هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
5529 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : لَبِثْتُ سَنَةً وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ ، عَنِ المَرْأَتَيْنِ اللَّتَيْنِ تَظَاهَرَتَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَعَلْتُ أَهَابُهُ ، فَنَزَلَ يَوْمًا مَنْزِلًا فَدَخَلَ الأَرَاكَ ، فَلَمَّا خَرَجَ سَأَلْتُهُ فَقَالَ : عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ ، ثُمَّ قَالَ : كُنَّا فِي الجَاهِلِيَّةِ لاَ نَعُدُّ النِّسَاءَ شَيْئًا ، فَلَمَّا جَاءَ الإِسْلاَمُ وَذَكَرَهُنَّ اللَّهُ ، رَأَيْنَا لَهُنَّ بِذَلِكَ عَلَيْنَا حَقًّا ، مِنْ غَيْرِ أَنْ نُدْخِلَهُنَّ فِي شَيْءٍ مِنْ أُمُورِنَا ، وَكَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ امْرَأَتِي كَلاَمٌ ، فَأَغْلَظَتْ لِي ، فَقُلْتُ لَهَا : وَإِنَّكِ لَهُنَاكِ ؟ قَالَتْ : تَقُولُ هَذَا لِي وَابْنَتُكَ تُؤْذِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَتَيْتُ حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَهَا : إِنِّي أُحَذِّرُكِ أَنْ تَعْصِي اللَّهَ وَرَسُولَهُ ، وَتَقَدَّمْتُ إِلَيْهَا فِي أَذَاهُ ، فَأَتَيْتُ أُمَّ سَلَمَةَ فَقُلْتُ لَهَا ، فَقَالَتْ : أَعْجَبُ مِنْكَ يَا عُمَرُ ، قَدْ دَخَلْتَ فِي أُمُورِنَا ، فَلَمْ يَبْقَ إِلَّا أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ ؟ فَرَدَّدَتْ ، وَكَانَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ إِذَا غَابَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَهِدْتُهُ أَتَيْتُهُ بِمَا يَكُونُ ، وَإِذَا غِبْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَهِدَ أَتَانِي بِمَا يَكُونُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَكَانَ مَنْ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِ اسْتَقَامَ لَهُ ، فَلَمْ يَبْقَ إِلَّا مَلِكُ غَسَّانَ بِالشَّأْمِ ، كُنَّا نَخَافُ أَنْ يَأْتِيَنَا ، فَمَا شَعَرْتُ إِلَّا بِالأَنْصَارِيِّ وَهُوَ يَقُولُ : إِنَّهُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ ، قُلْتُ لَهُ : وَمَا هُوَ ، أَجَاءَ الغَسَّانِيُّ ؟ قَالَ : أَعْظَمُ مِنْ ذَاكَ ، طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ ، فَجِئْتُ فَإِذَا البُكَاءُ مِنْ حُجَرِهِنَّ كُلِّهَا ، وَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَعِدَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ ، وَعَلَى بَابِ المَشْرُبَةِ وَصِيفٌ ، فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ : اسْتَأْذِنْ لِي ، فَأَذِنَ لِي ، فَدَخَلْتُ ، فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَصِيرٍ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ ، وَتَحْتَ رَأْسِهِ مِرْفَقَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ ، وَإِذَا أُهُبٌ مُعَلَّقَةٌ وَقَرَظٌ فَذَكَرْتُ الَّذِي قُلْتُ لِحَفْصَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ ، وَالَّذِي رَدَّتْ عَلَيَّ أُمُّ سَلَمَةَ ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَبِثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً ثُمَّ نَزَلَ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
5529 حدثنا سليمان بن حرب ، حدثنا حماد بن زيد ، عن يحيى بن سعيد ، عن عبيد بن حنين ، عن ابن عباس ، رضي الله عنهما قال : لبثت سنة وأنا أريد أن أسأل عمر ، عن المرأتين اللتين تظاهرتا على النبي صلى الله عليه وسلم ، فجعلت أهابه ، فنزل يوما منزلا فدخل الأراك ، فلما خرج سألته فقال : عائشة وحفصة ، ثم قال : كنا في الجاهلية لا نعد النساء شيئا ، فلما جاء الإسلام وذكرهن الله ، رأينا لهن بذلك علينا حقا ، من غير أن ندخلهن في شيء من أمورنا ، وكان بيني وبين امرأتي كلام ، فأغلظت لي ، فقلت لها : وإنك لهناك ؟ قالت : تقول هذا لي وابنتك تؤذي النبي صلى الله عليه وسلم ، فأتيت حفصة فقلت لها : إني أحذرك أن تعصي الله ورسوله ، وتقدمت إليها في أذاه ، فأتيت أم سلمة فقلت لها ، فقالت : أعجب منك يا عمر ، قد دخلت في أمورنا ، فلم يبق إلا أن تدخل بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وأزواجه ؟ فرددت ، وكان رجل من الأنصار إذا غاب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وشهدته أتيته بما يكون ، وإذا غبت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وشهد أتاني بما يكون من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وكان من حول رسول الله صلى الله عليه وسلم قد استقام له ، فلم يبق إلا ملك غسان بالشأم ، كنا نخاف أن يأتينا ، فما شعرت إلا بالأنصاري وهو يقول : إنه قد حدث أمر ، قلت له : وما هو ، أجاء الغساني ؟ قال : أعظم من ذاك ، طلق رسول الله صلى الله عليه وسلم نساءه ، فجئت فإذا البكاء من حجرهن كلها ، وإذا النبي صلى الله عليه وسلم قد صعد في مشربة له ، وعلى باب المشربة وصيف ، فأتيته فقلت : استأذن لي ، فأذن لي ، فدخلت ، فإذا النبي صلى الله عليه وسلم على حصير قد أثر في جنبه ، وتحت رأسه مرفقة من أدم حشوها ليف ، وإذا أهب معلقة وقرظ فذكرت الذي قلت لحفصة وأم سلمة ، والذي ردت علي أم سلمة ، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فلبث تسعا وعشرين ليلة ثم نزل
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated Ibn `Abbas:

For one year I wanted to ask `Umar about the two women who helped each other against the Prophet (ﷺ) but I was afraid of him. One day he dismounted his riding animal and went among the trees of Arak to answer the call of nature, and when he returned, I asked him and he said, (They were) `Aisha and Hafsa. Then he added, We never used to give significance to ladies in the days of the Pre-lslamic period of ignorance, but when Islam came and Allah mentioned their rights, we used to give them their rights but did not allow them to interfere in our affairs. Once there was some dispute between me and my wife and she answered me back in a loud voice. I said to her, 'Strange! You can retort in this way?' She said, 'Yes. Do you say this to me while your daughter troubles Allah's Messenger (ﷺ)?' So I went to Hafsa and said to her, 'I warn you not to disobey Allah and His Apostle.' I first went to Hafsa and then to Um Salama and told her the same. She said to me, 'O `Umar! It surprises me that you interfere in our affairs so much that you would poke your nose even into the affairs of Allah's Messenger (ﷺ) and his wives.' So she rejected my advice. There was an Ansari man; whenever he was absent from Allah's Messenger (ﷺ) and I was present there, I used to convey to him what had happened (on that day), and when I was absent and he was present there, he used to convey to me what had happened as regards news from Allah's Messenger (ﷺ) . During that time all the rulers of the nearby lands had surrendered to Allah's Messenger (ﷺ) except the king of Ghassan in Sham, and we were afraid that he might attack us. All of a sudden the Ansari came and said, 'A great event has happened!' I asked him, 'What is it? Has the Ghassani (king) come?' He said, 'Greater than that! Allah's Messenger (ﷺ) has divorced his wives! I went to them and found all of them weeping in their dwellings, and the Prophet (ﷺ) had ascended to an upper room of his. At the door of the room there was a slave to whom I went and said, Ask the permission for me to enter. He admitted me and I entered to see the Prophet (ﷺ) lying on a mat that had left its imprint on his side. Under his head there was a leather pillow stuffed with palm fires. Behold! There were some hides hanging there and some grass for tanning. Then I mentioned what I had said to Hafsa and Um Salama and what reply Um Salama had given me. Allah's Messenger (ﷺ) smiled and stayed there for twenty nine days and then came down. (See Hadith No. 648, Vol. 3 for details)

":"ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے ، ان سے یحییٰ بن سعید نے ، ان سے عبید بن حنین نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہمیں عمر رضی اللہ عنہ سے ان عورتوں کے بارے میں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں اتفاق کر لیا تھا ، پوچھنے کاارادہ کرتا رہا لیکن ان کا رعب سامنے آ جاتا تھا ۔ ایک دن ( مکہ کے راستہ میں ) ایک منزل پرقیام کیا اور پیلو کے درختوں میں ( وہ قضائے حاجت کے لیے ) تشریف لے گئے ۔ جب قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس تشریف لائے تو میں نے پوچھا انہوں نے بتلایا کہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما ہیں پھر کہا کہ جاہلیت میں ہم عورتوں کو کوئی حیثیت نہیں دیتے تھے ۔ جب اسلام آیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر کیا ( اور ان کے حقوق ) مردوں پر بتائے تب ہم نے جانا کہ ان کے بھی ہم پر کچھ حقوق ہیں لیکن اب بھی ہم اپنے معاملات میں ان کا دخیل بننا پسند نہیں کرتے تھے ۔ میرے اور میری بیوی میں کچھ گفتگو ہو گئی اور اس نے تیز وتند جواب مجھے دیاتو میں نے اس سے کہا اچھا اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ۔ اس نے کہا تم مجھے یہ کہتے ہو اورتمہاری بیٹی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی تکلیف پہنچاتی ہے ۔ میں ( اپنی بیٹی ام المؤمنین ) حفصہ کے پاس آیا اور اس سے کہا میں تجھے تنبیہ کرتا ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے کے معاملہ میں سب سے پہلے میں ہی حفصہ کے یہاں گیا پھر میں حضرت ام سلمہ کے پاس آیا اور ان سے بھی یہی بات کہی لیکن انہوں نے کہا کہ حیرت ہے تم پر عمر ! تم ہمارے معاملات میں دخیل ہو گئے ہو ۔ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج کے معاملات میں دخل دینا باقی تھا ۔ ( سو اب وہ بھی شروع کر دیا ) انہوں نے میری بات رد کر دی ۔ قبیلہ انصار کے ایک صحابی تھے جب وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں موجود نہ ہوتے اور میں حاضر ہوتا تو تمام خبریں ان سے آ کر بیان کرتا تھا اور جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے غیرحاضر ہوتا اور وہ موجود ہوتے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تمام خبریں مجھے آ کر سناتے تھے ۔ آپ کے چاروں طرف جتنے ( بادشاہ وغیرہ ) تھے ان سب سے آپ کے تعلقات ٹھیک تھے ۔ صرف شام کے ملک غسان کا ہمیں خوف رہتا تھا کہ وہ کہیں ہم پر حملہ نہ کر دے ۔ میں نے جو ہوش وحواس درست کئے تو وہی انصاری صحابی تھے اور کہہ رہے تھے کہ ایک حادثہ ہو گیا ۔ میں نے کہا کیا بات ہوئی ۔ کیا غسان چڑھ آیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بھی بڑا حادثہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ۔ میں جب ( مدینہ ) حاضر ہوا تو تمام ازواج کے حجروں سے رونے کی آواز آ رہی تھی ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانہ پر چلے گئے تھے اور بالا خانہ کے دروازہ پر ایک نو جوان پہرے دار موجود تھا میں نے اس کے پاس پہنچ کر اس سے کہا کہ میرے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر حاضر ہونے کی اجازت مانگ لو پھر میں اندر گیا تو آپ ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے جس کے نشانات آپ کے پہلو پر پڑے ہوئے تھے اور آپ کے سرکے نیچے ایک چھوٹا سا چمڑے کاتکیہ تھا ۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ۔ چند کچی کھالیں لٹک رہی تھیں اور ببول کے پتے تھے ۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ان باتوں کا ذکر کیا جو میں نے حفصہ اور ام سلمہ سے کہی تھیں اور وہ بھی جو ام سلمہ نے میری بات رد کرتے ہوئے کہا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مسکرادیئے ۔ آپ نے اس بالا خانہ میں انتیس دن تک قیام کیا پھر آپ وہاں سے نیچے اتر آئے ۔

شرح الحديث من إرشاد الساري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    باب مَا كَانَ النَّبِىُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَتَجَوَّزُ مِنَ اللِّبَاسِ وَالْبُسْطِ
( باب ما كان النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يتجوّز) بالجيم من التجوّز أي يتوسع ( من اللباس والبسط) فلا يضيق بالاقتصار على صنف بعينه، ولأبي ذر عن الكشميهني: يتحرى بحاء مهملة بعدها راء كذا في الفرع وقال في الفتح: وتبعه العيني بالجيم والزاي المفتوحة المشددة.
قال العيني: وما أظنه صحيحًا إلاّ بالحاء المهملة والراء.


[ قــ :5529 ... غــ : 5843 ]
- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ - رضى الله عنهما - قَالَ: لَبِثْتُ سَنَةً وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ اللَّتَيْنِ تَظَاهَرَتَا عَلَى النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَجَعَلْتُ أَهَابُهُ فَنَزَلَ يَوْمًا مَنْزِلاً فَدَخَلَ الأَرَاكَ فَلَمَّا خَرَجَ سَأَلْتُهُ فَقَالَ: عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ ثُمَّ قَالَ: كُنَّا فِى الْجَاهِلِيَّةِ لاَ نَعُدُّ النِّسَاءَ شَيْئًا فَلَمَّا جَاءَ الإِسْلاَمُ وَذَكَرَهُنَّ اللَّهُ رَأَيْنَا لَهُنَّ بِذَلِكَ عَلَيْنَا حَقًّا مِنْ غَيْرِ أَنْ نُدْخِلَهُنَّ فِى شَىْءٍ مِنْ أُمُورِنَا، وَكَانَ بَيْنِى وَبَيْنَ امْرَأَتِى كَلاَمٌ، فَأَغْلَظَتْ لِى فَقُلْتُ لَهَا: وَإِنَّكِ لَهُنَاكِ قَالَتْ: تَقُولُ هَذَا لِى وَابْنَتُكَ تُؤْذِى النَّبِىَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَأَتَيْتُ حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَهَا: إِنِّى أُحَذِّرُكِ أَنْ تَعْصِى اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَتَقَدَّمْتُ إِلَيْهَا فِى أَذَاهُ فَأَتَيْتُ أُمَّ
سَلَمَةَ فَقُلْتُ لَهَا فَقَالَتْ: أَعْجَبُ مِنْكَ يَا عُمَرُ قَدْ دَخَلْتَ فِى أُمُورِنَا فَلَمْ يَبْقَ إِلاَّ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَأَزْوَاجِهِ، فَرَدَّدَتْ وَكَانَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ إِذَا غَابَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَشَهِدْتُهُ أَتَيْتُهُ بِمَا يَكُونُ، وَإِذَا غِبْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَشَهِدَ أَتَانِى بِمَا يَكُونُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَكَانَ مَنْ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَدِ اسْتَقَامَ لَهُ، فَلَمْ يَبْقَ إِلاَّ مَلِكُ غَسَّانَ بِالشَّأْمِ كُنَّا نَخَافُ أَنْ يَأْتِيَنَا فَمَا شَعَرْتُ إِلاَّ بِالأَنْصَارِىِّ وَهْوَ يَقُولُ: إِنَّهُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ،.

قُلْتُ لَهُ: وَمَا هُوَ أَجَاءَ الْغَسَّانِىُّ؟ قَالَ: أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ، طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- نِسَاءَهُ فَجِئْتُ فَإِذَا الْبُكَاءُ مِنْ حُجَرِهَا كُلِّهَا وَإِذَا النَّبِىُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَدْ صَعِدَ فِى مَشْرُبَةٍ لَهُ وَعَلَى بَابِ الْمَشْرُبَةِ وَصِيفٌ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِى، فَدَخَلْتُ فَإِذَا النَّبِىُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عَلَى حَصِيرٍ قَدْ أَثَّرَ فِى جَنْبِهِ وَتَحْتَ رَأْسِهِ مِرْفَقَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، وَإِذَا أُهُبٌ مُعَلَّقَةٌ، وَقَرَظٌ فَذَكَرْتُ الَّذِى.

قُلْتُ لِحَفْصَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَالَّذِى رَدَّتْ عَلَىَّ أُمُّ سَلَمَةَ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَلَبِثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً ثُمَّ نَزَلَ.

وبه قال: ( حدّثنا سليمان بن حرب) الواشحي قال: ( حدّثنا حماد بن زيد) أي ابن درهم ( عن يحيى بن سعيد) الأنصاري ( عن عبيد بن حنين) بضم العين والحاء المهملتين مصغرين مولى زيد بن الخطاب ( عن ابن عباس -رضي الله عنهما-) أنه ( قال: لبثت سنة وأنا أريد أن أسأل عمر) بن الخطاب -رضي الله عنه- ( عن المرأتين اللتين تظاهرتا على النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) تعاونتا عليه بما كسبتاه من الإفراط في الغيرة وإفشاء السر ( فجعلت أهابه) زاد في التفسير حتى خرج حاجًّا فخرجت معه فلما رجعنا وكنا ببعض الطريق ( فنزل يومًا منزلاً) بمز الظهران ( فدخل الأراك) لقضاء الحاجة ( فلما خرج) بعد قضاء حاجته ( سألته) عن ذلك ( فقال) هما ( عائشة وحفصة، ثم قال) عمر- رضي الله عنه- ( كنا في الجاهلية لا نعدّ النساء شيئًا فلما جاء الإسلام وذكرهن الله) بنحو قوله: { وعاشروهن بالمعروف} [النساء: 19] ( رأينا لهن بذلك) الذي ذكرهن الله ولأبي ذر عن الحموي والمستملي بذاك بغير لام ( علينا حقًّا من غير أن ندخلهن في شيء من أمورنا وكان بيني وبين امرأتي كلام فأغلظت لي) بفتح الظاء المعجمة وسكون الفوقية ( فقلت لها: وإنك لهناك) بكسر الكاف فيهما ( قالت: تقول هذا لي وابنتك) حفصة ( تؤذي النبي) ولأبي ذر رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بمراجعتها له حتى يظل يومه غضبان فقال عمر -رضي الله عنه- ( فأتيت حفصة فقلت لها: إني أحذرك أن تعصي الله) من العصيان ولأبي ذر أن تغضبي الله ( ورسوله) بضم الفوقية وبالغين والضاد المعجمتين من الإغضاب ( وتقدمت إليها) أولاً قبل الدخول على غيرها ( في) قصة ( أذاه) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أو المعنى تقدمت في أذى شخصها وإيلام بدنها بالضرب ونحوه ( فأتيت أم سلمة) زوج النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لقرابتي منها ( فقلت لها) نحو ما قلته لحفصة ( فقالت: أعجب منك يا عمر قد دخلت في أمورنا) وفي التفسير دخلت في كل شيء ( فلم يبق إلا أن تدخل بين رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وأزواجه فرددت) بتشديد الدال الأولى وسكون الثانية من الترديد ولأبي ذر عن الكشميهني فردت بدال واحدة مشددة من الرد، وفي التفسير فأخذتني والله أخذًا كسرتني عن بعض ما كنت أجد ( وكان رجل من الأنصار) هو
أوس بن خولي أو عتبان بن مالك ( إذا غاب عن رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وشهدته أتيته بما يكون) من أمر الوحي وغيره ( وإذا غبت عن رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وشهد) هو ( أتاني بما يكون من) خبر ( رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) من الوحي وغيره ( وكان من حول رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) من الملوك ونحوهم ( قد استقام له فلم يبق إلا ملك غسان بالشام) وهو جبلة بن الأيهم ( كنا نخاف أن يأتينا) ليغزونا ( فما شعرت إلا بالأنصاري) كذا لأبي ذر عن الحموي والمستملي بتقديم إلا على قوله بالأنصاري وللكشميهني فما شعرت بالأنصاري إلا ( وهو يقول) : بتأخيرها.
قال في الكواكب في جلّ النسخ أو في كلها وهو يقول بدون كلمة الاستثناء، ووجهه أن إلا مقدرة والقرينة تدل عليها أو كلمة ما زائدة أي شعرت بالأنصاري وهو يقول أو ما مصدرية، ويقول مبتدأ خبره بالأنصاري أي شعوري متلبس بالأنصاري قائلاً قوله أعظم وقال العيني: الأحسن أن يقال ما مصدرية والتقدير شعوري بالأنصاري حال كونه قائلاً أعظم.
قال وقول الكرماني ويقول مبتدأ فيه نظر لأن الفعل لا يقع مبتدأ إلا بالتأويل، وقال في الفتح: ويحتمل أن تكون ما نافية على حالها بغير احتياج لحرف الاستثناء والمراد المبالغة في نفي شعوره بكلام الأنصاري من شدة ما دهمه من الخبر الذي أخبر به، ويكون قد استثبته فيه مرة أخرى، ولذلك نقله عنه لكن رواية الكشميهني ترجح الاحتمال الأول وتوضح أن قول الكرماني أو في كلها ليس كذلك ( انه) أي الشأن ( قد حدث أمر) بتخفيف الدال المهملة ( قلت له: وما هو أجاء الغساني) ؟ بهمزة الاستفهام الاستخباري ( قال: أعظم من ذلك.
طلّق رسول الله)
ولأبي الوقت النبي ( -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- نساءه) وإنما كان عنده أعظم لأن فيه مفارقة رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لحفصة ابنته مع ما في ذلك من مشقته عليه الصلاة والسلام التي كانت سبب ذلك وعبّر بالطلاق ظنًّا منه أن اعتزاله طلاق.
قال عمر -رضي الله عنه- ( فجئت فإذا البكاء من حجرها كلها) ولأبي ذر من حجرهن كلهن أي منازلهن -رضي الله عنه- ( وإذا النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قد صعد) بكسر العين ارتقى ( في مشربة) بفتح الميم وسكون الشين المعجمة وضم الراء غرفة ( له وعلى باب المشربة وصيف) خادم لم يبلغ الحلم وفي التفسير غلام أسود وهو رباح ( فأتيته فقلت استأذن لي) رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- في الدخول عليه فدخل فاستأذن ( فأذن لي) عليه الصلاة والسلام ( فدخلت) وثبت قوله فأذن لي في رواية أبي ذر ( فإذا النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- على حصير) ما بينه وبينه شيء ( قد أثّر) الحصير ( في جنبه وتحت رأسه مرفقة) بكسر الميم وسكون الراء وفتح الفاء والقاف ( من أدم حشوها ليف) وهذا موضع الترجمة على ما لا يخفى ( وإذا أهب معلقة) بفتح الهمزة والهاء لأبي ذر ولغيره بضمهما ( وقرظ) بقاف وراء مفتوحتين وظاء معجمة ورق السلم الذي يدبغ فيه ( فذكرت) له عليه الصلاة والسلام ( الذي قلت لحفصة وأم سلمة والذي ردت علي أم سلمة فضحك رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) تبسمًا من غير صوت ( فلبث) عليه الصلاة والسلام في المشربة ( تسعًا وعشرين ليلة ثم نزل) من المشربة.

وهذا الحديث سبق في سورة التحريم من التفسير.