هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6806 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَبُو ثَابِتٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : بَعَثَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ لِمَقْتَلِ أَهْلِ اليَمَامَةِ وَعِنْدَهُ عُمَرُ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ : إِنَّ القَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ اليَمَامَةِ بِقُرَّاءِ القُرْآنِ ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ القَتْلُ بِقُرَّاءِ القُرْآنِ فِي المَوَاطِنِ كُلِّهَا ، فَيَذْهَبَ قُرْآنٌ كَثِيرٌ ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ القُرْآنِ ، قُلْتُ : كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ ، فَقَالَ عُمَرُ : هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ ، فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِكَ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ عُمَرَ ، وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ ، قَالَ زَيْدٌ : قَالَ أَبُو بَكْرٍ : وَإِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ ، لاَ نَتَّهِمُكَ قَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَتَتَبَّعِ القُرْآنَ ، فَاجْمَعْهُ ، قَالَ زَيْدٌ : فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفَنِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الجِبَالِ مَا كَانَ بِأَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا كَلَّفَنِي مِنْ جَمْعِ القُرْآنِ ، قُلْتُ : كَيْفَ تَفْعَلاَنِ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ : هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ ، فَلَمْ يَزَلْ يَحُثُّ مُرَاجَعَتِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ اللَّهُ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ، وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَيَا ، فَتَتَبَّعْتُ القُرْآنَ ، أَجْمَعُهُ مِنَ العُسُبِ وَالرِّقَاعِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ ، فَوَجَدْتُ فِي آخِرِ سُورَةِ التَّوْبَةِ : { لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ } . إِلَى آخِرِهَا مَعَ خُزَيْمَةَ ، أَوْ أَبِي خُزَيْمَةَ ، فَأَلْحَقْتُهَا فِي سُورَتِهَا ، وَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَيَاتَهُ ، حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ ، حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ : اللِّخَافُ : يَعْنِي الخَزَفَ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
6806 حدثنا محمد بن عبيد الله أبو ثابت ، حدثنا إبراهيم بن سعد ، عن ابن شهاب ، عن عبيد بن السباق ، عن زيد بن ثابت ، قال : بعث إلي أبو بكر لمقتل أهل اليمامة وعنده عمر ، فقال أبو بكر : إن عمر أتاني فقال : إن القتل قد استحر يوم اليمامة بقراء القرآن ، وإني أخشى أن يستحر القتل بقراء القرآن في المواطن كلها ، فيذهب قرآن كثير ، وإني أرى أن تأمر بجمع القرآن ، قلت : كيف أفعل شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ ، فقال عمر : هو والله خير ، فلم يزل عمر يراجعني في ذلك حتى شرح الله صدري للذي شرح له صدر عمر ، ورأيت في ذلك الذي رأى عمر ، قال زيد : قال أبو بكر : وإنك رجل شاب عاقل ، لا نتهمك قد كنت تكتب الوحي لرسول الله صلى الله عليه وسلم ، فتتبع القرآن ، فاجمعه ، قال زيد : فوالله لو كلفني نقل جبل من الجبال ما كان بأثقل علي مما كلفني من جمع القرآن ، قلت : كيف تفعلان شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال أبو بكر : هو والله خير ، فلم يزل يحث مراجعتي حتى شرح الله صدري للذي شرح الله له صدر أبي بكر وعمر ، ورأيت في ذلك الذي رأيا ، فتتبعت القرآن ، أجمعه من العسب والرقاع واللخاف وصدور الرجال ، فوجدت في آخر سورة التوبة : { لقد جاءكم رسول من أنفسكم } . إلى آخرها مع خزيمة ، أو أبي خزيمة ، فألحقتها في سورتها ، وكانت الصحف عند أبي بكر حياته ، حتى توفاه الله عز وجل ، ثم عند عمر حياته ، حتى توفاه الله ، ثم عند حفصة بنت عمر ، قال محمد بن عبيد الله : اللخاف : يعني الخزف
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated Zaid bin Thabit:

Abu Bakr sent for me owing to the large number of casualties in the battle of Al-Yamama, while `Umar was sitting with him. Abu Bakr said (to me), `Umar has come to my and said, 'A great number of Qaris of the Holy Qur'an were killed on the day of the battle of Al-Yamama, and I am afraid that the casualties among the Qaris of the Qur'an may increase on other battle-fields whereby a large part of the Qur'an may be lost. Therefore I consider it advisable that you (Abu Bakr) should have the Qur'an collected.' I said, 'How dare I do something which Allah's Messenger (ﷺ) did not do?' `Umar said, By Allah, it is something beneficial.' `Umar kept on pressing me for that till Allah opened my chest for that for which He had opened the chest of `Umar and I had in that matter, the same opinion as `Umar had. Abu Bakr then said to me (Zaid), You are a wise young man and we do not have any suspicion about you, and you used to write the Divine Inspiration for Allah's Messenger (ﷺ). So you should search for the fragmentary scripts of the Qur'an and collect it (in one Book). Zaid further said: By Allah, if Abu Bakr had ordered me to shift a mountain among the mountains from one place to another it would not have been heavier for me than this ordering me to collect the Qur'an. Then I said (to `Umar and Abu Bakr), How can you do something which Allah's Messenger (ﷺ) did not do? Abu Bakr said, By Allah, it is something beneficial. Zaid added: So he (Abu Bakr) kept on pressing me for that until Allah opened my chest for that for which He had opened the chests of Abu Bakr and `Umar, and I had in that matter, the same opinion as theirs. So I started compiling the Qur'an by collecting it from the leafless stalks of the date-palm tree and from the pieces of leather and hides and from the stones, and from the chests of men (who had memorized the Qur'an). I found the last verses of Sirat-at-Tauba: (Verily there has come unto you an Apostle (Muhammad) from amongst yourselves--' (9.128-129) ) from Khuza`ima or Abi Khuza`ima and I added to it the rest of the Sura. The manuscripts of the Qur'an remained with Abu Bakr till Allah took him unto Him. Then it remained with `Umar till Allah took him unto Him, and then with Hafsa bint `Umar.

":"ہم سے محمد بن عبداللہ ابو ثابت نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے عبید بن سابق نے اور ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہجنگ یمامہ میں بکثرت ( قاری صحابہ کی ) شہادت کی وجہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا ۔ ان کے پاس عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ عمر میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے قاریوں کا قتل بہت ہوا ہے اور میرا خیال ہے کہ دوسری جنگوں میں بھی اسی طرح وہ شہید کئے جائیں گے اور قرآن اکثر ضائع ہو جائے گا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ قرآن مجید کو ( کتابی صورت میں ) جمع کرنے کا حکم دیں ۔ اس پر میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں کوئی ایسا کام کیسے کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا واللہ ! یہ تو کار خیر ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ اس معاملہ میں برابر مجھ سے کہتے رہے ‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح اس معاملے میں میرا بھی سینہ کھول دیا جس طرح عمر رضی اللہ عنہ کا تھا اور میں بھی وہی مناسب سمجھنے لگا جسے عمر رضی اللہ عنہ مناسب سمجھتے تھے ۔ زید رضی اللہ عنہ نے بیان یا کہ مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم جوان ہو ‘ عقلمند ہو اور ہم تمہیں کسی بارے میں متہم بھی نہیں سمجھتے تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی بھی لکھتے تھے ‘ پس تم اس قرآن مجید ( کی آیات ) کو تلاش کرو اور ایک جگہ جمع کر دو ۔ زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ واللہ ! اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھے کسی پہاڑ کو اٹھا کر دوسری جگہ رکھنے کا مکلف کرتے تو اس کا بوجھ بھی میں اتنانہ محسوس کرتا جتنا کہ مجھے قرآن مجید کو جمع کرنے کے حکم سے محسوس ہوا ۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ آپ کس طرح ایسا کام کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ۔ ابوبکرنے کہا کہ واللہ ! یہ خیر ہے ۔ چنانچہ مجھے آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا جس کے لئے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا اور میں بھی وہی مناسب خیال کرنے لگا جسے وہ لوگ مناسب خیال کر رہے تھے ۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید کی تلاش شروع کی ۔ اسے میں کھجور کی چھال ‘ چمڑے وغیرہ کے ٹکڑوں ‘ پتلے پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا ۔ میں نے سورۃ التوبہ کی آخری آیت لقد جاء کم رسول من ا نفسکم آخر تک خزیمہ یا ابو خزیمہ رضی اللہ عنہ کے پاس پائی اور اس کو سورت میں شامل کر لیا ۔ ( قرآن مجید کے یہ مرتب ) صحیفے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہے جب تک وہ زندہ ہے ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دی ‘ پھر وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے اور آخر وقت تک ان کے پاس رہے ۔ جب آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے وفات دی تو وہ حفصہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہے ۔ محمد بن عبیداللہ نے کہا کہ ” اللخاف “ کے لفظ سے ٹھیکری مراد ہے جسے خزف کہتے ہیں ۔

شرح الحديث من إرشاد الساري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    باب يُسْتَحَبُّ لِلْكَاتِبِ أَنْ يَكُونَ أَمِينًا عَاقِلاً
( باب) بالتنوين ( يستحب للكاتب) للحكم ( أن يكون أمينًا) في كتابته بعيدًا من الطمع مقتصرًا على أجرة المثل ( عاقلاً) غير مغفل لئلا يخدع.


[ قــ :6806 ... غــ : 7191 ]
- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَبُو ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: بَعَثَ إِلَىَّ أَبُو بَكْرٍ لِمَقْتَلِ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، وَعِنْدَهُ عُمَرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِى فَقَالَ: إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ، وَإِنِّى أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ فِى الْمَوَاطِنِ كُلِّهَا، فَيَذْهَبَ قُرْآنٌ كَثِيرٌ، وَإِنِّى أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ: كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-؟ فَقَالَ عُمَرُ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِى فِى ذَلِكَ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِى لِلَّذِى شَرَحَ لَهُ صَدْرَ عُمَرَ، وَرَأَيْتُ فِى ذَلِكَ الَّذِى رَأَى عُمَرُ قَالَ زَيْدٌ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَإِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لاَ نَتَّهِمُكَ قَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْىَ لِرَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ قَالَ زَيْدٌ: فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفَنِى نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ بِأَثْقَلَ عَلَىَّ مِمَّا كَلَّفَنِى مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ، قُلْتُ: كَيْفَ تَفْعَلاَنِ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ يَحُثُّ مُرَاجَعَتِى حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِى لِلَّذِى شَرَحَ اللَّهُ لَهُ صَدْرَ أَبِى بَكْرٍ وَعُمَرَ، وَرَأَيْتُ فِى ذَلِكَ الَّذِى رَأَيَا فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الْعُسُبِ وَالرِّقَاعِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ، فَوَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ { لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ} [التوبة: 128] إِلَى آخِرِهَا مَعَ خُزَيْمَةَ أَوْ أَبِى خُزَيْمَةَ فَأَلْحَقْتُهَا فِى سُورَتِهَا وَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِى بَكْرٍ حَيَاتَهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ.
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ اللِّخَافُ: يَعْنِى الْخَزَفَ.

وبه قال: ( حدّثنا محمد بن عبيد الله) بضم العين ابن محمد بن زيد ( أبو ثابت) مولى عثمان بن عفان القرشي المدني الفقيه قال: ( حدّثنا إبراهيم بن سعد) بسكون العين ابن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف ( عن ابن شهاب) محمد بن مسلم الزهري ( عن عبيد بن السباق) بضم العين في الأوّل وفتح المهملة والموحدة المشددة وبعد الألف قاف الثقفي ( عن زيد بن ثابت) الأنصاري الخزرجي كاتب الوحي رضي الله تعالى عنه أنه ( قال: بعث إلي) بتشديد الياء ( أبو بكر) الصديق -رضي الله عنه- ( لمقتل) ولأبي ذر عن الحموي مقتل بإسقاط اللام والنصب ( أهل اليمامة) من اليمن وبها قتل مسيلمة ومن القراء سبعون أو سبعمائة ( وعنده عمر) بن الخطاب -رضي الله عنه- ( فقال) لي ( أبو بكر: إن عمر أتاني فقال: إن القتل قد استحرّ) بالسين المهملة الساكنة بعدها فوقية فحاء مهملة فراء مشددة اشتدّ وكثر ( يوم اليمامة بقرّاء القرآن) وسقط للكشميهني قد من قوله قد استحر ( وإني أخشى أن يستحر) يشتد ( القتل بقرّاء القرآن في المواطن كلها فيذهب قرآن كثير وإني أرى أن
تأمر بجمع القرآن)
قال أبو بكر لزيد ( قلت) لعمر ( كيف أفعل شيئًا لم يفعله رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فقال) لي ( عمر: هو) أي جمعه ( والله خير) .
واستشكل التعبير بخير الذي هو أفعل التفضيل لأنه يلزم من فعلهم هذا أن يكون خيرًا من تركه في الزمن النبوي وأجيب: بأنه خير بالنسبة لزمانهم والترك كان خيرًا في الزمن النبوي لعدم تمام النزول واحتمال النسخ إذ لو جمع بين الدفتين وسارت به الركبان إلى البلدان ثم نسخ لأدّى ذلك إلى اختلاف عظيم قال أبو بكر: ( فلم يزل عمر يراجعني في ذلك حتى شرح الله صدري للذي شرح له صدر عمر ورأيت في ذلك الي رأى عمر قال زيد قال) لي ( أبو بكر) -رضي الله عنه-: ( وإنك) يا زيد وللكشميهني إنك ( رجل) بإسقاط الواو وأشار بقوله ( شاب) إلى حدّه ونظره وقوّة ضبطهِ ( عاقل لا نتهمك قد كنت تكتب الوحي لرسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) ذكر له أربع صفات مقتضية لخصوصيته بذلك.
كونه شابًّا فيكون أنشط لذلك، وكونه عاقلاً فيكون أوعى له، وكونه لا يتهم فتركن النفس إليه، وكونه كان كاتب الوحي فيكون أكثر ممارسة له.
وقول ابن بطال عن المهلب إنه يدل على أن العقل أجلّ الخصال المحمودة لأنه لم يوصف زيد بأكثر من العقل وجعله سببًا لائتمانه ورفع التهمة عنه، تعقبه في الفتح بأن أبا بكر ذكر عقب الوصف المذكور قد كنت تكتب الوحي، فمن ثم اكتفى بوصفه بالعقل لأنه لو لم تثبت أمانته وكفايته وعقله لما استكتبه النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- الوحي، وإنما وصفه بالعقل وعدم الاتهام دون ما عداهما إشارة إلى استمرار ذلك له وإلاّ فمجرد قوله لا نتهمك مع قوله عاقل لا يكفي في ثبوت الأمانة والكفاية فكم من بارع في العقل والمعرفة وجدت منه الخيانة ( فتتبع القرآن فاجمعه) بالفاء ولأبي ذر واجمعه ( قال زيد: فوالله لو كلفني) أبو بكر ( نقل جبل من الجبال ما كان) نقله ( بأثقل عليّ) بتشديد الياء ( مما كلفني به) أبو بكر ( من جمع القرآن.
قلت)
: أي للعمرين ( كيف تفعلان شيئًا لم يفعله رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-.
قال أبو بكر)
-رضي الله عنه-: ( هو والله خير فلم يزل يحث) بالمثلثة بعد المهملة المضمومة ولأبي ذر يحب ( مراجعتي) بالموحدة بدل المثلثة وضم أوله ( حتى شرح الله صدري للذي شرح الله له صدر أبي بكر وعمر ورأيت في ذلك الذي رأيا فتتبعت القرآن) حال كوني ( أجمعه من العسب) بضم العين والسين المهملتين آخره موحدة جريد النخل العريض المكشوط عنه الخوص المكتوب فيه ( والرقاع) بالراء المكسورة والقاف وبعد الألف عين مهملة جمع رقعة من جلد أو ورق وفي رواية أخرى وقطع الأديم ( واللخاف) باللام المشدّدة المكسورة والمعجمة وبعد الألف فاء الحجارة الرقيقة أو الخزف كما في هذا الباب ( وصدور الرجال) الذين حفظوه وجمعوه في صدورهم فى حياته -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- كاملاً كأُبي بن كعب ومعاذ بن جبل ( فوجدت آخر سورة التوبة { لقد جاءكم رسول من أنفسكم} [التوبة: 128، 129] إلى آخرها مع خزيمة) بن ثابت بن الفاكه بالفاء والكاف المكسورة الأنصاري الأوسي الذي جعل النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- شهادته شهادة رجلين ( أو أبي خزيمة) بن أوس بن يزيد وهو مشهور بكنيته الأنصاري النجاري بالشك.
وعند أحمد والترمذي من رواية عبد الرحمن بن مهدي عن إبراهيم بن سعد مع خزيمة بن ثابت، وفي رواية شعيب في آخر سورة التوبة مع خزيمة الأنصاري، وفي مسند الشاميين من طريق أبي اليمان عند الطبراني
خزيمة بن ثابت الأنصاري، لكن قول من قال مع أبي خزيمة أصح، وقد اختلف فيه على الزهري فمن قائل مع أبي خزيمة ومن قائل مع خزيمة ومن شاكّ فيه يقول خزيمة أو أبي خزيمة، والأرجح أن الذي وجد معه آخر سورة التوبة أبو خزيمة بالكنية والذي معه آية الأحزاب خزيمة.
وعند أبي داود في كتاب المصاحف من طريق ابن إسحاق حدّثني يحيى بن عباد عن أبيه عباد بن عبد الله بن الزبير قال: أتى الحارث بن خزمة إلى عمر بهاتين الآيتين { لقد جاءكم رسول من أنفسكم} [التوبة: 128 - 129] إلى آخر السورة فقال: أشهد أني سمعتهما من رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ووعيتهما فقال عمر: وأنا أشهد لقد سمعتهما.
وخزمة قال في الإصابة: بفتح المعجمة والزاي ابن عدي بن أبي غنم بن سالم الخزرجي الأنصاري ( فألحقتها في سورتها.
وكانت الصحف)
التي كتبوا فيها القرآن ولأبي ذر عن الكشميهني فكانت بالفاء بدل الواو ( عند أبي بكر) -رضي الله عنه- ( حياته حتى توفاه الله عز وجل، ثم عند عمر حياته حتى توفاه الله ثم عند حفصة بنت عمر) -رضي الله عنهما-.

( قال محمد بن عبيد الله) بضم العين ابن محمد بن زيد مولى عثمان بن عفان شيخ البخاري المذكور أول هذا الباب ( اللخاف) المذكور في الحديث ( يعني) به: ( الخزف) بالخاء والزاي المعجمتين ثم فاء وفي الحديث اتخاذ الحاكم الكاتب وأن يكون الكاتب عاقلاً فطنًا مقبول الشهادة، ومراجعة الكاتب للحاكم في الرأي ومشاركته له فيه.

والحديث سبق في براءة وغيرها.