هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6105 قَالَ : فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً ، فَقَالَ لِي : اجْلِسْ هَا هُنَا قَالَ : فَأَجْلَسَنِي فِي قَاعٍ حَوْلَهُ حِجَارَةٌ ، فَقَالَ لِي : اجْلِسْ هَا هُنَا حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ قَالَ : فَانْطَلَقَ فِي الحَرَّةِ حَتَّى لاَ أَرَاهُ ، فَلَبِثَ عَنِّي فَأَطَالَ اللُّبْثَ ، ثُمَّ إِنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُقْبِلٌ ، وَهُوَ يَقُولُ : وَإِنْ سَرَقَ ، وَإِنْ زَنَى قَالَ : فَلَمَّا جَاءَ لَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قُلْتُ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ ، مَنْ تُكَلِّمُ فِي جَانِبِ الحَرَّةِ ، مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَرْجِعُ إِلَيْكَ شَيْئًا ؟ قَالَ : ذَلِكَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ، عَرَضَ لِي فِي جَانِبِ الحَرَّةِ ، قَالَ : بَشِّرْ أُمَّتَكَ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ ، قُلْتُ : يَا جِبْرِيلُ ، وَإِنْ سَرَقَ ، وَإِنْ زَنَى ؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : قُلْتُ : وَإِنْ سَرَقَ ، وَإِنْ زَنَى ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَإِنْ شَرِبَ الخَمْرَ قَالَ النَّضْرُ : أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ ، وَالأَعْمَشُ ، وَعَبْدُ العَزِيزِ بْنُ رُفَيْعٍ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ ، بِهَذَا ، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ : حَدِيثُ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، مُرْسَلٌ لاَ يَصِحُّ ، إِنَّمَا أَرَدْنَا لِلْمَعْرِفَةِ ، وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ ، قِيلَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ : حَدِيثُ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ : مُرْسَلٌ أَيْضًا لاَ يَصِحُّ ، وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ وَقَالَ : اضْرِبُوا عَلَى حَدِيثِ أَبِي الدَّرْدَاءِ هَذَا : إِذَا مَاتَ قَالَ : لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، عِنْدَ المَوْتِ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6105 قال : فمشيت معه ساعة ، فقال لي : اجلس ها هنا قال : فأجلسني في قاع حوله حجارة ، فقال لي : اجلس ها هنا حتى أرجع إليك قال : فانطلق في الحرة حتى لا أراه ، فلبث عني فأطال اللبث ، ثم إني سمعته وهو مقبل ، وهو يقول : وإن سرق ، وإن زنى قال : فلما جاء لم أصبر حتى قلت : يا نبي الله جعلني الله فداءك ، من تكلم في جانب الحرة ، ما سمعت أحدا يرجع إليك شيئا ؟ قال : ذلك جبريل عليه السلام ، عرض لي في جانب الحرة ، قال : بشر أمتك أنه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة ، قلت : يا جبريل ، وإن سرق ، وإن زنى ؟ قال : نعم قال : قلت : وإن سرق ، وإن زنى ؟ قال : نعم ، وإن شرب الخمر قال النضر : أخبرنا شعبة ، حدثنا حبيب بن أبي ثابت ، والأعمش ، وعبد العزيز بن رفيع ، حدثنا زيد بن وهب ، بهذا ، قال أبو عبد الله : حديث أبي صالح ، عن أبي الدرداء ، مرسل لا يصح ، إنما أردنا للمعرفة ، والصحيح حديث أبي ذر ، قيل لأبي عبد الله : حديث عطاء بن يسار ، عن أبي الدرداء ، قال : مرسل أيضا لا يصح ، والصحيح حديث أبي ذر وقال : اضربوا على حديث أبي الدرداء هذا : إذا مات قال : لا إله إلا الله ، عند الموت
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated Abu Dhar:

Once I went out at night and found Allah's Messenger (ﷺ) walking all alone accompanied by nobody, and I thought that perhaps he disliked that someone should accompany him. So I walked in the shade, away from the moonlight, but the Prophet (ﷺ) looked behind and saw me and said, Who is that? I replied, Abu Dhar, let Allah get me sacrificed for you! He said, O Abu Dhar, come here! So I accompanied him for a while and then he said, The rich are in fact the poor (little rewarded) on the Day of Resurrection except him whom Allah gives wealth which he gives (in charity) to his right, left, front and back, and does good deeds with it. I walked with him a little longer. Then he said to me, Sit down here. So he made me sit in an open space surrounded by rocks, and said to me, Sit here till I come back to you. He went towards Al-Harra till I could not see him, and he stayed away for a long period, and then I heard him saying, while he was coming, Even if he had committed theft, and even if he had committed illegal sexual intercourse? When he came, I could not remain patient and asked him, O Allah's Prophet! Let Allah get me sacrificed for you! Whom were you speaking to by the side of Al-Harra? I did not hear anybody responding to your talk. He said, It was Gabriel who appeared to me beside Al-Harra and said, 'Give the good news to your followers that whoever dies without having worshipped anything besides Allah, will enter Paradise.' I said, 'O Gabriel! Even if he had committed theft or committed illegal sexual intercourse?' He said, 'Yes.' I said, 'Even if he has committed theft or committed illegal sexual intercourse?' He said, 'Yes.' I said, 'Even if he has committed theft or committed illegal sexual intercourse?' He said, 'Yes.'

":"ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے عبد العزیز بن رفیع نے ، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہایک روز میں باہر نکلاتو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا ۔ ابوذررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس سے میں سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے پسند نہیں فرمائیں گے کہ آپ کے ساتھ اس وقت کوئی رہے ۔ اس لئے میں چاند کے سائے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلنے لگا ۔ اس کے بعد آپ مڑے تو مجھے دیکھا اور دریافت فرمایا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا ابوذر ! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ابوذر ! یہاں آؤ ۔ بیان کیا کہ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جو لوگ ( دنیا میں ) زیادہ مال و دولت جمع کئے ہوئے ہیں قیامت کے دن وہی خسارے میں ہوں گے ۔ سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیاہو اور انہوں نے اسے دائیں بائیں ، آگے پیچھے خرچ کیا ہو اور اسے بھلے کاموں میں لگایا ہو ۔ ( ابوذر رضی اللہ عنہ نے ) بیان کیا کہ پھر تھوڑی دیر تک میں آپ کے ساتھ چلتا رہا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں بیٹھ جاؤ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ہموار زمین پر بٹھا دیا جس کے چاروں طرف پتھر تھے اور فرمایا کہ یہاں اس وقت تک بیٹھے رہو جب تک میں تمہارے پاس لوٹ آؤں ۔ پھر آپ پتھریلی زمین کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔ آپ وہاں رہے اور دیر تک وہیں رہے ۔ پھر میں نے آپ سے سنا ، آپ یہ کہتے ہوئے تشریف لا رہے تھے ” چاہے چوری ہو ، چاہے زنا ہو “ ابوذر کہتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو مجھ سے صبر نہیں ہو سکا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے ۔ اس پتھریلی زمین کے کنارے آپ کس سے باتیں کر رہے تھے ۔ میں نے تو کسی دوسرے کو آپ سے بات کرتے نہیں دیکھا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” یہ جبرائیل علیہ السلام تھے ۔ پتھریلی زمین ( حرہ ) کے کنارے وہ مجھ سے ملے اور کہا کہ اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو بھی اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا ۔ میں نے عرض کیا اے جبرائیل ! خواہ اس نے چوری کی ہو ، زناکیا ہو ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں ، خواہ اس نے شراب ہی پی ہو ۔ “ نضرنے بیان کیا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ( کہا ) ہم سے حبیب بن ابی ثابت ، اعمش اور عبد العزیز بن رفیع نے بیان کیا ، ان سے زید بن وہب نے اسی طرح بیان کیا ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ابوصالح نے جو اسی باب میں ابودرداء سے روایت کی ہے وہ منقطع ہے ( ابوصالح نے ابودرداء سے نہیں سنا ) اور صحیح نہیں ہے ہم نے یہ بیان کر دیا تاکہ اس حدیث کا حال معلوم ہو جائے اور صحیح ابوذر کی حدیث ہے ( جو اوپر مذکورہوئی ) کسی نے امام بخاری سے پوچھا عطاء بن یسار نے بھی تو یہ حدیث ابودرداء سے روایت کی ہے ۔ انہوں نے کہا وہ بھی منقطع ہے اور صحیح نہیں ہے ۔ آخر صحیح وہی ابوذر کی حدیث نکلی ۔ امام بخاری نے کہا ابودرداء کی حدیث کو چھوڑو ( وہ سند لینے کے لائق نہیں ہے کیونکہ وہ منقطع ہے ) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ابوذر کی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مرتے وقت آدمی لا الٰہ الا اللہ کہے اور توحید پر خاتمہ ہو ( تو وہ ایک نہ ایک دن ضرور جنت میں جائے گا گو کتنا ہی گنہگار ہو ) ۔ بعض نسخوں میں یہ ہے ھذا اذا تاب وقال لاالٰہ الا اللہ عند الموت یعنی ابوذرکی حدیث اس شخص کے بارے میں ہے جو گناہ سے توبہ کرے اور مرتے وقت لا الٰہ الا اللہ کہے ۔

شرح الحديث من إرشاد الساري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    باب الْمُكْثِرُونَ هُمُ الْمُقِلُّونَ
وَقَولُهُ تَعَالَى: { مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لاَ يُبْخَسُونَ * أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِى الآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} [هود: 15 - 16] .

هذا ( باب) بالتنوين ( المكثرون) من المال ( هم المقلون) في الثواب، ولأبي ذر عن الكشميهني: هم الأقلون.

( وقوله تعالى { من كان يريد الحياة الدنيا وزينتها نوف إليهم أعمالهم فيها وهم فيها لا يبخسون} ) نوصل إليهم أجور أعمالهم وافية كاملة من غير بخس في الدنيا وهو ما يرزقون فيها من الصحة والرزق وهم الكفار أو المنافقون ( { أولئك الذين ليس لهم في الآخرة إلا النار وحبط ما صنعوا فيها} ) وحبط في الآخرة ما صنعوا أو صنيعهم أي لم يكن لهم ثواب لأنهم لم يريدوا به الآخرة وإنما أرادوا به الدنيا وقد وفى لهم ما أرادوا ( { وباطل ما كانوا يعملون} ) [هود: 15 - 16] أي كان عملهم في نفسه باطلاً لأنه لم يعمل لغرض صحيح والعمل الباطل لا ثواب له وسقط لأبي ذر قوله نوف إليهم الخ وقال: قبلها الآيتين.


[ قــ :6105 ... غــ : 6443 ]
- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ أَبِى ذَرٍّ - رضى الله عنه - قَالَ: خَرَجْتُ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِى فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَمْشِى وَحْدَهُ، وَلَيْسَ مَعَهُ إِنْسَانٌ قَالَ: فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَكْرَهُ أَنْ يَمْشِىَ مَعَهُ أَحَدٌ قَالَ: فَجَعَلْتُ أَمْشِى فِى ظِلِّ الْقَمَرِ فَالْتَفَتَ فَرَآنِى فَقَالَ: «مَنْ هَذَا»؟ قُلْتُ: أَبُو ذَرٍّ، جَعَلَنِى اللَّهُ فِدَاءَكَ قَالَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ تَعَالَهْ» قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً فَقَالَ: «إِنَّ الْمُكْثِرِينَ هُمُ الْمُقِلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلاَّ مَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ خَيْرًا، فَنَفَحَ فِيهِ يَمِينَهُ وَشِمَالَهُ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ وَوَرَاءَهُ وَعَمِلَ فِيهِ خَيْرًا» قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً فَقَالَ لِى: «اجْلِسْ هَا هُنَا» قَالَ: فَأَجْلَسَنِى فِى قَاعٍ حَوْلَهُ حِجَارَةٌ فَقَالَ لِى: «اجْلِسْ هَا هُنَا حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ» قَالَ: فَانْطَلَقَ فِى الْحَرَّةِ حَتَّى لاَ أَرَاهُ فَلَبِثَ عَنِّى فَأَطَالَ اللُّبْثَ، ثُمَّ إِنِّى سَمِعْتُهُ وَهْوَ مُقْبِلٌ وَهْوَ يَقُولُ: «وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى» قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ لَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قُلْتُ: يَا نَبِىَّ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- جَعَلَنِى اللَّهُ فِدَاءَكَ مَنْ تُكَلِّمُ فِى جَانِبِ الْحَرَّةِ؟ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَرْجِعُ إِلَيْكَ شَيْئًا قَالَ: «ذَلِكَ جِبْرِيلُ - عَلَيْهِ السَّلاَمُ - عَرَضَ لِى فِى جَانِبِ الْحَرَّةِ، قَالَ: بَشِّرْ أُمَّتَكَ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، قُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ وَإِنْ سَرَقَ
وَإِنْ زَنَى؟ قَالَ: نَعَمْ.
قَالَ:.

قُلْتُ وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى؟ قَالَ: نَعَمْ.
قُلْتُ: وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى؟ قَالَ: نَعَمْ.
وَإِنْ شَرِبَ الْخَمْرَ».
قَالَ النَّضْرُ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، وَحَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِى ثَابِتٍ، وَالأَعْمَشُ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رُفَيْعٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ بِهَذَا.
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: حَدِيثُ أَبِى صَالِحٍ، عَنْ أَبِى الدَّرْدَاءِ مُرْسَلٌ لاَ يَصِحُّ إِنَّمَا أَرَدْنَا لِلْمَعْرِفَةِ وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ أَبِى ذَرٍّ قِيلَ لأَبِى عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثُ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِى الدَّرْدَاءِ قَالَ: مُرْسَلٌ أَيْضًا لاَ يَصِحُّ، وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ أَبِى ذَرٍّ.

     وَقَالَ : اضْرِبُوا عَلَى حَدِيثِ أَبِى الدَّرْدَاءِ هَذَا إِذَا مَاتَ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ عِنْدَ الْمَوْتِ.

وبه قال: ( حدّثنا قتيبة بن سعيد) أبو رجاء البلخي وسقط ابن سعيد لأبي ذر قال: ( حدّثنا جرير) هو ابن عبد الحميد ( عن عبد العزيز بن رفيع) بضم الراء وفتح الفاء بعدها تحتية ساكنة فعين مهملة الأسدي المكي ثم الكوفي من صغار التابعين ( عن زيد بن وهب) أبي سليمان الهمداني ( عن أبي ذر) جندب بن جنادة الغفاري ( -رضي الله عنه-) أنه ( قال: خرجت ليلة من الليالي فإذا رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يمشي وحده وليس) سقط لأبي ذر الواو من وليس ( معه إنسان) هو توكيد لقوله وحده ( قال: فظننت أنه يكره أن يمشي معه أحد قال) أبو ذر: ( فجعلت أمشي في ظل القمر) أي في المكان الذي ليس للقمر فيه ضوء ليختفي شخصه وإنما مشى خلفه لاحتمال أن يطرأ له -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- حاجة فيكون قريبًا منه ( فالتفت) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ( فرآني فقال) :
( من هذا) ؟ كأنه رأى شخصه ولم يتميز له ( قلت) ولأبي ذر فقلت: أنا ( أبو ذر جعلني الله فداءك) بكسر الفاء ممدودًا ( قال: يا أبا ذر تعاله) بهاء السكت ولأبي ذر عن الحموي والمستملي تعال بإسقاطها ( قال: فمشيت معه) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ( ساعة فقال: إن المكثرين) من المال ( هم المقلّون) من الأجر ( يوم القيامة إلا من أعطاه الله خيرًا) مالاً ( فنفح) بالفاء المخففة بعدها حاء مهملة ( فيه) أي أعطى ( يمينه وشماله وبين يديه ووراءه وعمل فيه) في المال ( خيرًا قال) : أبو ذر ( فمشيت معه) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ( ساعة فقال لي: اجلس هاهنا قال) أبو ذر: ( فأجلسني) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ( في قاع) أرض سهلة مطمئنة انفرجت عنها الجبال ( حوله حجارة فقال لي: اجلس هاهنا حتى أرجع إليك قال) أبو ذر: ( فانطلق) عليه الصلاة والسلام ( في الحرّة) بالحاء المهملة المفتوحة والراء المشددة أرض ذات حجارة سود ( حتى لا أراه) بفتح الهمزة ( فلبث) بكسر الموحدة ( عني فأطال الليث) بفتح اللام وضمها ( ثم إني سمعته) عليه الصلاة والسلام ( وهو مقبل) بكسر الموحدة والواو للحال كهي في قوله: ( وهو يقول: وإن سرق وإن زنى قال) أبو ذر: ( فلما جاء) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ( لم أصبر حتى قلت يا نبي الله جعلني الله فداءك) بالهمز ( من تكلم) ؟ بضم الفوقية وكسر اللام أنت أو بفتحهما وكذا الميم، أي من تكلم معك ( في جانب الحرة ما سمعت أحدًا يرجع) ولأبي ذر عن الكشميهني يردّ ( إليك شيئًا؟ قال) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: ( ذلك) باللام ولأبي ذر ذاك بإسقاطها أي الذي سمعته ( جبريل عليه السلام عرض) أي ظهر ( لي: في جانب الحرّة قال) لي ( بشّر أمتك أنه من مات) منهم ( لا يشرك بالله) عز وجل ( شيئًا دخل الجنة) جواب الشرط ( قلت) : ولأبي ذر فقلت: ( يا جبريل وإن سرق وإن زنى) ؟ دخل الجنة ( قال)
جبريل ( نعم) أي كان مصيره إلى الجنة وإن ناله عقوبة ( قال) عليه الصلاة والسلام: ( قلت) يا جبريل وسقط لأبي ذر قال قلت ( وإن سرق وإن زنى؟ قال) جبريل ( نعم قلت) يا جبريل ( وإن سرق أو زنى؟ قال: نعم) كذا لأبي ذر بتكرير وإن سرق وإن زنى مرتين وللمستملي ثلاثًا، وزاد بعد الثالثة وإن شرب الخمر.

والحديث سبق بزيادة ونقصان في الاستقراض والاستئذان، وأخرجه مسلم في الزكاة والترمذي في الإيمان والنسائي في اليوم والليلة.

( قال النضر) بن شميل ( أخبرنا شعبة) بن الحجاج قال: ( وحدّثنا) وسقطت لأبي ذر الواو ( حبيب بن أبي ثابت والأعمش) سليمان ( وعبد العزيز بن رفيع) قالوا: ( حدّثنا زيد بن وهب بهذا) الحديث فصرح الثلاثة بالتحديث عن زيد بن وهب فأمن تدليس الأولين على أنه لو روي من رواية شعبة بغير تصريح لأمن فيه من التدليس لأنه كان لا يحدث عن شيوخه إلا بما لا تدليس فيه، ولأبي ذر عن زيد بن وهب وقوله بهذا أي الحديث المذكور، واعترضه الإسماعيلي بأنه ليس في حديث شعبة قصة المكثرين والمقلين، وإنما فيه قصة من مات لا يشرك بالله شيئًا.

وأجيب: بأنه واضح على طريقة أهل الحديث لأن مراده أصل الحديث فإن الحديث المذكور في الأصل مشتمل على ثلاثة أشياء ما يسرني أن لي أُحدًا ذهبًا، وحديث المكثرين والمقلين، ومن مات لا يشرك بالله شيئًا دخل الجنة، فيجوز إطلاق الحديث على كل واحد من الثلاثة إذا أفرد، فقول البخاري بهذا أي بأصل الحديث لا خصوص اللفظ المسوق وتعقبه العيني بأن الإطلاق في موضع التقييد غير جائز، وقوله بهذا أي بأصل الحديث غير سديد لأن الإِشارة بلفظ هذا تكون للحاضر والحاضر هو اللفظ السوق.

( قال أبو عبد الله) البخاري -رحمه الله تعالى-: ( حديث أبي صالح) ذكوان الزيات ( عن أبي الدرداء) عويمر بن مالك ( مرسل لا يصح إنما أردنا) ذكره ( للمعرفة) بحاله ( والصحيح حديث أبي ذر) قال صاحب التلويح: فيه نظر فإن النسائي أخرجه بسند صحيح على شرط مسلم ( قيل لأبي عبد الله) البخاري ( حديث عطاء بن يسار) أي المروي عند النسائي من رواية محمد بن أبي حرملة عن عطاء بن يسار ( عن أبي الدرداء) بلفظ أنه سمع النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وهو يقص على المنبر يقول: { ولمن خاف مقام ربه جنتان} [الرحمن: 46] فقلت: إن زنى وإن سرق يا رسول الله؟ فقال: "وإن زنى وإن سرق" فأعدت فأعاد فقال في الثالثة قال: نعم وإن رغم أنف أبي الدرداء.

( قال) أبو عبد الله البخاري هو ( مرسل أيضًا لا يصح والصحيح حديث أبي ذر) لأنه من المسانيد ( وقال) : أي البخاري ( اضربوا على حديث أبي الدرداء) لأنه من المراسيل.
قال الحافظ ابن حجر: قد وقع التصريح بسماع عطاء بن يسار له من أبي الدرداء في رواية ابن أبي حاتم في تفسيره والطبراني في معجمه والبيهقي في شعبه، قال البيهقي: حديث أبي الدرداء هذا غير حديث أبي ذر وإن كان فيه بعض معناه ( هذا) الحديث المروي عن أبي الدرداء ( إذا مات قال: لا إله إلا
الله عند الموت)
مات الميت من باب المجاز باعتبار ما يؤول فإن الميت لا يموت بل الحي هو الذي يموت، وقد سقط قوله قال أبو عبد الله حديث أبي صالح إلى آخر قوله: إذا مات قال: لا إله إلا الله عند الموت لأبي ذر كأكثر الأصول، وذكره الحافظ ابن حجر عقب الحديث الأول من الباب اللاحق قال: وثبت ذلك في نسخة الصغاني.