هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
5494 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : هَاجَرَ نَاسٌ إِلَى الحَبَشَةِ مِنَ المُسْلِمِينَ ، وَتَجَهَّزَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : عَلَى رِسْلِكَ ، فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَوَتَرْجُوهُ بِأَبِي أَنْتَ ؟ قَالَ : نَعَمْ فَحَبَسَ أَبُو بَكْرٍ نَفْسَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصُحْبَتِهِ ، وَعَلَفَ رَاحِلَتَيْنِ كَانَتَا عِنْدَهُ وَرَقَ السَّمُرِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ . قَالَ عُرْوَةُ : قَالَتْ عَائِشَةُ : فَبَيْنَا نَحْنُ يَوْمًا جُلُوسٌ فِي بَيْتِنَا فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ ، فَقَالَ قَائِلٌ لِأَبِي بَكْرٍ : هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقْبِلًا مُتَقَنِّعًا ، فِي سَاعَةٍ لَمْ يَكُنْ يَأْتِينَا فِيهَا ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : فِدًا لَكَ أَبِي وَأُمِّي ، وَاللَّهِ إِنْ جَاءَ بِهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ إِلَّا لِأَمْرٍ ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَ فَأَذِنَ لَهُ فَدَخَلَ ، فَقَالَ حِينَ دَخَلَ لِأَبِي بَكْرٍ : أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ قَالَ : إِنَّمَا هُمْ أَهْلُكَ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ . قَالَ : فَإِنِّي قَدْ أُذِنَ لِي فِي الخُرُوجِ قَالَ : فَالصُّحْبَةُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : فَخُذْ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِحْدَى رَاحِلَتَيَّ هَاتَيْنِ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : بِالثَّمَنِ قَالَتْ : فَجَهَّزْنَاهُمَا أَحَثَّ الجِهَازِ ، وَضَعْنَا لَهُمَا سُفْرَةً فِي جِرَابٍ ، فَقَطَعَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ قِطْعَةً مِنْ نِطَاقِهَا ، فَأَوْكَأَتْ بِهِ الجِرَابَ ، وَلِذَلِكَ كَانَتْ تُسَمَّى ذَاتَ النِّطَاقِ . ثُمَّ لَحِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ بِغَارٍ فِي جَبَلٍ يُقَالُ لَهُ ثَوْرٌ ، فَمَكُثَ فِيهِ ثَلاَثَ لَيَالٍ ، يَبِيتُ عِنْدَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، وَهُوَ غُلاَمٌ شَابٌّ لَقِنٌ ثَقِفٌ ، فَيَرْحَلُ مِنْ عِنْدِهِمَا سَحَرًا ، فَيُصْبِحُ مَعَ قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ كَبَائِتٍ ، فَلاَ يَسْمَعُ أَمْرًا يُكَادَانِ بِهِ إِلَّا وَعَاهُ ، حَتَّى يَأْتِيَهُمَا بِخَبَرِ ذَلِكَ حِينَ يَخْتَلِطُ الظَّلاَمُ ، وَيَرْعَى عَلَيْهِمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ مِنْحَةً مِنْ غَنَمٍ ، فَيُرِيحُهَا عَلَيْهِمَا حِينَ تَذْهَبُ سَاعَةٌ مِنَ العِشَاءِ ، فَيَبِيتَانِ فِي رِسْلِهِمَا حَتَّى يَنْعِقَ بِهَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ بِغَلَسٍ ، يَفْعَلُ ذَلِكَ كُلَّ لَيْلَةٍ مِنْ تِلْكَ اللَّيَالِي الثَّلاَثِ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
5494 حدثنا إبراهيم بن موسى ، أخبرنا هشام ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، رضي الله عنها قالت : هاجر ناس إلى الحبشة من المسلمين ، وتجهز أبو بكر مهاجرا ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : على رسلك ، فإني أرجو أن يؤذن لي فقال أبو بكر : أوترجوه بأبي أنت ؟ قال : نعم فحبس أبو بكر نفسه على النبي صلى الله عليه وسلم لصحبته ، وعلف راحلتين كانتا عنده ورق السمر أربعة أشهر . قال عروة : قالت عائشة : فبينا نحن يوما جلوس في بيتنا في نحر الظهيرة ، فقال قائل لأبي بكر : هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم مقبلا متقنعا ، في ساعة لم يكن يأتينا فيها ، قال أبو بكر : فدا لك أبي وأمي ، والله إن جاء به في هذه الساعة إلا لأمر ، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فاستأذن فأذن له فدخل ، فقال حين دخل لأبي بكر : أخرج من عندك قال : إنما هم أهلك بأبي أنت يا رسول الله . قال : فإني قد أذن لي في الخروج قال : فالصحبة بأبي أنت وأمي يا رسول الله ؟ قال : نعم قال : فخذ بأبي أنت يا رسول الله إحدى راحلتي هاتين ، قال النبي صلى الله عليه وسلم : بالثمن قالت : فجهزناهما أحث الجهاز ، وضعنا لهما سفرة في جراب ، فقطعت أسماء بنت أبي بكر قطعة من نطاقها ، فأوكأت به الجراب ، ولذلك كانت تسمى ذات النطاق . ثم لحق النبي صلى الله عليه وسلم وأبو بكر بغار في جبل يقال له ثور ، فمكث فيه ثلاث ليال ، يبيت عندهما عبد الله بن أبي بكر ، وهو غلام شاب لقن ثقف ، فيرحل من عندهما سحرا ، فيصبح مع قريش بمكة كبائت ، فلا يسمع أمرا يكادان به إلا وعاه ، حتى يأتيهما بخبر ذلك حين يختلط الظلام ، ويرعى عليهما عامر بن فهيرة مولى أبي بكر منحة من غنم ، فيريحها عليهما حين تذهب ساعة من العشاء ، فيبيتان في رسلهما حتى ينعق بها عامر بن فهيرة بغلس ، يفعل ذلك كل ليلة من تلك الليالي الثلاث
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated `Aisha:

Some Muslim men emigrated to Ethiopia whereupon Abu Bakr also prepared himself for the emigration, but the Prophet (ﷺ) said (to him), Wait, for I hope that Allah will allow me also to emigrate. Abu Bakr said, Let my father and mother be sacrificed for you. Do you hope that (emigration)? The Prophet said, 'Yes. So Abu Bakr waited to accompany the Prophet (ﷺ) and fed two she-camels he had on the leaves of As-Samur tree regularly for four months One day while we were sitting in our house at midday, someone said to Abu Bakr, Here is Allah's Messenger (ﷺ), coming with his head and a part of his face covered with a cloth-covering at an hour he never used to come to us. Abu Bakr said, Let my father and mother be sacrificed for you, (O Prophet)! An urgent matter must have brought you here at this hour. The Prophet (ﷺ) came and asked the permission to enter, and he was allowed. The Prophet (ﷺ) entered and said to Abu Bakr, Let those who are with you, go out. Abu Bakr replied, (There is no stranger); they are your family. Let my father be sacrificed for you, O Allah's Apostle! The Prophet (ﷺ) said, I have been allowed to leave (Mecca). Abu Bakr said, I shall accompany you, O Allah's Messenger (ﷺ), Let my father be sacrificed for you! The Prophet (ﷺ) said, Yes, Abu Bakr said, 'O Allah's Messenger (ﷺ)s! Let my father be sacrificed for you. Take one of these two shecamels of mine The Prophet (ﷺ) said. I will take it only after paying its price. So we prepared their baggage and put their journey food In a leather bag. And Asma' bint Abu Bakr cut a piece of her girdle and tied the mouth of the leather bag with it. That is why she was called Dhatan- Nitaqaln. Then the Prophet (ﷺ) and Abu Bakr went to a cave in a mountain called Thour and remained there for three nights. `Abdullah bin Abu Bakr. who was a young intelligent man. used to stay with them at night and leave before dawn so that in the morning, he would he with the Quraish at Mecca as if he had spent the night among them. If he heard of any plot contrived by the Quraish against the Prophet and Abu Bakr, he would understand it and (return to) inform them of it when it became dark. 'Amir bin Fuhaira, the freed slave of Abu Bakr used to graze a flock of milch sheep for them and he used to take those sheep to them when an hour had passed after the `Isha prayer. They would sleep soundly till 'Amir bin Fuhaira awakened them when it was still dark. He used to do that in each of those three nights.

":"ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی ، انہیں معمر نے ، انہیں زہری نے ، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہبہت سے مسلمان حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی ٹھہر جاؤ کیونکہ مجھے بھی امید ہے کہ مجھے ( ہجرت کی ) اجازت دی جائے گی ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیا آپ کو بھی امید ہے ؟ میرا باپ آپ پر قربان ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کے خیال سے رک گئے اور اپنی دو اونٹنیوں کو ببول کے پتے کھلا کر چار مہینے تک انہیں خوب تیار کرتے رہے ۔ عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہم ایک دن دوپہر کے وقت اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر ڈھکے ہوئے تشریف لا رہے ہیں ۔ اس وقت عموماً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف نہیں لاتے تھے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا میرے ماں باپ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت کسی وجہ ہی سے تشریف لا سکتے ہیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکان پرپہنچ کر اجازت چاہی اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں اجازت دی ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور اندر داخل ہوتے ہی ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جو لوگ تمہارے پاس اس وقت ہیں انہیں اٹھا دو ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی میرا باپ آپ پر قربان ہو یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! یہ سب آپ کے گھر ہی کے افراد ہیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی پھر یا رسول اللہ ! مجھے رفاقت کا شرف حاصل رہے گا ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ۔ عرض کی یا رسول اللہ ! میرے باپ آپ پر قربان ہوں ان دو اونٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن قیمت سے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ہم نے بہت جلدی جلدی سامان سفر تیار کیا اور سفر کا ناشتہ ایک تھیلے میں رکھا ۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے پٹکے کے ایک ٹکڑے سے تھیلہ کے منہ کو باندھا ۔ اسی وجہ سے انہیں ” ذات النطاق “ ( پٹکے والی ) کہنے لگے ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ثور نامی پہاڑ کی ایک غار میں جا کر چھپ گئے اور تین دن تک اسی میں ٹھہرے رہے ۔ عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما رات آپ حضرات کے پاس ہی گزارتے تھے ۔ وہ نو جوان ذہین اور سمجھدار تھے ۔ صبح تڑ کے میں وہاں سے چل دیتے تھے اور صبح ہوتے ہوتے مکہ کے قریش میں پہنچ جاتے تھے ۔ جیسے رات میں مکہ ہی میں رہے ہوں ۔ مکہ مکرمہ میں جو بات بھی ان حضرات کے خلاف ہوتی اسے محفوظ رکھتے اور جوں ہی رات کا اندھیرا چھا جاتا غار ثور میں ان حضرات کے پاس پہنچ کر تمام تفصیلات کی اطلاع دیتے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مولیٰ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ دودھ دینے والی بکریاں چراتے تھے اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو ان بکریوں کو غار ثور کی طرف ہانک لاتے تھے ۔ آپ حضرات بکریوں کے دودھ پر رات گزارتے اور صبح کی پوپھٹتے ہی عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ وہاں سے روانہ ہو جاتے ۔ ان تین راتوں میں انہوں نے ہر رات ایسا ہی کیا ۔

شرح الحديث من عمدة القاري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    ( بابُُ التقَنُّعِ)

أَي: هَذَا بابُُ فِي بَيَان التقنع بِفَتْح التَّاء الْمُثَنَّاة من فَوق وَالْقَاف وَضم النُّون الْمُشَدّدَة وبالعين الْمُهْملَة وَهُوَ: تَغْطِيَة الرَّأْس، وَأكْثر الْوَجْه برداء أَو غَيره.

وَقَالَ ابنُ عَبَّاسٍ: خَرَجَ النبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وعَليْهِ عِصابَةٌ دَسْماءُ
هَذَا طرف من حَدِيث أخرجه مُسْندًا فِي مَوَاضِع مِنْهَا: فِي مَنَاقِب الْأَنْصَار فِي: بابُُ قَول النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: اقْبَلُوا من محسنهم وتجاوزوا عَن مسيئهم: حَدثنَا أَحْمد بن يَعْقُوب حَدثنَا ابْن الغسيل سَمِعت عِكْرِمَة يَقُول: سَمِعت ابْن عَبَّاس يَقُول: خرج رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ملحفة متعطفاً بهَا على مَنْكِبَيْه وَعَلِيهِ عِصَابَة دسماء ... الحَدِيث، والدسماء بمهملتين وَالْمدّ ضد النظيفة، قلت: هَذَا تَفْسِير فِيهِ بشاعة، فَلَا يَنْبَغِي أَن يُفَسر عِصَابَة النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بضد النَّظَافَة،.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي: ودسماء، قيل: المُرَاد بهَا سَوْدَاء، وَيُقَال: ثوب دسم أَي: وسخ، وَجزم ابْن الْأَثِير أَن دسماء سَوْدَاء.
وَفِي ( التَّوْضِيح) : والتقنع للرجل عِنْد الْحَاجة مُبَاح،.

     وَقَالَ  ابْن وهب: سَأَلت مَالِكًا عَن التقنع بِالثَّوْبِ، فَقَالَ: أما الرجل الَّذِي يجد الْحر وَالْبرد أَو الْأَمر الَّذِي لَهُ فِيهِ عذر فَلَا بَأْس بِهِ، وَأما لغير ذَلِك فَلَا.
.

     وَقَالَ  الْأَبْهَرِيّ: إِذا تقنع لدفع مضرَّة فمباح وَلغيره فمكروه، فَإِنَّهُ من فعل أهل الريب، وَيكرهُ أَن يفعل شَيْئا يظنّ بِهِ الرِّيبَة.

وَقَالَ أنَسٌ: عَصَّبَ النبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَلى رَأسِهِ حاشِيَةَ بُرْدٍ.

هَذَا أَيْضا طرف من حَدِيث أخرجه فِي الْبابُُ الْمَذْكُور فِي مَنَاقِب الْأَنْصَار من طَرِيق هِشَام بن زيد بن أنس: سَمِعت أنس بن مَالك يَقُول فَذكر الحَدِيث، وَفِيه: فَخرج النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَقد عصب على رَأسه حَاشِيَة برد.
قَوْله: ( عصب) بتَشْديد الصَّاد،.

     وَقَالَ  الْجَوْهَرِي: حَاشِيَة الْبرد جَانِبه،.

     وَقَالَ  الْقَزاز: حَاشِيَة الثَّوْب ناحيتاه اللَّتَان فِي طرفهما المهدب، وَاعْترض الْإِسْمَاعِيلِيّ بِأَن مَا ذكره من الْعِصَابَة لَا يدْخل فِي التقنع لِأَن التقنع تَغْطِيَة الرَّأْس والعصابة شدّ الْخِرْقَة على مَا أحَاط بالعمامة، وَأجَاب بَعضهم بقوله: الْجَامِع بَينهمَا وضع شَيْء زَائِد على الرَّأْس فَوق الْعِمَامَة، قلت: فِي كل من الِاعْتِرَاض وَالْجَوَاب نظر، أما فِي الِاعْتِرَاض فَلِأَن قَوْله: والعصابة شدّ الْخِرْقَة على مَا أحَاط بالعمامة، لَيْسَ كَذَلِك، بل الْعِصَابَة شدّ الرَّأْس بِخرقَة مُطلقًا، وَأما فِي الْجَواب فَلِأَن قَوْله: زَائِد، لَا فَائِدَة فِيهِ، وَكَذَلِكَ قَوْله: فَوق الْعِمَامَة لِأَنَّهُ يلْزم من أَنه إِذا كَانَت تَحت الْعِمَامَة لَا تسمى عِصَابَة.



[ قــ :5494 ... غــ :5807 ]
- حدّثنا إبْراهِيمُ بنُ مُوساى أخبرنَا هِشامٌ عنْ مَعْمَرٍ عنِ الزُّهْرِيِّ عنْ عُرْوَةَ عنْ عائِشَةَ رَضِي الله عَنْهَا قالَتْ: هاجَرَ إِلَى الحَبَشَةِ رجالٌ مِنَ المُسْلِمِين وتَجَهَّزَ أبُو بَكْرةٍ مُهاجِراً فَقَالَ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: عَلى رِسْلِكَ! فإِنِّي أرْجُو أنْ يُؤْذَنَ لِي.
فَقَالَ أبُو بَكْرٍ أوْ تَرْجُوهُ بِأبِي أنْتَ وأُُمِّي؟ قَالَ: نَعَمْ، فَحَبَسَ أبُو بَكْرٍ: نَفْسَهُ عَلى النبيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ليَصْحَبَهُ، وعَلَفَ راحِلَتَيْنِ كانَتا عِنْدِه ورَقَ السَّمُرِ أرْبَعَةَ أشْهُرٍ، قَالَ عُرْوَةُ: قالَتْ عائِشَةُ: فَبَيْنا نَحْنُ يَوْماً جُلُوسٌ فِي بَيْتِنا فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، فَقَالَ قائِلٌ لأبي بَكْرٍ: هاذا رسُولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم مُقْبِلاً مُتَقَنِّعاً فِي ساعَةٍ لَمْ يَكُنْ يَأتِينا فِيها، قَالَ أبُو بَكْرٍ: فِداً لهُ بِأبي وأُمِّي، وَالله إنْ جاءَ بِهِ فِي هاذِهِ السَّاعَةِ إلاَّ لِأمْرٍ، فَجاءَ النبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فاسْتَأذَنَ فأذِنَ لِهُ فَدَخَلَ فَقَالَ حِينَ دَخَلَ لِأبِي بَكْرٍ: أخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ.
قَالَ إنَّما هُمْ أهْلُكَ بِأبِي أنْتَ يَا رسولَ الله، قَالَ: فإِنِّي قَدْ أذِنَ لِي فِي الخُرُوجِ.
قَالَ: فالصُّحْبةُ بِأبِي أنْتَ يَا رسولَ الله؟ قَالَ: نَعَمْ.
قَالَ: فَخُذْ بِأبِي أنْت يَا رسولَ الله إحْدَى راحلَتَيَّ هاتَيْنِ، قَالَ النبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: بالثَّمَنِ.
قالَتْ: فَجهَّزْناهُما أحَثَّ الجهَازِ ووضَعْنا لَهُما سُفْرَةٍ فِي جِرابٍ.
فَقَطَعَتْ أسْماءُ بِنْتُ أبي بَكْرٍ قِطْعَةٍ مِنْ نِطاقِها فأوْكَتْ بِهِ الجِرَابَ ولِذالِكَ كانَتْ تسمَّى: ذاتَ النِّطاقَينِ ثُمَّ لَحقَ النبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وأبُو بَكْرٍ بِغارٍ فِي جَبَلٍ يُقالُ لهُ: ثَوْرٌ، فَمَكَثَ فِيهِ ثَلاثَ لَيال يَبِيتُ عِنْدَهُما عبْدُ الله بنُ أبي بَكْرٍ وهْو غُلامٌ شابٌّ لَقِنٌ ثَقِفٌ فَيَرْحَلُ مِنْ عِنْدِهِما سَحَراً فَيُصْبِحُ مَعَ قُرَيْشٍ بِمَكَةَ كبَائِتٍ فَلا يَسْمَعُ أمْراً يُكادانِ بِهِ إلاَّ وَعاهُ حتَّى يَأتِيَهُما بِخَبَرِ ذالِكَ حِينَ يَخْتَلِطُ الظلامُ، ويَرْعَى عَليْهِما عامِرُ بنُ فُهَيْرَةَ مَوْلى أبي بَكْرٍ مِنْحَةً مِنْ غَنَمٍ فَيُرِيحُها عَليْهِما حِينَ تَذْهَبُ ساعَةٌ مِنَ العشاءِ فَيَبِيتانِ فِي رِسْلِها حَتَّى يَنْعِقَ بهَا عامرُ بنُ فُهَيْرَةَ بِغَلَسٍ يَفْعَلُ ذالِكَ كُلَّ لَيْلَةٍ من تِلْكَ اللَّيالِي الثَّلاثِ.

مطابقته للتَّرْجَمَة فِي قَوْله: ( هَذَا رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم مُقبلا متقنعاً) .

وَهِشَام هُوَ ابْن يُوسُف، وَمعمر بن رَاشد.

والْحَدِيث بِعَين هَذَا الْإِسْنَاد مضى فِي الْإِجَارَة مُخْتَصرا فِي: بابُُ اسْتِئْجَار الْمُشْركين عِنْد الضَّرُورَة، وَمضى أَيْضا فِي: بابُُ هِجْرَة النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم مطولا جدا أخرجه عَن يحيى بن بكير عَن اللَّيْث عَن عقيل، قَالَ ابْن شهَاب: فاخبرني عُرْوَة بن الزبير أَن عَائِشَة رَضِي الله عَنْهَا إِلَى آخِره وَمضى الْكَلَام فِيهِ.

قَوْله: ( هَاجر إِلَى الْحَبَشَة رجال من الْمُسلمين) ، ويروى: هَاجر إِلَى الْحَبَشَة من الْمُسلمين، قَالَ الْكرْمَانِي: من الْمُسلمين صفة أَي: هَاجر رجال من الْمُسلمين، أَو هُوَ فَاعل بِمَعْنى بعض الْمُسلمين، جوزه بعض النُّحَاة.
قَوْله: ( على رسلك) بِكَسْر الرَّاء أَي: على هينتك.
قَوْله: ( أَو ترجوه؟) الِاسْتِفْهَام فِيهِ على سَبِيل الإستخبار أَي: أَو ترجو الْإِذْن؟ يدل عَلَيْهِ قَوْله: ( أَن يُؤذن لي) قَوْله: ( بِأبي أَنْت) أَي: مفدًى أَنْت بِأبي.
قَوْله: ( ليصحبه) أَي: لِأَن يَصْحَبهُ، ويروى: لصحبته قَوْله: ( راحلتين) تَثْنِيَة رَاحِلَة وَهِي من الْإِبِل الْبَعِير الْقوي على الْأَسْفَار والأحمال وَالذكر وَالْأُنْثَى فِيهِ سَوَاء، وَالْهَاء فِيهَا للْمُبَالَغَة وَهِي الَّتِي يختارها الرجل لمركبه ورحله للنجابة وَتَمام الْخلقَة وَحسن المنظر فَإِذا كَانَت فِي جمَاعَة الْإِبِل عرفت.
قَوْله: ( السمرَة) بِضَم الْمِيم وَهُوَ شجر الطلح.
قَوْله: ( جُلُوس) أَي: جالسون.
قَوْله ( فِي نحر الظهيرة) أَي: فِي أول الهاجرة.
قَوْله: ( مُقبلا) أَي: أقبل أوجاء حَال كَونه مُقبلا، وَالْعَامِل فِيهِ معنى الْإِشَارَة فِي قَوْله هَذَا.
قَوْله: ( مقنعا) من الْأَحْوَال المترادفة أَو المتداخلة.
قَوْله: ( فدالة) هَذِه رِوَايَة الْكشميهني، وَفِي رِوَايَة غَيره فدالك، وَفِي ( التَّوْضِيح) : أَن كسرت الْفَاء مددت وَإِن فتحت قصرت.
قَالَ ابْن التِّين: وَهُوَ الَّذِي قرأناه.
قَوْله: ( إِن جَاءَ بِهِ) كلمة أَن نَافِيَة هَذَا على رِوَايَة الْكشميهني وَاللَّام فِيهِ مَكْسُورَة للتَّعْلِيل، وَفِي رِوَايَة غَيره: ( لأمر) ، بِفَتْح اللَّام وبالرفع وَهِي لَام التَّأْكِيد، وَكلمَة: إِن على هَذِه مُخَفّفَة من المثقلة.
قَوْله: ( فَأذن لَهُ) على صِيغَة الْمَجْهُول.
قَوْله: ( أخرِج مَن عنْدك) أَمر من الْإِخْرَاج، وَمن عنْدك، فِي مَحل النصب على المفعولية.
قَوْله: ( فالصحبة) مَنْصُوب تَقْدِيره: أطلب الصُّحْبَة، أَو: أريدها، وَيجوز أَن يكون مَرْفُوعا على تَقْدِير فاختياري أَو مقصودي الصُّحْبَة، والجهاز بِالْفَتْح وَالْكَسْر أَسبابُُ السّفر والحث التحضيض والإسراع.
قَوْله: ( أحث الجهاز) بِالْحَاء الْمُهْملَة والثاء الْمُثَلَّثَة، وَفِي رِوَايَة الْكشميهني: بِالْبَاء الْمُوَحدَة، قيل: إِنَّه تَصْحِيف.
قَوْله: ( سفرة) بِالضَّمِّ طَعَام يعْمل للْمُسَافِر وَمِنْه سميت السفرة الَّتِي يُؤْكَل عَلَيْهَا.
قَوْله: ( فِي جراب) بِكَسْر الْجِيم فِيهِ أفْصح من فَتحه، قَالَ الْجَوْهَرِي: والعامة تفتحه.
قَوْله: ( من نطاقها) ، قَالَ الْجَوْهَرِي: النطاق شقة تلبسها الْمَرْأَة وتشد وَسطهَا ثمَّ ترسل الْأَعْلَى على الْأَسْفَل إِلَى الرّكْبَة، والأسفل ينجر على الأَرْض وَلَيْسَ لَهَا حجزة وَلَا نيفق وَلَا ساقان،.

     وَقَالَ  الْهَرَوِيّ نَحوه، وَزَاد: ( وَبِه سميت أَسمَاء ذَات النطاقين) لِأَنَّهَا كَانَت لَهَا نطاقاً على نطاق.
.

     وَقَالَ  ابْن التِّين: شقَّتْ نصف نطاقها للسفرة وانتطقت بِنصفِهِ،.

     وَقَالَ  الدَّاودِيّ: النطاق المئزر،.

     وَقَالَ  ابْن فَارس: هُوَ إِزَار فِيهِ تكة تلبسه النِّسَاء،.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي: سميت ذَات النطاقين لِأَنَّهَا جعلت قِطْعَة من نطاقها للجراب الَّذِي فِيهِ السفرة، وَقطعَة للسقاء، كَمَا جَاءَ فِي بعض الرِّوَايَات، أَو لِأَنَّهَا جعلت نطاقين نطاقاً للجراب، وَآخر لنَفسهَا.
قَوْله: ( فأوكت) أَي: شدت والوكاء هُوَ الَّذِي يشد بِهِ رَأس الْقرْبَة.
قَوْله: ( ثَوْر) باسم الْحَيَوَان الْمَشْهُور، وَهُوَ الْغَار الَّذِي بَات فِيهِ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَوْله: ( لقن) بِفَتْح اللَّام وَكسر الْقَاف وبالنون، وَهُوَ سريع الْفَهم وَجَاء بِسُكُون الْقَاف.
قَوْله: ( ثقف) بِكَسْر الْقَاف وسكونها أَي: حاذق فطن.
قَوْله: ( فيرحل) ويروى: فَيدْخل من الدُّخُول.
قَوْله: ( كبائت) أَي: كَأَنَّهُ بائت بِمَكَّة.
قَوْله: ( يكادان بِهِ) على صِيغَة الْمَجْهُول أَي: يمكران بِهِ، وَالضَّمِير فِيهِ يرجع إِلَى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَإِلَى أبي بكر رَضِي الله عَنهُ وَحَاصِله مهما يتَكَلَّم بِهِ قُرَيْش فِي حَقّهمَا من الْأُمُور الَّتِي يُرِيدُونَ فعلهَا يضبطه عبد الله ويحفظه ثمَّ يبلغ بِهِ إِلَيْهِمَا.
قَوْله: ( وعاه) من الوعي وَهُوَ الْحِفْظ.
قَوْله: ( ويرعى عَلَيْهِمَا) أَي: على النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَأبي بكر.
قَوْله: ( منحة) بِكَسْر الْمِيم وَهِي الشَّاة الَّتِي تعطيها غَيْرك ليحتلبها ثمَّ يردهَا عَلَيْك.
قَوْله: ( فيريحها) أَي فيردها إِلَى المراح، هَكَذَا رَوَاهُ الْكشميهني، وَفِي رِوَايَة غَيره: فيريحه، بتذكير الضَّمِير أَي: يرِيح الَّذِي يرعاه.
قَوْله: ( فِي رسلها) بِكَسْر الرَّاء: اللَّبن، هَكَذَا رِوَايَة الْكشميهني بإفراد الضَّمِير، وَفِي رِوَايَة غَيره: فِي رسلهما، بضمير التَّثْنِيَة، وَكَذَا عِنْد الْكشميهني ( حَتَّى ينعق بهَا) بِالْإِفْرَادِ، وَعند غَيره: بهما بالتثنية، يُقَال: نعق الرَّاعِي بغنمه ينعق بِالْكَسْرِ أَي: صَاح بهَا.