هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6376 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الحَدَثَانِ ، وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، ذَكَرَ لِي مِنْ حَدِيثِهِ ذَلِكَ ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ : انْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ ، فَأَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَأُ فَقَالَ : هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَالزُّبَيْرِ ، وَسَعْدٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَأَذِنَ لَهُمْ ، ثُمَّ قَالَ : هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ ، وَعَبَّاسٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ عَبَّاسٌ : يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا ، قَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ ، فَقَالَ الرَّهْطُ : قَدْ قَالَ ذَلِكَ ، فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ ، فَقَالَ : هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ ؟ قَالاَ : قَدْ قَالَ ذَلِكَ . قَالَ عُمَرُ : فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الأَمْرِ ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ ، فَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ : { مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ } - إِلَى قَوْلِهِ - { قَدِيرٌ } فَكَانَتْ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ وَلاَ اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ ، لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا المَالُ ، فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْ هَذَا المَالِ نَفَقَةَ سَنَتِهِ ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ ، فَعَمِلَ بِذَاكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَاتَهُ ، أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ : أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ ، هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ ؟ قَالاَ : نَعَمْ ، فَتَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَبَضَهَا فَعَمِلَ بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ : أَنَا وَلِيُّ وَلِيِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ أَعْمَلُ فِيهَا مَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ ، ثُمَّ جِئْتُمَانِي وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ ، جِئْتَنِي تَسْأَلُنِي نَصِيبَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ . وَأَتَانِي هَذَا يَسْأَلُنِي نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا ، فَقُلْتُ : إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ ، فَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ ؟ فَوَاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ ، لاَ أَقْضِي فِيهَا قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا فَادْفَعَاهَا إِلَيَّ فَأَنَا أَكْفِيكُمَاهَا
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  إلى قوله { قدير } فكانت خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم ، والله ما احتازها دونكم ولا استأثر بها عليكم ، لقد أعطاكموها وبثها فيكم حتى بقي منها هذا المال ، فكان النبي صلى الله عليه وسلم ينفق على أهله من هذا المال نفقة سنته ، ثم يأخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله ، فعمل بذاك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته ، أنشدكم بالله هل تعلمون ذلك ؟ قالوا : نعم ، ثم قال لعلي وعباس : أنشدكما بالله ، هل تعلمان ذلك ؟ قالا : نعم ، فتوفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم فقال أبو بكر : أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقبضها فعمل بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ثم توفى الله أبا بكر فقلت : أنا ولي ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقبضتها سنتين أعمل فيها ما عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر ، ثم جئتماني وكلمتكما واحدة وأمركما جميع ، جئتني تسألني نصيبك من ابن أخيك . وأتاني هذا يسألني نصيب امرأته من أبيها ، فقلت : إن شئتما دفعتها إليكما بذلك ، فتلتمسان مني قضاء غير ذلك ؟ فوالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض ، لا أقضي فيها قضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة ، فإن عجزتما فادفعاها إلي فأنا أكفيكماها
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated Malik bin Aus:

'I went and entered upon `Umar, his doorman, Yarfa came saying `Uthman, `Abdur-Rahman, Az- Zubair and Sa`d are asking your permission (to see you). May I admit them? `Umar said, 'Yes.' So he admitted them Then he came again and said, 'May I admit `Ali and `Abbas?' He said, 'Yes.' `Abbas said, 'O, chief of the believers! Judge between me and this man (Ali ). `Umar said, 'I beseech you by Allah by Whose permission both the heaven and the earth exist, do you know that Allah's Messenger (ﷺ) said, 'Our (the Apostles') property will not be inherited, and whatever we leave (after our death) is to be spent in charity?' And by that Allah's Messenger (ﷺ) meant himself.' The group said, '(No doubt), he said so.' `Umar then faced `Ali and `Abbas and said, 'Do you both know that Allah's Messenger (ﷺ) said that?' They replied, '(No doubt), he said so.' `Umar said, 'So let me talk to you about this matter. Allah favored His Apostle with something of this Fai' (i.e. booty won by the Muslims at war without fighting) which He did not give to anybody else; Allah said:-- 'And what Allah gave to His Apostle ( Fai' Booty) .........to do all things....(59.6) And so that property was only for Allah's Messenger (ﷺ) . Yet, by Allah, he neither gathered that property for himself nor withheld it from you, but he gave its income to you, and distributed it among you till there remained the present property out of which the Prophet (ﷺ) used to spend the yearly maintenance for his family, and whatever used to remain, he used to spend it where Allah's property is spent (i.e. in charity etc.). Allah's Messenger (ﷺ) followed that throughout his life. Now I beseech you by Allah, do you know all that?' They said, 'Yes.' `Umar then said to `Ali and `Abbas, 'I beseech you by Allah, do you know that?' Both of them said, 'Yes.' `Umar added, 'And when the Prophet (ﷺ) died, Abu Bakr said, ' I am the successor of Allah's Messenger (ﷺ), and took charge of that property and managed it in the same way as Allah's Messenger (ﷺ) did. Then I took charge of this property for two years during which I managed it as Allah's Messenger (ﷺ) and Abu Bakr did. Then you both (`Ali and `Abbas) came to talk to me, bearing the same claim and presenting the same case. (O `Abbas!) You came to me asking for your share from the property of your nephew, and this man (Ali) came to me, asking for the share of h is wife from the property of her father. I said, 'If you both wish, I will give that to you on that condition (i.e. that you would follow the way of the Prophet (ﷺ) and Abu Bakr and as I (`Umar) have done in man aging it).' Now both of you seek of me a verdict other than that? Lo! By Allah, by Whose permission both the heaven and the earth exist, I will not give any verdict other than that till the Hour is established. If you are unable to manage it, then return it to me, and I will be sufficient to manage it on your behalf.'

":"ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی کہمحمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے مالک بن اوس کی اس حدیث کا ایک حصہ ذکر کیا تھا ۔ پھر میں خود مالک بن اوس کے پاس گیا اور ان سے یہ حدیث پوچھی تو انہوں نے بیان کیا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا پھر ان کے حاجب یرفاء نے جا کر ان سے کہا کہ عثمان ، عبدالرحمٰن بن زبیر اور سعد آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ اچھا آنے دو ۔ چنانچہ انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی ۔ پھر کہا ، کیا آپ علی و عباس رضی اللہ عنہما کو بھی آنے کی اجازت دیں گے ؟ کہا کہ ہاں آنے دو ۔ چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیرالمؤمنین میرے اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان فیصلہ کردیجے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب راہ اللہ صدقہ ہے ؟ اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی خود اپنی ہی ذات تھی ۔ جملہ حاضرین بولے کہ ہاں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا ۔ پھر حضرت عمر ، حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا ، کیا تمہیں معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ؟ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر میں اب آپ لوگوں سے اس معاملہ میں گفتگو کروں گا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس فے کے معاملہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ حصے مخصوص کردےئے جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملتا تھا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ” ما افاء اﷲ علی رسولہ “ ارشاد قدیر ، تک ۔ یہ تو خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ تھا ۔ اللہ کی قسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تمہارے لئے ہی مخصوص کیا تھا اور تمہارے سوا کسی کو اس پر ترجیح نہیں دی تھی ، تمہیں کو اس میں سے دیتے تھے اور تقسیم کرتے تھے ۔ آخر اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے گھر والوں کے لئے سال بھر کا خرچہ لیتے تھے ، اس کے بعد جو کچھ باقی بچتا اسے ان مصارف میں خرچ کرتے جو اللہ کے مقرر کردہ ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل آپ کی زندگی بھر رہا ۔ میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں ، کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں ۔ پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا ، میں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ لوگوں کو یہ معلوم ہے ؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوں چنانچہ انہوں نے اس پر قبضہ میں رکھ کر اس طرز عمل کو جاری رکھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی وفات دی تو میں نے کہا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کا نائب ہوں ۔ میں بھی دو سال سے اس پر قابض ہوں اور اس مال میں وہی کرتا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہو ۔ آپ دونوں کی بات ایک ہے اور معاملہ بھی ایک ہی ہے ۔ آپ ( عباس رضی اللہ عنہ ) میرے پاس اپنے بھتیجے کی میراث سے اپنا حصہ لینے آئے ہو اور آپ ( علی رضی اللہ عنہ ) اپنی بیوی کا حصہ لینے آئے ہو جو ان کے والد کی طرف سے انہیں ملتا ۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ دونوں چاہتے ہیں تو میں اسے آپ کو دے سکتا ہوں لیکن آپ لوگ اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں تو اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں ، میں اس مال میں اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا ، قیامت تک ، اگر آپ اس کے مطابق عمل نہیں کر سکتے تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیجئیے میں اس کا بھی بندوبست کر لوں گا ۔

شرح الحديث من إرشاد الساري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،   
[ قــ :6376 ... غــ : 6728 ]
- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِى مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ذَكَرَ لِى مِنْ حَدِيثِهِ ذَلِكَ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: انْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ، فَأَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَأُ فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِى عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ ثُمَّ قَالَ: هَلْ لَكَ فِى عَلِىٍّ وَعَبَّاسٍ؟ قَالَ: نَعَمْ.
قَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِى وَبَيْنَ هَذَا؟ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِى بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: «لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ» يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- نَفْسَهُ فَقَالَ الرَّهْطُ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِىٍّ وَعَبَّاسٍ فَقَالَ: هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ ذَلِكَ؟ قَالاَ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، قَالَ عُمَرُ: فَإِنِّى أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِى هَذَا الْفَىْءِ بِشَىْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ فَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ: { مَا
أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ}
-إِلَى قَوْلِهِ- { قَدِيرٌ} [الحشر: 6] فَكَانَتْ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ وَلاَ اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ، لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهُ وَبَثَّهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِىَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ فَكَانَ النَّبِىُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْ هَذَا الْمَالِ نَفَقَةَ سَنَتِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِىَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- حَيَاتَهُ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ لِعَلِىٍّ وَعَبَّاسٍ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالاَ: نَعَمْ.
فَتَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِىُّ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَقَبَضَهَا، فَعَمِلَ بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ: أَنَا وَلِىُّ وَلِىِّ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ أَعْمَلُ فِيهَا مَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَأَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ جِئْتُمَانِى وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ جِئْتَنِى تَسْأَلُنِى نَصِيبَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ وَأَتَانِى هَذَا يَسْأَلُنِى نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ فَتَلْتَمِسَانِ مِنِّى قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ، فَوَاللَّهِ الَّذِى بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ لاَ أَقْضِى فِيهَا قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا فَادْفَعَاهَا إِلَىَّ فَأَنَا أَكْفِيكُمَاهَا.

وبه قال: ( حدّثنا يحيى بن بكير) بضم الموحدة مصغرًا ونسبه لجده واسم أبيه عبد الله قال: ( حدّثنا الليث) بن سعد الإمام ( عن عقيل) بضم العين وفتح القاف ابن خالد الأيلي ( عن ابن شهاب) محمد بن مسلم الزهري أنه ( قال: أخبرني) بالإفراد ( مالك بن يوسف بن الحدثان) بفتح الحاء والدال المهملتين والمثلثة قال ابن شهاب ( وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ذكرًا من حديثه) أي من حديث مالك بن أوس ( ذلك) الآتي ذكره ( فانطلقت حتى دخلت عليه) أي على مالك بن أوس حتى أسمع منه بلا واسطة ( فسألته) عن ذلك الحديث ( فقال: انطلقت حتى ادخل على عمر) بن الخطاب -رضي الله عنه- ( فأتاه حاجبه يرفى) بفتح الياء التحتية وسكون الراء وفتح الفاء بعدها تحتية خطأ، ولأبي ذر بالألف بدل التحتية بغير همز في الفرع كأصله.
وقال العيني كالكرماني بالهمز وغيره، وقال الحافظ ابن حجر: وبالهمز روايتنا من طريق أبي ذر ( فقال) له: ( هل لك) رغبة ( في) دخول ( عثمان) بن عفان عليك ( وعبد الرَّحمن) بن عوف ( والزبير) بن العوّام ( وسعد) بسكون العين ابن أبي وقاص وزاد النسائي على الأربعة طلحة بن عبيد الله ( قال: نعم فأذن لهم) فدخلوا فسلموا وجلسوا ( ثم قال) : يرفى لعمر -رضي الله عنه- ( هل لك) رغبة ( في علي) أي ابن أبي طالب ( وعباس) ؟ أي ابن عبد المطلب ( قال: نعم) فأذن لهما فدخلا فسلما فجلسا ( قال عباس) لعمر: ( يا أمير المؤمنين اقض بيني وبين هذا) أي عليّ زاد في الخمس وهما يختصمان فيما أفاء الله على رسوله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- من بني النضير فقال الرهط عثمان وأصحابه يا أمير المؤمنين اقض بينهما وأرح أحدهما من الآخر ( قال) عمر: ( أنشدكم) بفتح الهمزة وضم الشين المعجمة أي أسألكم ( بالله الذي بإذنه تقوم السماء) فوق رؤوسكم بلا محمد ( والأرض) على الماء تحت أقدامكم ( هل تعلمون أن رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قال) :
( لا نورث ما تركنا صدقة) بالرفع خبر الموصول ( يريد رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- نفسه) الزكية وكذا غيره لقوله في الحديث الآخر "إنّا معاشر الأنبياء لا نورث" فليس ذلك من الخصائص، وقيل إن قول عمر يريد نفسه أشار به إلى أن النون في قوله: لا نورث للمتكلم خاصة لا للجميع، وحكى ابن عبد البر أن للعلماء في ذلك قولين وأن أكثر على أن الأنبياء لا يورثون.
وأخرج الطبري من طريق إسماعيل بن أبي خالد عن أبي صالح في قوله تعالى حكاية عن زكريا { وإني خفت الموالي} [مريم: 5] قال: العصبة.
وفي قوله { فهب لي من لدنك وليًّا يرثني} [مريم: 6] قال يرث مالي ويرث من آل يعقوب النبوّة.
ومن طريق قتادة عن الحسن نحوه لكن لم يذكر المال، ومن طريق مبارك بن فضالة عن الحسن رفعه مرسلاً رحم الله أخي زكريا ما كان عليه من يرث ماله فيكون ذلك مما خصه الله به، ويؤيده قول عمر يريد نفسه أي يريد اختصاصه بذلك.

( فقال الرهط) عثمان وأصحابه ( قد قال) عليه الصلاة والسلام ( ذلك فأقبل) عمر -رضي الله عنه- ( على عليّ وعباس) -رضي الله عنهما- ( فقال: هل تعلمان أن رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ذلك) .
أي لا نورث ما تركنا صدقة.
( قالا: قد قال) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ( ذلك.
قال عمر: فإني أحدثكم عن هذا الأمر أن الله)
تعالى ( قد كان خص رسوله) ولأبي ذر قد خص لرسوله ( -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- في هذا الفيء) أي الغنيمة ( بشيء لم يعطه أحدًا غيره) حيث خصصه كله به أو حيث حلل له الغنيمة ولم تحل لغيره من الأنبياء ( فقال عز وجل { ما أفاء الله على رسوله} ) إلى قوله ( { قدير} ) [الحشر: 6] ( فكانت) بنو النضير وخيبر وفدك ( خالصة) ولأبي ذر عن الحموي خاصة ( لرسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) لا حق لأحد فيها غيره ( والله) ولأبي ذر ووالله ( ما احتازها) بحاء مهملة وزاي مفتوحة من الحيازة ما جمعها ( دونكم ولا استأثر) ما تفرد ( بها عليكم لقد أعطاكموه) أي الفيء ولأبي ذر عن الكشميهني أعطاكموها أي أموال الفيء ( وبثها) بالموحدة والمثلثة المفتوحتين فرقها ( فيكم حتى بقي منها هذا المال) الذي تطلبان حصتكما منه ( فكان النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ينفق على أهله من هذا المال نفقة سنته ثم يأخذ ما بقي فيجعله مجعل) بفتح الميم والعين بينهما جيم ساكنة أي يصرفه مصرف ( مال الله) أي مما هو في جهة مصالح المسلمين ( فعمل بذاك) بغير لام ولأبي ذر فعمل بذلك ( رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- حياته أنشدكم بالله) بحرف الجر ( هل تعلمون ذلك؟ قالوا) أي عثمان وأصحابه: ( نعم) نعلمه.

( ثم قال) عمر: ( لعليّ وعباس) -رضي الله عنهم- ( أنشدكما بالله هل تعلمان ذلك؟ قالا: نعم) قال عمر: ( فتوفى الله) عز وجل ( نبيه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، فقال أبو بكر) -رضي الله عنه-: ( أنا وليّ رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فقبضها) أي الخالصة ( فعمل) فيها ( بما عمل به رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) فيها ( ثم توفى الله) عز وجل ( أبا بكر فقلت: أنا وليّ وليّ رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) وسقط لأبي ذر وليّ الثانية ( فقبضتها سنتين أعمل فيها ما) بغير موحدة ( عمل) فيها ( رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وأبو بكر) -رضي الله عنه- ( ثم جئتماني وكلمتكما واحدة) متفقان لا نزاع بينكما ( وأمركما جميع.
جئتني)
يا عباس ( تسألني نصيبك من ابن أخيك) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ( وأتاني هذا) عليّ ( يسألني نصيب امرأته) فاطمة -رضي الله عنها- ( من أبيها) صلوات الله وسلامه
عليه ( فقلت) لكما ( إن شئتما دفعتهما إليكما بذلك) أي بأن تعملا فيها كما عمل رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وأبو بكر ( فتلتسمان) بحذف أداة الاستفهام أي أفتطلبان ( مني قضاء غير ذلك، فوالله الذي) ولأبي ذر عن الكشميهني فوالذي ( بإذنه تقوم السماء والأرض لا أقضي فيها قضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة فإن عجزتما) عنها ( فادفعاها إليّ) بتشديد الياء ( فأنا كفيكماها) بفتح الهمزة.

فإن قلت: إذا كان عليّ وعباس أخذاها على الشرط المذكور فيكف يطلبان بعد ذلك من عمر؟ أجيب: بأنهما اعتقدا أن عموم قوله لا نورث مخصوص ببعض ما يخلفه، وأما مخاصمتها فلم تكن في الميراث بل طلبا أن تقسم بينهما ليستقل كل منهما بالتصرف فيما يصير إليه فمنعهما عمر لأن القسمة إنما تقع في الاملاك، وربما تطاول الزمان فيظن أنه ملكهما قاله الكرماني، وسبق مزيد لذلك في فرض الخمس.