هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
5924 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ حِمَارًا ، عَلَيْهِ إِكَافٌ تَحْتَهُ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ ، وَأَرْدَفَ وَرَاءَهُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ ، وَهُوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الحَارِثِ بْنِ الخَزْرَجِ ، وَذَلِكَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ ، حَتَّى مَرَّ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلاَطٌ مِنَ المُسْلِمِينَ وَالمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ وَاليَهُودِ ، وَفِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ ، وَفِي المَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ ، فَلَمَّا غَشِيَتِ المَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ ، خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ ، ثُمَّ قَالَ : لاَ تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ وَقَفَ ، فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ ، وَقَرَأَ عَلَيْهِمُ القُرْآنَ ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ : أَيُّهَا المَرْءُ ، لاَ أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا ، فَلاَ تُؤْذِنَا فِي مَجَالِسِنَا ، وَارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ ، فَمَنْ جَاءَكَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَيْهِ ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ : اغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ ، فَاسْتَبَّ المُسْلِمُونَ وَالمُشْرِكُونَ وَاليَهُودُ ، حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا ، فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ ، ثُمَّ رَكِبَ دَابَّتَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ ، فَقَالَ : أَيْ سَعْدُ ، أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَى مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ - يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ - قَالَ كَذَا وَكَذَا قَالَ : اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاصْفَحْ ، فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَاكَ اللَّهُ الَّذِي أَعْطَاكَ ، وَلَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ البَحْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ ، فَيُعَصِّبُونَهُ بِالعِصَابَةِ ، فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِكَ بِالحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَ شَرِقَ بِذَلِكَ ، فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ ، فَعَفَا عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  يريد عبد الله بن أبي قال كذا وكذا قال : اعف عنه يا رسول الله واصفح ، فوالله لقد أعطاك الله الذي أعطاك ، ولقد اصطلح أهل هذه البحرة على أن يتوجوه ، فيعصبونه بالعصابة ، فلما رد الله ذلك بالحق الذي أعطاك شرق بذلك ، فذلك فعل به ما رأيت ، فعفا عنه النبي صلى الله عليه وسلم
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated `Urwa-bin Az-Zubair:

Usama bin Zaid said, The Prophet (ﷺ) rode over a donkey with a saddle underneath which there was a thick soft Fadakiya velvet sheet. Usama bin Zaid was his companion rider, and he was going to pay a visit to Sa`d bin Ubada (who was sick) at the dwelling place of Bani Al-Harith bin Al-Khazraj, and this incident happened before the battle of Badr. The Prophet (ﷺ) passed by a gathering in which there were Muslims and pagan idolators and Jews, and among them there was `Abdullah bin Ubai bin Salul, and there was `Abdullah bin Rawaha too. When a cloud of dust raised by the animal covered that gathering, `Abdullah bin Ubai covered his nose with his Rida (sheet) and said (to the Prophet), Don't cover us with dust. The Prophet (ﷺ) greeted them and then stopped, dismounted and invited them to Allah (i.e., to embrace Islam) and also recited to them the Holy Qur'an. `Abdullah bin Ubai' bin Salul said, O man! There is nothing better than what you say, if what you say is the truth. So do not trouble us in our gatherings. Go back to your mount (or house,) and if anyone of us comes to you, tell (your tales) to him. On that `Abdullah bin Rawaha said, (O Allah's Messenger (ﷺ)!) Come to us and bring it(what you want to say) in our gatherings, for we love that. So the Muslims, the pagans and the Jews started quarreling till they were about to fight and clash with one another. The Prophet (ﷺ) kept on quietening them (till they all became quiet). He then rode his animal, and proceeded till he entered upon Sa`d bin 'Ubada, he said, O Sa`d, didn't you hear what Abu Habbab said? (He meant `Abdullah bin Ubai). He said so-and-so. Sa`d bin 'Ubada said, O Allah's Messenger (ﷺ)! Excuse and forgive him, for by Allah, Allah has given you what He has given you. The people of this town decided to crown him (as their chief) and make him their king. But when Allah prevented that with the Truth which He had given you, it choked him, and that was what made him behave in the way you saw him behaving. So the Prophet excused him.

":"ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی ، انہیں معمر نے ، انہیں زہری نے ، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان بندھا ہوا تھا اور نیچے فد ک کی بنی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر اپنے پیچھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بٹھایا تھا ۔ آپ بنی حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے تشریف لے جا رہے تھے ۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس پر سے گزرے جس میں مسلمان بت پرست مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے ۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی ان میں تھا ۔ مجلس میں عبداللہ بن رواحہ بھی موجود تھے ۔ جب مجلس پر سواری کا گرد پڑا تو عبداللہ نے اپنی چادر سے اپنی ناک چھپا لی اور کہا کہ ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ ۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور وہاں رک گئے اور اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلایا اور ان کے لئے قرآن مجید کی تلاو ت کی ۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول بولا ، میاں میں ان باتوں کے سمجھنے سے قاصر ہوں اگر وہ چیز حق ہے جو تم کہتے ہو تو ہماری مجلسوں میں آ کر ہمیں تکلیف نہ دیا کرو ۔ اس پر ابن رواحہ نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں ۔ پھر مسلمانوں مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر تو تو میں میں ہونے لگی اور قریب تھا کہ وہ کوئی ارادہ کربیٹھیں اور ایک دوسرے پر حملہ کر دیں ۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں برابر خاموش کراتے رہے اور جب وہ خاموش ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر بیٹھ کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ، سعد تم نے نہیں سنا کہ ابو حباب نے آج کیا بات کہی ہے ۔ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا کہ اس نے یہ یہ باتیں کہی ہیں ۔ حضرت سعد نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اسے معاف کر دیجئیے اور درگزر فرمائیے ۔ اللہ تعالیٰ نے وہ حق آپ کو عطا فرمایا ہے جو عطا فرمانا تھا ۔ اس بستی ( مدینہ منورہ ) کے لوگ ( آپ کی تشریف آوری سے پہلے ) اس پر متفق ہو گئے تھے کہ اسے تاج پہنا دیں اور شاہی عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کو اس حق کی وجہ سے ختم کر دیا جو اس نے آپ کو عطا فرمایا ہے تو اسے حق سے حسد ہو گیا اور اسی وجہ سے اس نے یہ معاملہ کیا ہے جو آپ نے دیکھا ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا ۔

شرح الحديث من إرشاد الساري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    باب التَّسْلِيمِ فِى مَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلاَطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ
( باب) حكم ( التسليم في مجلس فيه أخلاط من المسلمين والمشركين) .


[ قــ :5924 ... غــ : 6254 ]
- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِىِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: أَخْبَرَنِى أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ أَنَّ النَّبِىَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- رَكِبَ حِمَارًا عَلَيْهِ إِكَافٌ تَحْتَهُ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ، وَأَرْدَفَ وَرَاءَهُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، وَهْوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِى بَنِى الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، وَذَلِكَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، حَتَّى مَرَّ فِى مَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلاَطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ وَالْيَهُودِ وَفِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ ابْنُ سَلُولَ، وَفِى الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَلَمَّا غَشِيَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ ثُمَّ قَالَ: لاَ تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا فَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ النَّبِىُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ وَقَرَأَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ ابْنُ سَلُولَ، أَيُّهَا الْمَرْءُ لاَ أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَلاَ تُؤْذِنَا فِى مَجَالِسِنَا وَارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ فَمَنْ جَاءَكَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَيْهِ، قَالَ ابْنُ رَوَاحَةَ: اغْشَنَا فِى مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا فَلَمْ يَزَلِ النَّبِىُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يُخَفِّضُهُمْ ثُمَّ رَكِبَ دَابَّتَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ: «أَىْ سَعْدُ أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ»؟ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَىٍّ قَالَ: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاصْفَحْ، فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَاكَ اللَّهُ الَّذِى أَعْطَاكَ، وَلَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبَحْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُونَهُ بِالْعِصَابَةِ، فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِى أَعْطَاكَ شَرِقَ بِذَلِكَ، فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ فَعَفَا عَنْهُ النَّبِىُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-.

وبه قال: ( حدّثنا إبراهيم بن موسى) الرازي الصغير قال: ( أخبرنا هشام) هو ابن يوسف الصنعاني ( عن معمر) هو ابن راشد ( عن الزهري) محمد بن مسلم ( عن عروة بن الزبير) أنه ( قال: أخبرني) بالإفراد ( أسامة بن زيد) -رضي الله عنه- ( أن النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ركب حمارًا عليه إكاف) بكسر الهمزة كالبرذعة ونحوها لذوات الحافر ( تحته قطيفة) بفتح القاف كساء له خمل ( فدكية) بالفاء والدال المهملة نسبة إلى فدك بفتحتين مدينة بعيدة عن المدينة بيومين ( وأردف وراءه أسامة بن زيد وهو يعود سعد بن عبادة) من مرض كان به ( في بني الحارث بن الخزرج وذلك قبل وقعة بدر حتى مرّ في مجلس فيه أخلاط) ناس مختلطون ( من المسلمين والمشركين عبدة الأوثان) بالمثلثة ( واليهود) بالجر عطفًا على سابقه ( وفيهم عبد الله بن أبي) بضم الهمز والتنوين ( ابن سلول) بفتح المهملة اسم أمه فلا ينصرف ( وفي المجلس عبد الله بن رواحة) بفتح الراء والحاء المهملة ( فلما غشيت المجلس عجاجة الدابة) غبارها الذي تثيره ( خمّر) غطى ( عبد الله بن أبي أنفه بردائه ثم قال) عبد الله بن أبي: ( لا تغبروا) بالموحدة لا تثيروا الغبار ( علينا فسلم عليهم النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ثم وقف فنزل فدعاهم إلى الله وقرأ عليهم القرآن، فقال عبد الله بن أبي ابن سلول) للنبي-صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: ( أيها المرء لا)
شيء ( أحسن من هذا) الذي تدعو إليه ( إن كان ما تقول حقًّا فلا تؤذنا) به ( في مجالسنا وارجع) بالواو ولأبي ذر عن الحموي والمستملي ارجع ( إلى رحلك) بالحاء المهملة منزلك ( فمن جاءك منا فاقصص عليه.
قال ابن رواحة)
: ولأبي الوقت قال عبد الله بن رواحة ( اغشنا) بالغين والشين المفتوحة المعجمتين أي باشرنا به يا رسول الله ( في مجالسنا فإنا نحب ذلك فاستب المسلمون والمشركون واليهود) لذلك ( حتى هموا) قصدوا ( أن يتواثبوا) بالمثلثة بعدها موحدة يتحاربوا ويتضاربوا ( فلم يزل النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يخفضهم) يسكتهم ( حتى سكتوا ثم ركب) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ( دابته) فسار ( حتى دخل على سعد بن عبادة) لعيادته ( فقال) :
( أي سعد ألم تسمع ما) ولأبي ذر: إلى ما ( قال أبو حباب) : بضم المهملة وتخفيف الموحدة ( يريد) عليه الصلاة والسلام ( عبد الله بن أبي قال: كذا وكذا.
قال)
سعد: ( اعف عنه يا رسول الله واصفح فوالله لقد أعطاك الله الذي أعطاك) من الرسالة ( ولقد اصطلح أهل هذه البحرة) بفتح الموحدة وسكون المهملة ولأبي ذر عن الحموي والمستملي البحيرة بضم الموحدة وفتح المهملة القرية والعرب تسمي القرى البحار وقال الجوهري: البحرة دون الوادي والمراد طيبة ( على أن يتوّجوه) أي عبد الله بن أبي بتاج الملك ( فيعصبونه) بالفاء والنون ولأبي ذر فيعصبوه ( بالعصابة) حقيقة أو كناية عن جعله ملكًا وهما ملازمان للملكية ( فلما ردّ الله ذلك) الذي اصطلحوا عليه ( بالحق الذي أعطاك شرق) بفتح المعجمة وكسر الراء غص ابن أبي ( بذلك) الحق ( فذلك) الحق الذي ( فعل به ما رأيت) من فعله ( فعفا عنه النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) الحديث.

وسبق بأتمّ من هذا قريبًا، والغرض منه قوله: أنه مرّ في مجلس فيه أخلاط من المسلمين والمشركين واليهود وأنه سلم عليهم -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ولم يرد أنه خصّ المسلمين باللفظ ففيه أنه يسلم بلفظ التعميم ويقصد به المسلم، وقد اختلف في حكم ابتداء الكافر بالسلام هل يمنع منه، ففي مسلم من حديث أبي هريرة: لا تبدؤوا اليهود والنصارى بالسلام واضطروهم إلى أضيق الطرق، وفي النسائي عن أبي بصرة الغفاري بفتح الموحدة أنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قال: "إني راكب غدًا إلى يهود فلا تبدؤوهم بالسلام" وقال: يجوز ابتداؤهم به لما عند الطبري من طريق ابن عيينة قال: يجوز ابتداء الكافر بالسلام لقوله تعالى: { لا ينهاكم الله عن الذين لم يقاتلوكم في الدين} [الممتحنة: 8] وقول إبراهيم لأبيه: سلام عليك، والمعتمد الأول وأن النهي للتحريم.

وأجيب: بأنه ليس المراد بسلام إبراهيم على أبيه التحية بل المتاركة والمباعدة وقال ابن كثير: هو كما قال الله تعالى في صفة المؤمنين { إذا خاطبهم الجاهلون قالوا سلامًا} [الفرقان: 63] فمعنى قول إبراهيم لأبيه سلام عليك أي أمان فلا ينالك مني مكروه ولا أذى وذلك لحرمة الأبوّة اهـ.

لكن المراد منع ابتدائهم بالسلام المشروع فلو سلّم عليهم بلفظ يقتضي خروجهم عنه كأن يقول: السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين فسائغ كما كتب النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- إلى هرقل: سلام على من
اتّبع الهدى، ونقل ابن العربي عن مالك إذا ابتدأ شخصًا بالسلام وهو يظنه مسلمًا فبان كافرًا قال ابن عمر: يسترد منه سلامه، وقال مالك: لا، قال ابن العربي: لأن الاسترداد حينئذ لا فائدة له لأنه لم يحصل له منه شيء لكونه قصد السلام على المسلم، وقال غيره: له فائدة وهي إعلام الكافر بانه ليس أهلاً للابتداء بالسلام.

وحديث الباب سبق في الأدب وغيره.