابنُ عبَّاسٍ فَقَالَ عُمَرُ: ادْعُ لِي المُهاجِرين الأوَّلِينَ، فَدَعاهُمْ فاسْتَشارَهُم وأخْبرَهُمْ أنَّ الْوَباءَ قَدْ وقَعَ بالشَّأْم فاختَلفُوا فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ خَرَجْتَ لإمْرٍ وَلَا نَرَى أنْ تَرْجِعَ عَنْهُ،.

     وَقَالَ  بَعْضُهُم: مَعَك بَقِيَّةُ النَّاسِ وأصْحابُ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَلَا نَرَى أنْ تُقْدِمَهُمْ عَلى هاذَا الْوَباءِ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ لِي الأنْصارَ، فَدَعَوْتُهُمْ فاسْتَشارَهُمْ فَسَلَكُوا سَبِيلَ المُهاجِرِينَ واخْتَلَفُوا كاخْتِلافِهِمْ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي ثُمَّ قَالَ: ادْعُ لِي مَنْ كانَ هاهُنا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشِ منْ مُهاجِرَةِ الفَتْحِ، فَدَعَوْتُهُمْ، فَلَمْ يَخْتَلِفْ مِنْهُمْ عَليهِ رَجُلانِ، فَقَالُوا: نَرَى أنْ تَرْجِعَ بالنَّاسِ وَلَا تُقْدِمَهُمْ عَلى هاذا الْوَباءِ، فَنادَى عُمَرُ فِي النَّاسِ: إنِّي مُصبِّحٌ عَلى ظَهْرٍ فأصْبِحُوا عَليْهِ.
قَالَ أبُو عُبَيْدَةَ بنُ الجَرَّاحِ: أفِراراً مِنْ قَدَرِ الله؟ فَقَالَ عُمَرُ: لَوْ غيْرُكَ قالَها يَا أَبَا عُبَيْدَةَ؟ نَعَمْ، نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ الله إِلَى قَدَرِ الله، أرأيْتَ لَوْ كانَ لَكَ إبِلٌ هَبَطَتْ وادِياً لهُ عُدْوَتانِ إحْدَاهُما خَصِبةٌ والأُخْرى جَدْبَة، ألَيْسَ إنْ رَعَيْتَ الخَصِبَةَ رَعَيْتَها بِقَدَرِ الله؟ وإنْ رَعَيْتَ الجَدْبَةَ رَعَيْتَها بِقَدرِ الله؟ قَالَ: فجاءَ عبْدُ الرَّحْمانِ بنُ عَوْفٍ، وَكَانَ مُتَغَيِّباً فِي بَعْض حاجَتهِ، فَقَالَ: إنَّ عِنْدِي فِي هاذَا عِلْماً، سَمِعْتُ رسولَ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَقولُ: إِذا سَمِعْتُمْ بِهِ بأرْض فَلا تَقْدَمُوا عَليْهِ، وَإِذا وَقَعَ بأرْضٍ وأنْتُمْ بِها فَلا تَخْرُجُوا فِراراً مِنْهُ، قَالَ: فَحَمِدَ الله عُمَرُ ثُمَّ انْصَرَفَ.
(
مطابقته للتَّرْجَمَة فِي قَوْله: (إِذا سَمِعْتُمْ بِهِ) إِلَى آخِره.
وَعبد الحميد بن عبد الرَّحْمَن بن زيد بن الْخطاب بن نفَيْل بن عبد الْعُزَّى الْقرشِي الْعَدوي، كَانَ والياً لعمر بن عبد الْعَزِيز رَضِي الله عَنهُ على الْكُوفَة، وَعبد الله بن عبد الله بن الْحَارِث بن نَوْفَل بن الْحَارِث بن عبد الْمطلب لجد أَبِيه نَوْفَل ابْن عَم النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم صُحْبَة وَكَذَا لوَلَده الْحَارِث، وَولد عبد الله بن الْحَارِث فِي عهد النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فعد لذَلِك فِي الصَّحَابَة فهم ثَلَاثَة من الصَّحَابَة فِي نسق، وَكَانَ عبد الله بن الْحَارِث يلقب ببّه، بباءين موحدتين الثَّانِيَة مُشَدّدَة، وَمَعْنَاهُ: الممتلىء الْبدن من النِّعْمَة، ويكنى أَبَا مُحَمَّد، مَاتَ سنة أَربع وَثَمَانِينَ، وَأما وَلَده رَاوِي هَذَا الحَدِيث فَهُوَ مِمَّن وَافق اسْمه اسْم أَبِيه، وَكَانَ يكنى أَبَا يحيى، وَمَات سنة تسع وَتِسْعين وَمَاله فِي البُخَارِيّ سوى هَذَا الحَدِيث.

وَفِي هَذَا السَّنَد: ثَلَاثَة من التَّابِعين فِي نسق وَاحِد، وصحابيان فِي نسق، وَكلهمْ مدنيون.

والْحَدِيث أخرجه مُسلم فِي الطِّبّ أَيْضا عَن يحيى بن يحيى عَن مَالك وَغَيره.
وَأخرجه أَبُو دَاوُد فِي الْجَنَائِز عَن القعْنبِي عَن مَالك مُخْتَصرا.
وَأخرجه النَّسَائِيّ فِي الطِّبّ عَن هَارُون بن عبد الله وَعَن الْحَارِث بن مِسْكين مُخْتَصرا.

قَوْله: (خرج إِلَى الشَّام) كَانَ ذَلِك فِي ربيع الآخر سنة ثَمَان عشرَة، وَذكر خَليفَة بن خياط: أَن خُرُوج عمر إِلَى الشَّام هَذِه الْمرة كَانَ سنة سبع عشرَة يتفقد فِيهَا أَحْوَال الرّعية وأمرائهم، وَكَانَ قد خرج قبل ذَلِك سنة سِتّ عشرَة لما حاصر أَبُو عُبَيْدَة بَيت الْمُقَدّس، فَقَالَ أَهله: يكون الصُّلْح على يَدي عمر رَضِي الله عَنهُ فَخرج لذَلِك.
قَوْله: (بسرغ) بِفَتْح السِّين الْمُهْملَة وَسُكُون الرَّاء وبالغين الْمُعْجَمَة منصرفاً وَغير منصرف، قَرْيَة فِي طَرِيق الشَّام مِمَّا يَلِي الْحجاز، وَيُقَال: هِيَ مَدِينَة افتتحها أَبُو عُبَيْدَة هِيَ واليرموك والجابية متصلات، وَبَينهَا وَبَين الْمَدِينَة ثَلَاث عشرَة مرحلة.
.

     وَقَالَ  أَبُو عمر: قيل: إِنَّه وَادي تَبُوك، وَقيل: بِقرب تَبُوك،.

     وَقَالَ  الْحَازِمِي: هِيَ أول الْحجاز وَهِي من منَازِل حَاج الشَّام.
قَوْله: (أُمَرَاء الأجناد أَبُو عُبَيْدَة بن الْجراح وَأَصْحَابه) هم خَالِد بن الْوَلِيد وَيزِيد بن أبي سُفْيَان وشرحبيل بن حَسَنَة وَعَمْرو بن الْعَاصِ، وَكَانَ أَبُو بكر رَضِي الله عَنهُ قد قسم الْبِلَاد بَينهم وَجعل أَمر الْقِتَال إِلَى خَالِد، ثمَّ رده عمر رَضِي الله عَنهُ إِلَى أبي عُبَيْدَة،.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي: لأجناد.
قيل: المُرَاد بهم أُمَرَاء مدن الشَّام الْخمس، وَهِي: فلسطين والأردن وحمص وقنسرين ودمشق.
قَوْله: (فأخبروه) أَي: أخبروا عمر رَضِي الله عَنهُ أَن الوباء قد وَقع، وَفِي رِوَايَة يُونُس: أَن الوجع قد وَقع بِأَرْض الشَّام، والوباء بِالْمدِّ وَالْقصر،.

     وَقَالَ  الْخَلِيل: هُوَ الطَّاعُون،.

     وَقَالَ  آخَرُونَ: هُوَ الْمَرَض الْعَام، فَكل طاعون وباء دون الْعَكْس، وَهَذَا الوباء الْمَذْكُور هُنَا كَانَ طاعوناً، وَهُوَ طاعون عمواس.
قَوْله: (قَالَ عمر: ادْع لي الْمُهَاجِرين الْأَوَّلين) وهم الَّذين صلوا إِلَى الْقبْلَتَيْنِ، وَفِي رِوَايَة يُونُس: إجمع لي الْمُهَاجِرين.
قَوْله: (بَقِيَّة النَّاس) أَي: بَقِيَّة الصَّحَابَة وَإِنَّمَا قَالَ كَذَلِك تَعْظِيمًا لَهُم، أَي: كَانَ النَّاس لم يَكُونُوا إلاَّ الصَّحَابَة قَالَ الشَّاعِر.

(هم الْقَوْم كل الْقَوْم يَا أم خَالِد)

قَوْله: (وَأَصْحَاب رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم) عطف تفسيري قَوْله: (أَن تقدمهم) بِضَم التَّاء من الْإِقْدَام بِمَعْنى التَّقْدِيم وَالْمعْنَى: لَا نرى أَن تجعلهم قادمين عَلَيْهِ.
قَوْله: (فَقَالَ: ارتفعوا عني) أَي: فَقَالَ عمر: أخرجُوا عني، وَفِي رِوَايَة يُونُس: فَأَمرهمْ فَخَرجُوا عَنهُ.
قَوْله: (فسلكوا سَبِيل الْمُهَاجِرين) أَي: مَشوا على طريقتهم فِيمَا قَالُوا.
قَوْله: (من مشيخة قُرَيْش) ضَبطه بَعضهم بِوَجْهَيْنِ الأول بِفَتْح الْمِيم وَسُكُون الشين الْمُعْجَمَة وَفتح الْيَاء آخر الْحُرُوف، وَالثَّانِي بِفَتْح الْمِيم وَكسر الشين وَسُكُون الْيَاء آخر الْحُرُوف جمع شيخ.
قلت: الَّذِي قَالَه أهل اللُّغَة هُوَ الْوَجْه الثَّانِي،.

     وَقَالَ  الْجَوْهَرِي: جمع الشَّيْخ شُيُوخ وأشياخ وشيخة وشيخان ومشيخة ومشايخ ومشيوخاء، وَالْمَرْأَة شيخة.
قَوْله: (من مهاجرة الْفَتْح) أَي: الَّذين هَاجرُوا إِلَى الْمَدِينَة عَام الْفَتْح، أَو المُرَاد: مسلمة الْفَتْح أَو أطلق على من تحول إِلَى الْمَدِينَة بعد فتح مَكَّة مُهَاجرا صُورَة وَإِن كَانَت الْهِجْرَة بعد الْفَتْح حكما قد ارْتَفَعت وَأطلق ذَلِك عَلَيْهِم احْتِرَازًا عَن غَيرهم من مشيخة قُرَيْش مِمَّن أَقَامَ بِمَكَّة وَلم يُهَاجر أصلا.
قَوْله: (إِنِّي مصبح) بِضَم الْمِيم وَسُكُون الصَّاد وَكسر الْبَاء الْمُوَحدَة أَي: مُسَافر فِي الصَّباح رَاكِبًا على ظهر الرَّاحِلَة رَاجعا إِلَى الْمَدِينَة، فَأَصْبحُوا راكبين متأهبين للرُّجُوع إِلَيْهَا.
قَوْله: (عَلَيْهِ) أَي على الظّهْر وَهُوَ الْإِبِل الَّذِي يحمل عَلَيْهِ ويركب.
يُقَال: عِنْد فلَان ظهر أَي: إبل.
قَوْله: (فِرَارًا من قدر الله؟) أَي: أترجع فِرَارًا من قدر الله تَعَالَى؟ وَفِي رِوَايَة هِشَام بن سعد: فَقَالَت طَائِفَة، مِنْهُم أَبُو عُبَيْدَة: أَمن الْمَوْت نفر؟ إِنَّمَا نَحن نقدر { قل لن يصيبنا إلاَّ مَا كتب الله لنا} (التَّوْبَة: 51) فَإِن قلت: مَا الْفرق بَين الْقَضَاء وَالْقدر؟ قلت: الْقَضَاء عبارَة عَن الْأَمر الْكُلِّي الإجمالي الَّذِي حكم الله بِهِ فِي الْأَزَل، وَالْقدر عبارَة عَن جزئيات ذَلِك الْكُلِّي ومفصلات ذَلِك الْمُجْمل الَّتِي حكم الله بوقوعها وَاحِدًا بعد وَاحِد فِي الْإِنْزَال، قَالُوا: وَهُوَ المُرَاد بقوله تَعَالَى: { وَإِن من شَيْء إلاَّ عندنَا خزائنه وَمَا ننزله إلاَّ بِقدر مَعْلُوم} (الْحجر: 21) .
قَوْله: (لَو غَيْرك قَالَهَا) جَزَاء: لَو، مَحْذُوف أَي: لَو قَالَ غَيْرك لأدبته، وَذَلِكَ لاعتراضه على مَسْأَلَة اجتهادية وَافقه عَلَيْهَا أَكثر النَّاس من أهل الْحل وَالْعقد، أَو لم أتعجب مِنْهُ، وَلَكِنِّي أتعجب مِنْك مَعَ علمك وفضلك كَيفَ تَقول هَذَا، أَو كلمة: لَو هُنَا لِلتَّمَنِّي.
فَلَا تحْتَاج إِلَى جَوَاب، وَالْمعْنَى: أَن غَيْرك مِمَّن لَا فهم لَهُ إِذا قَالَ ذَلِك يعْذر.
قَوْله: (نعم نفر من قدر الله إِلَى قدر الله) وَفِي رِوَايَة هِشَام بن سعد: إِن تقدمنا فبقدر الله وَإِن تأخرنا فبقدر الله، أطلق عَلَيْهِ فِرَارًا لشبهه فِي الصُّورَة، وَإِن كَانَ لَيْسَ فِرَارًا شرعا، وَالْمرَاد أَن هجوم الْمَرْء على مَا يهلكه مَنْهِيّ عَنهُ، وَلَو فعل لَكَانَ من قدر الله وتجنبه مَا يُؤْذِيه مَشْرُوع، وَقد يقدر الله وُقُوعه فِيمَا فر مِنْهُ، فَلَو كَانَ فعله أَو تَركه لَكَانَ من قدر الله، وَحَاصِل الْكَلَام أَن شَيْئا مَا لَا يخرج عَن الْقدر.
قَوْله: (أَرَأَيْت) أَي: أَخْبرنِي قَوْله: (لَهُ عدوتان) بِضَم الْعين الْمُهْملَة وَكسرهَا يَعْنِي طرفان والعدوة هُوَ الْمَكَان الْمُرْتَفع من الْوَادي وَهُوَ شاطئه.
قَوْله: (خصبة) بِفَتْح الْخَاء الْمُعْجَمَة وَكسر الصَّاد الْمُهْملَة وبالباء الْمُوَحدَة، كَذَا ضبط فِي كتب اللُّغَة، وَفِي (الْمطَالع) : خصبة بِكَسْر الْخَاء وَسُكُون الصَّاد وَالْخصب بِالْكَسْرِ نقيض الجدب،.

     وَقَالَ  بَعضهم: خصيبة على وزن عَظِيمَة، وَلَيْسَ كَذَلِك، والخصبة بِفَتْح الْخَاء وَسُكُون الصَّاد وَاحِدَة الخصاب، وَهُوَ النّخل الْكثير الْحمل.
قَوْله: (جدبة) بِسُكُون الدَّال وَكسرهَا يَعْنِي: الْكل بِتَقْدِير الله سَوَاء ندخل أَو نرْجِع، فرجوعنا أَيْضا بِقدر الله تَعَالَى، فعمر رَضِي الله عَنهُ اسْتعْمل الحذر وَأثبت الْقدر مَعًا فَعمل بالدليلين اللَّذين كل متمسك بِهِ من التَّسْلِيم للْقَضَاء والاحتراز عَن الْإِلْقَاء فِي التَّهْلُكَة.
قَوْله: (فجَاء عبد الرَّحْمَن بن عَوْف) مَوْصُول عَن ابْن عَبَّاس بالسند الْمَذْكُور.
قَوْله: (وَكَانَ متغيباً) من بابُُ التفعل مَعْنَاهُ: لم يكن حَاضرا فِي الْمُشَاورَة.
قَوْله: (علما) وَفِي رِوَايَة مُسلم: لعلما، بلام التَّأْكِيد.
قَوْله: (إِذا سَمِعْتُمْ بِهِ) أَي: بالطاعون.
قَوْله: (فَلَا تقدمُوا) بِفَتْح الدَّال.
قَوْله: (فِرَارًا) أَي: لأجل الْفِرَار، وَفِيه: دَلِيل على جَوَاز الْخُرُوج لغَرَض آخر لَا بِقصد الْفِرَار مِنْهُ.
قَوْله: (فَحَمدَ الله عمر رَضِي الله عَنهُ) يَعْنِي: على مُوَافقَة اجْتِهَاده واجتهاد مُعظم أَصْحَابه حَدِيث رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم.
قَالَ ابْن بطال: فَإِن قيل: لَا يَمُوت أحد إلاَّ بأجله فَلَا يتَقَدَّم وَلَا يتَأَخَّر، فَمَا وَجه النَّهْي عَن الدُّخُول وَالْخُرُوج؟ قُلْنَا: لم ينْه عَن ذَلِك إلاَّ حذرا من أَن يظنّ أَن هَلَاكه كَانَ من أجل قدومه عَلَيْهِ وَأَن سَلَامَته كَانَت من أجل خُرُوجه، فَنهى عَن الدنو كَمَا نهى عَن الدنو من المجذوم مَعَ علمه بِأَنَّهُ لَا عدوى، وَقيل: إِذْنه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم للَّذين استوخموا الْمَدِينَة بِالْخرُوجِ حجَّة لمن أجَاز الْفِرَار.
وَأجِيب بِأَنَّهُ: لم يكن ذَلِك فِرَارًا من الوباء إِذْ هم كَانُوا مستوخمين خَاصَّة دون سَائِر النَّاس، بل للاحتياج إِلَى الضَّرع ولاعتيادهم المعاش فِي الصَّحَارِي.

وَفِي هَذَا الحَدِيث من الْفَوَائِد: خُرُوج الإِمَام بِنَفسِهِ لمشاهدة أَحْوَال رَعيته، وَإِزَالَة ظلم الْمَظْلُوم وكشف الكرب، وتخويف أهل الْفساد وَإِظْهَار شَعَائِر الْإِسْلَام، وتلقي الْأُمَرَاء والمشاورة مَعَهم، والاجتماع بالعلماء، وتنزيل النَّاس مَنَازِلهمْ، واجتهاد فِي الحروب، وَقبُول خبر الْوَاحِد، وَصِحَّة الْقيَاس، وَاجْتنَاب أَسبابُُ الْهَلَاك.