هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
3016 حَدَّثَنَا الفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا المُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ المُزَنِيُّ ، وَزِيَادُ بْنُ جُبَيْرٍ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ ، قَالَ : بَعَثَ عُمَرُ النَّاسَ فِي أَفْنَاءِ الأَمْصَارِ ، يُقَاتِلُونَ المُشْرِكِينَ ، فَأَسْلَمَ الهُرْمُزَانُ ، فَقَالَ : إِنِّي مُسْتَشِيرُكَ فِي مَغَازِيَّ هَذِهِ ؟ قَالَ : نَعَمْ مَثَلُهَا وَمَثَلُ مَنْ فِيهَا مِنَ النَّاسِ مِنْ عَدُوِّ المُسْلِمِينَ مَثَلُ طَائِرٍ لَهُ رَأْسٌ وَلَهُ جَنَاحَانِ وَلَهُ رِجْلاَنِ ، فَإِنْ كُسِرَ أَحَدُ الجَنَاحَيْنِ نَهَضَتِ الرِّجْلاَنِ بِجَنَاحٍ وَالرَّأْسُ ، فَإِنْ كُسِرَ الجَنَاحُ الآخَرُ نَهَضَتِ الرِّجْلاَنِ وَالرَّأْسُ ، وَإِنْ شُدِخَ الرَّأْسُ ذَهَبَتِ الرِّجْلاَنِ وَالجَنَاحَانِ وَالرَّأْسُ ، فَالرَّأْسُ كِسْرَى ، وَالجَنَاحُ قَيْصَرُ ، وَالجَنَاحُ الآخَرُ فَارِسُ ، فَمُرِ المُسْلِمِينَ ، فَلْيَنْفِرُوا إِلَى كِسْرَى ، - وَقَالَ بَكْرٌ ، وَزِيَادٌ جَمِيعًا عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ - قَالَ : فَنَدَبَنَا عُمَرُ ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْنَا النُّعْمَانَ بْنَ مُقَرِّنٍ ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِأَرْضِ العَدُوِّ ، وَخَرَجَ عَلَيْنَا عَامِلُ كِسْرَى فِي أَرْبَعِينَ أَلْفًا ، فَقَامَ تَرْجُمَانٌ ، فَقَالَ : لِيُكَلِّمْنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ ، فَقَالَ المُغِيرَةُ : سَلْ عَمَّا شِئْتَ ؟ قَالَ : مَا أَنْتُمْ ؟ قَالَ : نَحْنُ أُنَاسٌ مِنَ العَرَبِ ، كُنَّا فِي شَقَاءٍ شَدِيدٍ وَبَلاَءٍ شَدِيدٍ ، نَمَصُّ الجِلْدَ وَالنَّوَى مِنَ الجُوعِ ، وَنَلْبَسُ الوَبَرَ وَالشَّعَرَ ، وَنَعْبُدُ الشَّجَرَ وَالحَجَرَ ، فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الأَرَضِينَ - تَعَالَى ذِكْرُهُ وَجَلَّتْ عَظَمَتُهُ - إِلَيْنَا نَبِيًّا مِنْ أَنْفُسِنَا نَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ ، فَأَمَرَنَا نَبِيُّنَا رَسُولُ رَبِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُقَاتِلَكُمْ حَتَّى تَعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ ، أَوْ تُؤَدُّوا الجِزْيَةَ ، وَأَخْبَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رِسَالَةِ رَبِّنَا ، أَنَّهُ مَنْ قُتِلَ مِنَّا صَارَ إِلَى الجَنَّةِ فِي نَعِيمٍ لَمْ يَرَ مِثْلَهَا قَطُّ ، وَمَنْ بَقِيَ مِنَّا مَلَكَ رِقَابَكُمْ ، فَقَالَ النُّعْمَانُ : رُبَّمَا أَشْهَدَكَ اللَّهُ مِثْلَهَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمْ يُنَدِّمْكَ ، وَلَمْ يُخْزِكَ ، وَلَكِنِّي شَهِدْتُ القِتَالَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ ، انْتَظَرَ حَتَّى تَهُبَّ الأَرْوَاحُ ، وَتَحْضُرَ الصَّلَوَاتُ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  وقال بكر ، وزياد جميعا عن جبير بن حية قال : فندبنا عمر ، واستعمل علينا النعمان بن مقرن ، حتى إذا كنا بأرض العدو ، وخرج علينا عامل كسرى في أربعين ألفا ، فقام ترجمان ، فقال : ليكلمني رجل منكم ، فقال المغيرة : سل عما شئت ؟ قال : ما أنتم ؟ قال : نحن أناس من العرب ، كنا في شقاء شديد وبلاء شديد ، نمص الجلد والنوى من الجوع ، ونلبس الوبر والشعر ، ونعبد الشجر والحجر ، فبينا نحن كذلك إذ بعث رب السموات ورب الأرضين تعالى ذكره وجلت عظمته إلينا نبيا من أنفسنا نعرف أباه وأمه ، فأمرنا نبينا رسول ربنا صلى الله عليه وسلم أن نقاتلكم حتى تعبدوا الله وحده ، أو تؤدوا الجزية ، وأخبرنا نبينا صلى الله عليه وسلم عن رسالة ربنا ، أنه من قتل منا صار إلى الجنة في نعيم لم ير مثلها قط ، ومن بقي منا ملك رقابكم ، فقال النعمان : ربما أشهدك الله مثلها مع النبي صلى الله عليه وسلم ، فلم يندمك ، ولم يخزك ، ولكني شهدت القتال مع رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا لم يقاتل في أول النهار ، انتظر حتى تهب الأرواح ، وتحضر الصلوات
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Selon Bakr ibn 'Abd Allah alMuzany et Ziyâd ibn Jubayr, Jubayr ibn Hayya dit: «'Umar avait envoyé plusieurs expéditions vers les grandes villes pour combattre les Associants... [Et il arriva ensuite] qu'alHurmuzân embrassa l'Islam. Alors 'Umar lui dit: Je veux te consulter au sujet de mes expéditionsci... — Certainement, accepta alHurmuzân. Le cas de ces expéditions et des hommes qui sont aux pays ennemis des Musulmans ressemble à un oiseau ayant une tête, des ailes et des pattes. Si l'une des deux ailes se cassait, resteraient alors les deux pattes pour supporter l'aile [restante] et la tête; si l'autre aile se cassait à son tour, resteraient alors les deux pattes et la tête; mais si c'est la tête qui est broyée, il ne restera ni pattes ni ailes ni tête. Or la tête, c'est Khosroês; quant à Héraclius, il forme l'une des deux ailes; l'autre aile est la Perse. Donne donc l'ordre aux Musulmans d'attaquer Khosroês. «En effet, 'Umar nous appela et désigna à notre tête anNu'mân ibn Muqarrin. Une fois dans les terres de l'ennemi surgit soudainement le gouverneur de Khosroês avec quarante mille hommes. Un interprète parut alors et dit: Qu'un homme parmi vous vienne me parler! — Demande ce que tu veux, lui dit alMughîra. — Qu'êtesvous? — Nous sommes des Arabes. Nous vivions dans un grand malheur et une dure détresse; nous sucions le cuir et les noyaux [de dattes] à cause de la famine; nous nous vêtions de poils et nous adorions les arbres et les pierres... Ainsi était notre situation quand le Seigneur des cieux et des terres, glorifié soit Son nom et magnifiée soit Sa grandeur! nous envoya un prophète faisant partie de nous et dont nous connaissons le père et la mère. Il, notre prophète et messager de notre Seigneur, nous ordonna de vous combattre jusqu'à ce que vous adoriez Allah seul, ou que vous payiez le tribut. De plus, il nous informa du message de notre Seigneur: celui d'entre nous qui tombe [dans la bataille] ira au Paradis [et y sera] dans des délices dont il n'avait jamais vu de pareil; quant à ceux d'entre nous qui restent en vie, ils auront possession de vos nuques.

":"ہم سے فضل بن یعقوب نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن جعفرالرقی نے ، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے ، کہا ہم سے سعید بن عبیداللہ ثقفی نے بیان کیا ، ان سے بکر بن عبداللہ مزنی اور زیاد بن جبیر ہر دو نے بیان کیا اور ان سے جبیر بن حیہ نے بیان کیا کہکفار سے جنگ کے لیے عمر رضی اللہ عنہ نے فوجوں کو ( فارس کے ) بڑے بڑے شہروں کی طرف بھیجا تھا ۔ ( جب لشکر قادسیہ پہنچا اور لڑائی کا نتیجہ مسلمانوں کے حق میں نکلا ) تو ہرمزان ( شوستر کا حاکم ) اسلام لے آیا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا کہ میں تم سے ان ( ممالک فارس وغیرہ ) پر فوج بھیجنے کے سلسلے میں مشورہ چاہتا ہوں ( کہ پہلے ان تین مقاموں فارس ، اصفہان اور آذربائیجان میں کہاں سے لڑائی شروع کی جائے ) اس نے کہا جی ہاں ! اس ملک کی مثال اور اس میں رہنے والے اسلام دشمن باشندوں کی مثال ایک پرندے جیسی ہے جس کا سر ہے ، دو بازو ہیں ۔ اگر اس کا ایک بازو توڑ دیا جائے تو وہ اپنے دونوں پاؤں پر ایک بازو اور ایک سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے ۔ اگر دوسرا بازو بھی توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں اور سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے ۔ لیکن اگر سر توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں دونوں بازو اور سر سب بے کار رہ جاتا ہے ۔ پس سر تو کسریٰ ہے ، ایک بازو قیصر ہے اور دوسرا فارس ! اس لیے آپ مسلمانوں کو حکم دے دیں کہ پہلے وہ کسریٰ پر حملہ کریں ۔ اور بکر بن عبداللہ اور زیاد بن جبیر دونوں نے بیان کیا کہ ان سے جبیر بن حیہ نے بیان کیا کہ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ( جہاد کے لیے ) بلایا اور نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو ہمارا امیر مقرر کیا ۔ جب ہم دشمن کی سرزمین ( نہاوند ) کے قریب پہنچے تو کسریٰ کا ایک افسر چالیس ہزار کا لشکر ساتھ لیے ہوئے ہمارے مقابلہ کے لیے بڑھا ۔ پھر ایک ترجمان نے آ کر کہا کہ تم میں سے کوئی ایک شخص ( معاملات پر ) گفتگو کرے ۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ( مسلمانوں کی نمائندگی کی اور ) فرمایا کہ جو تمہارے مطالبات ہوں ، انہیں بیان کرو ۔ اس نے پوچھا آخر تم لوگ ہو کون ؟ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم عرب کے رہنے والے ہیں ، ہم انتہائی بدبختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا تھے ۔ بھوک کی شدت میں ہم چمڑے ، اور گٹھلیاں چوسا کرتے تھے ۔ اون اور بال ہماری پوشاک تھی ۔ اور پتھروں اور درختوں کی ہم عبادت کیا کرتے تھے ۔ ہماری مصیبتیں اسی طرح قائم تھیں کہ آسمان اور زمین کے رب نے ، جس کا ذکر اپنی تمام عظمت و جلال کے ساتھ بلند ہے ۔ ہماری طرف ہماری ہی طرح ( کے انسانی عادات و خصائص رکھنے والا ) ایک نبی بھیجا ۔ ہم اس کے باپ اور ماں کو جانتے ہیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تم سے اس وقت تک جنگ کرتے رہیں ۔ جب تک تم صرف اللہ اکیلے کی عبادت نہ کرنے لگو ۔ یا پھر اسلام نہ قبول کرنے کی صورت میں جزیہ دینا قبول کر لو اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے رب کا یہ پیغام بھی پہنچایا ہے کہ ( اسلام کے لیے لڑتے ہوئے ) جہاد میں ہمارا جو آدمی بھی قتل کیا جائے گا وہ ایسی جنت میں جائے گا ، جو اس نے کبھی نہیں دیکھی اور جو لوگ ہم میں سے زندہ باقی رہ جائیں گے وہ ( فتح حاصل کر کے ) تم پر حاکم بن سکیں گے ۔ ( مغیرہ رضی اللہ عنہ نے یہ گفتگو تمام کر کے نعمان رضی اللہ عنہ سے کہا لڑائی شروع کرو ) ۔ نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا تم کو تو اللہ پاک ایسی کئی لڑائیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رکھ چکا ہے ۔ اور اس نے ( لڑائی میں دیر کرنے پر ) تم کو نہ شرمندہ کیا نہ ذلیل کیا اور میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑائی میں موجود تھا ۔ آپ کا قاعدہ تھا اگر صبح سویرے لڑائی شروع نہ کرتے اور دن چڑھ جاتا تو اس وقت تک ٹھہرے رہتے کہ سورج ڈھل جائے ، ہوائیں چلنے لگیں ، نمازوں کا وقت آن پہنچے ۔

Selon Bakr ibn 'Abd Allah alMuzany et Ziyâd ibn Jubayr, Jubayr ibn Hayya dit: «'Umar avait envoyé plusieurs expéditions vers les grandes villes pour combattre les Associants... [Et il arriva ensuite] qu'alHurmuzân embrassa l'Islam. Alors 'Umar lui dit: Je veux te consulter au sujet de mes expéditionsci... — Certainement, accepta alHurmuzân. Le cas de ces expéditions et des hommes qui sont aux pays ennemis des Musulmans ressemble à un oiseau ayant une tête, des ailes et des pattes. Si l'une des deux ailes se cassait, resteraient alors les deux pattes pour supporter l'aile [restante] et la tête; si l'autre aile se cassait à son tour, resteraient alors les deux pattes et la tête; mais si c'est la tête qui est broyée, il ne restera ni pattes ni ailes ni tête. Or la tête, c'est Khosroês; quant à Héraclius, il forme l'une des deux ailes; l'autre aile est la Perse. Donne donc l'ordre aux Musulmans d'attaquer Khosroês. «En effet, 'Umar nous appela et désigna à notre tête anNu'mân ibn Muqarrin. Une fois dans les terres de l'ennemi surgit soudainement le gouverneur de Khosroês avec quarante mille hommes. Un interprète parut alors et dit: Qu'un homme parmi vous vienne me parler! — Demande ce que tu veux, lui dit alMughîra. — Qu'êtesvous? — Nous sommes des Arabes. Nous vivions dans un grand malheur et une dure détresse; nous sucions le cuir et les noyaux [de dattes] à cause de la famine; nous nous vêtions de poils et nous adorions les arbres et les pierres... Ainsi était notre situation quand le Seigneur des cieux et des terres, glorifié soit Son nom et magnifiée soit Sa grandeur! nous envoya un prophète faisant partie de nous et dont nous connaissons le père et la mère. Il, notre prophète et messager de notre Seigneur, nous ordonna de vous combattre jusqu'à ce que vous adoriez Allah seul, ou que vous payiez le tribut. De plus, il nous informa du message de notre Seigneur: celui d'entre nous qui tombe [dans la bataille] ira au Paradis [et y sera] dans des délices dont il n'avait jamais vu de pareil; quant à ceux d'entre nous qui restent en vie, ils auront possession de vos nuques.

شرح الحديث من عمدة القاري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    [ قــ :3016 ... غــ :3159]
حدَّثنا الفَضْلُ بنُ يَعْقُوبَ قَالَ حدَّثنا عبدُ الله بنُ جَعْفَرٍ الرَّقِيُّ قَالَ حدَّثنا الْمُعْتَمِرُ بنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حدَّثنا سَعِيدُ بنُ عُبَيْدِ الله الثَّقَفِيُّ قالَ حدَّثنا بَكْرُ بنُ عَبْدِ الله المُزَنِيُّ وزِيادُ ابنُ جُبَيْرٍ عنْ جُبَيْرِ عنْ جُبَيْرِ بنِ حَيَّةَ قَالَ بَعَثَ عُمَرُ النَّاسَ فِي أفْناءِ الأمْصَارِ يُقَاتِلُونَ الْمُشْرِكِينَ فأسْلَمَ الْهُرْمُزَانَ فَقال إنِّي مُسْتَشِيرُكَ فِي مَغَازِيَّ هذِهِ قالَ نَعَمْ مَثَلُها ومَثلُ منْ فِيهَا مِنَ النَّاسِ منْ عَدُوِّ المُسْلِمِينَ مثَلُ طائِرٍ لَهُ رأسٌ ولَهُ جَناحَانِ ولَهُ رِجْلانِ فإنْ كُسِرَ أحَدُ الجَنَاحَيْنِ نَهَضَتِ الرِّجْلانِ بِجَناح والرَّأسُ فإنْ كُسِرَ الجَناحُ الآخَرُ نَهَضَتِ الرِّجْلاَنِ والرَّأسُ وإنْ شُدِخُ الرَّأسُ ذَهَبَتِ الرِّجْلانِ والجَنَاحانِ والرَّأسُ فالرَّأسُ كِسْرَى والجَناحُ قَيْصَرُ والجَنَاحُ الآخَرُ فارِسُ فَمُرِ المُسْلِمِينَ فَلْيَنْفِرُوا إِلَى كِسْرَى.
.

     وَقَالَ  بَكْرٌ وزِيادٌ جَمِيعاً عنْ جُبَيْرِ بنِ حَيَّةَ قالَ فنَدَبَنا عُمَرُ واسْتَعْمَلَ علَيْنَا النُّعْمانَ بنَ مُقَرِّنٍ حتَّى إذَا كُنَّا بأرْضِ العَدُوِّ وخَرَجَ علَيْنَا عامِلُ كِسْرَى فِي أرْبَعِينَ ألْفاً فَقامَ تَرْجُمانٌ فَقَالَ لِيُكَلِّمْنِي رجُلٌ مِنْكُمْ فَقَالَ الْمُغِيرَةُ سَلْ عَمَّا شِئْتَ قَالَ مَا أنْتُمْ قَالَ نَحْنُ أُناسٌ مِنَ العَرَبِ كُنَّا فِي شَقَاءٍ شَدِيدٍ وبَلاَءٍ شَدِيدٍ نَمَصُّ الجِلْدَ والنَّوَى مِنَ الجُوعِ ونَلْبَسُ الْوَبَرَ والشَّعْرَ ونَعْبُدُ الشَّجَرَ والحجَرَ فَبَيْنَا نَحْنُ كذَلِكَ إذْ بَعثَ رَبُّ السَّماواتِ وربُّ الأرَضِين تَعَالَى ذِكْرُهُ وجَلَّتْ عَظَمَتُهُ إلَيْنَا نَبِيَّاً مِنْ أنْفُسِنَا نَعْرِفُ أبَاهُ وأُمُّهُ فأمَرَنا نَبِيُّنَا رسولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أنْ نُقَاتِلَكُمْ حتَّى تَعْبُدُوا الله وحْدَهُ أَو تُؤدُّوا الجِزْيَةَ وأخْبَرَنا نَبِيُّنَا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عنْ رِسالَةِ رَبِّنَا أنَّهُ مَنْ قُتِلَ مِنَّا صارَ إلَى الجَنَّةِ فِي نَعِيمٍ لَمْ يَرَ مِثْلَها قَطُّ ومنْ بَقِيَ مِنَّا ملَكَ رِقَابَكُمْ.
فقَالَ النُّعْمَانُ رُبَّما أشْهَدَكَ الله مِثْلَهَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فلَمْ يُندِّمْكَ ولَمْ يُخْزِكَ ولكنِّي شَهِدْتُ القِتَالَ مَعَ رَسُولِ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كانَ إذَا لَمْ يُقاتِلْ فِي أوَّلِ النَّهارِ انْتَظَرَ حَتَّى تَهُبَّ الأرْوَاحُ وتَحْضُرَ الصَّلَوَاتُ.
( الحَدِيث 9513 طرفه فِي: 0357) .
مطابقته للتَّرْجَمَة فِي تَأْخِير النُّعْمَان بن مقرن عَن مقاتلة الْعَدو وانتظاره هبوب الرِّيَاح وَزَوَال الشَّمْس، وَهُوَ معنى قَوْله فِي آخر الحَدِيث: ( أنْتَظر حَتَّى تهب الْأَرْوَاح وتحضر الصَّلَوَات) وَفِي رِوَايَة ابْن أبي شيبَة: حَتَّى تَزُول الشَّمْس، على مَا نذكرهُ، إِن شَاءَ الله تَعَالَى، وَهَذِه موادعة فِي هَذَا الزَّمَان مَعَ الْإِمْكَان للْمصْلحَة، والترجمة هِيَ المواعدة مَعَ أهل الْحَرْب، وَهِي ترك قِتَالهمْ مَعَ إِمْكَانه قبل الظفر بهم.
ذكر رِجَاله وهم ثَمَانِيَة: الأول: الْفضل بن يَعْقُوب الرخامي الْبَغْدَادِيّ، وَهُوَ من أَفْرَاده، مر فِي البيع.
الثَّانِي: عبد الله ابْن جَعْفَر بن غيلَان أَبُو عبد الرَّحْمَن الرقي، بِفَتْح الرَّاء الْمُشَدّدَة وَكسر الْقَاف الْمُشَدّدَة: نِسْبَة إِلَى الرقة، وَكَانَت مَدِينَة مَشْهُورَة على شَرْقي ضفة الْفُرَات، وَيُقَال لَهَا: الرقة الْبَيْضَاء، وَهِي الرافقة أما الرقة فخربت وَغلب اسْم الرقة على الرافقة.
الثَّالِث: الْمُعْتَمِر بن سُلَيْمَان، كَذَا وَقع فِي جَمِيع النّسخ: بِسُكُون الْعين الْمُهْملَة وَفتح التَّاء الْمُثَنَّاة من فَوق وَكسر الْمِيم، وَكَذَا وَقع فِي ( مستخرج) الْإِسْمَاعِيلِيّ وَغَيره فِي هَذَا الحَدِيث، وَزعم الدمياطي: أَن الصَّوَاب: المعمر، بِفَتْح الْعين الْمُهْملَة وَتَشْديد الْمِيم الْمَفْتُوحَة وبالراء، قَالَ: لِأَن عبد الله ابْن جَعْفَر لَا يروي عَن الْمُعْتَمِر الْبَصْرِيّ، ورد بِأَن ذَلِك لَيْسَ بكافٍ فِي رد الرِّوَايَات الصَّحِيحَة، لِأَن عدم دُخُول أَحدهمَا بلد الآخر لَا يسْتَلْزم عدم ملاقاتهما فِي سفر الْحَج وَنَحْوه،.

     وَقَالَ  بَعضهم: وَأغْرب الْكرْمَانِي، فَحكى أَنه قيل: الصَّوَاب فِي هَذَا: معمر ابْن رَاشد، يَعْنِي: شيخ عبد الرَّزَّاق، ثمَّ قَالَ: قلت: وَهَذَا هُوَ الْخَطَأ بِعَيْنِه، فَلَيْسَتْ لعبد الله بن جَعْفَر الرقي عَن معمر بن رَاشد رِوَايَة أصلا.
انْتهى.
قلت: الْكرْمَانِي لم يجْزم فِيهِ، بل حكى عَن بَعضهم، وَلمن حكى عَنهُ أَن يَقُول: الدَّعْوَى بِعَدَمِ رِوَايَة عبد الله بن جَعْفَر الرقي عَن معمر بن رَاشد يحْتَاج إِلَى دَلِيل، فمجرد النَّفْي غير كَاف.
الرَّابِع: سعيد بن عبيد الله الثَّقَفِيّ، هُوَ ابْن جُبَير بن حَيَّة الَّذِي يَأْتِي الْآن.
الْخَامِس: بكر بن عبد الله الْمُزنِيّ الْبَصْرِيّ.
السَّادِس: زِيَاد بن جُبَير بن حَيَّة الثَّقَفِيّ، روى عَن أَبِيه جُبَير بن حَيَّة، وروى عَنهُ سعيد بن عبيد الله الثَّقَفِيّ الْمَذْكُور آنِفا.
السَّابِع: جُبَير بن حَيَّة، بِفَتْح الْحَاء الْمُهْملَة وَتَشْديد الْيَاء آخر الْحُرُوف: ابْن مَسْعُود، ابْن معتب بن مَالك بن عَمْرو بن سعد بن عَوْف بن ثَقِيف الثَّقَفِيّ، ولاه زِيَاد أَصْبَهَان، وَمَات أَيَّام عبد الْملك بن مَرْوَان،.

     وَقَالَ  ابْن مَاكُولَا: جُبَير بن حَيَّة الثَّقَفِيّ روى عَن الْمُغيرَة بن شُعْبَة، هُوَ وَالِد الجبيرين بِالْبَصْرَةِ، وَابْنه زِيَاد بن جُبَير.
قلت: روى جُبَير بن حَيَّة أَيْضا عَن عمر بن الْخطاب، والنعمان بن بشير.
الثَّامِن: عمر بن الْخطاب، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ.
وَأخرج البُخَارِيّ بعض هَذَا الحَدِيث فِي التَّوْحِيد عَن الْفضل بن يَعْقُوب أَيْضا.
ذكر مَعْنَاهُ: قَوْله: ( فِي أفناء الْأَمْصَار) ، قَالَ صَاحب ( الْمطَالع) : قَوْله، فِي أفناء النَّاس، أَي: جماعاتهم، وَالْوَاحد فنو، وَقيل: أفناء النَّاس أخلاطهم، يُقَال للرجل إِذا لم يعلم من أَي قَبيلَة: هُوَ من أفناء الْقَبَائِل، وَقيل: الأفناء أنزاع من الْقَبَائِل من هَهُنَا وَمن هَهُنَا، حكى أَبُو حَاتِم أَنه لَا يُقَال فِي الْوَاحِد: هَذَا من أفناء النَّاس، إِنَّمَا يُقَال فِي الْجَمَاعَة هَؤُلَاءِ من أفناء النَّاس،.

     وَقَالَ  الْجَوْهَرِي: يُقَال: هُوَ من أفناء النَّاس، إِذا لم يعلم مِمَّن هُوَ،.

     وَقَالَ  ابْن الْأَثِير: وَفِي الحَدِيث: رجل من أفناء النَّاس أَي: لم يعلم مِمَّن هُوَ، الْوَاحِد فنو، وَقيل: هُوَ من الفناء، وَهُوَ المتسع أَمَام الدَّار، وَيجمع الفناء على أفنية،.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي: قَوْله: أفناء الْأَمْصَار، يُقَال: هُوَ من أفناء النَّاس إِذا لم يعلم مِمَّن هُوَ، وَفِي بَعْضهَا: الْأَمْصَار، بِالْمِيم،.

     وَقَالَ  بَعضهم ( فِي أفناء الْأَمْصَار) : إِنَّه فِي مَجْمُوع الْبِلَاد الْكِبَار.
قلت: هَذَا التَّفْسِير لَيْسَ على قانون اللُّغَة، وَالَّذِي ذَكرْنَاهُ هُوَ التَّفْسِير.
قَوْله: ( فَأسلم الهرمزان) ، بِضَم الْهَاء وَسُكُون الرَّاء وَضم الْمِيم وَتَخْفِيف الزَّاي، وَفِي آخِره نون و: هَذَا الْموضع يَقْتَضِي بعض بسط الْكَلَام حَتَّى ينشرح صدر النَّاظر فِيهِ، لِأَن الرَّاوِي هُنَا أخل شَيْئا كثيرا، فَنَقُول: وَبِاللَّهِ التَّوْفِيق: أما الهرمزان فَكَانَ ملكا كَبِيرا من مُلُوك الْعَجم، وَكَانَت تَحت يَده كورة الأهواز، وكورة جندي سَابُور، وكورة السوس، وكورة السرق، وكورة نهر بَين، وكورة نهر تيري، ومناذر، بِفَتْح الْمِيم وَالنُّون وَبعد الْألف ذال مُعْجمَة وَفِي آخِره رَاء، وَكَانَ الهرمزان فِي الْجَيْش الَّذين أرسلهم يزدجر إِلَى قتال الْمُسلمين وهم على الْقَادِسِيَّة، وَهِي قَرْيَة على طَرِيق الْحَاج على مرحلة من الْكُوفَة، وأمير الْمُسلمين يَوْمئِذٍ سعد بن أبي وَقاص، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، وَكَانَ رَأس جَيش الْعَجم رستم فِي مائَة ألف وَعشْرين ألفا يتبعهَا ثَمَانُون ألفا، وَمَعَهُمْ ثَلَاثَة وَثَلَاثُونَ فيلاً، وَكَانَ الهرمزان رَأس الميمنة، وَزعم ابْن إِسْحَاق أَن الْمُسلمين كَانُوا مَا بَين السَّبْعَة آلَاف إِلَى الثَّمَانِية آلَاف، وَوَقع بَينهم قتال عَظِيم لم يعْهَد مثله، وأبلى فِي ذَلِك الْيَوْم جمَاعَة من الشجعان مثل طليحة الْأَسدي وَعَمْرو بن معدي كرب والقعقاع بن عَمْرو وَجَرِير بن عبد الله البَجلِيّ وَضِرَار بن الْخطاب وخَالِد بن عرفطة وأمثالهم، وَكَانَت الْوَقْعَة بَينهم يَوْم الِاثْنَيْنِ مستهل الْمحرم عَام أَربع عشرَة، وَأرْسل الله تَعَالَى فِي ذَلِك الْيَوْم ريحًا شَدِيدَة أرمت خيام الْفرس من أماكنها، وَأَلْقَتْ سَرِير رستم مقدم الْجَيْش، فَركب بغلة وهرب، وأدركه الْمُسلمُونَ وقتلوه، وانهزمت الْفرس وَقتل الْمُسلمُونَ مِنْهُم خلقا كثيرا، وَكَانَ فيهم المسلسلون ثَلَاثِينَ ألف فَقتلُوا بكمالهم، وَقتل فِي المعركة عشرَة آلَاف، وَقيل: قريب من ذَلِك، وَلم يزل الْمُسلمُونَ وَرَاءَهُمْ إِلَى أَن دخلُوا مَدِينَة الْملك، وَهِي الْمَدَائِن الَّتِي فِيهَا إيوَان كسْرَى، وَكَانَ الهرمزان من جملَة الهاربين، ثمَّ وَقعت بَينه وَبَين الْمُسلمين وقْعَة، ثمَّ وَقع الصُّلْح بَينه وَبَين الْمُسلمين، ثمَّ نقض الصُّلْح ثمَّ: جمع أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيّ، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، الْجَيْش وحاصروا هرمزان فِي مَدِينَة تستر، وَلما اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْأَمر بعث إِلَى أبي مُوسَى فَسَأَلَ الْأمان إِلَى أَن يحملهُ إِلَى أَمِير الْمُؤمنِينَ عمر بن الْخطاب، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، فَأَجَابَهُ إِلَى ذَلِك وَوجه مَعَه الْخمس من غَنَائِم الْمُسلمين، فَلَمَّا وصل إِلَيْهِ وَوَقع نظره عَلَيْهِ سجد لله تَعَالَى، وَجرى بَينه وَبَين عمر محاورات، ثمَّ بعد ذَلِك أسلم طَائِعا غير مكره، وَأسلم من كَانَ مَعَه من أَهله وَولده وخدمه، ثمَّ قربه عمر وَفَرح بِإِسْلَامِهِ، فَهَذِهِ قصَّة إِسْلَام هرمزان الَّذِي قَالَ فِي حَدِيث الْبَاب: فَأسلم الهرمزان، وَكَانَ لَا يُفَارق عمر حَتَّى قتل عمر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، فاتهمه بعض النَّاس بممالأة أبي لؤلؤه فَقتله عبيد الله بن عمر.
قَوْله: ( فَقَالَ: إِنِّي مستشيرك) ، أَي: قَالَ عمر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، للهرمزان.
قَوْله: ( فِي مغازي) ، بتَشْديد الْبَاء، وَقد بيَّن ابْن أبي شيبَة مَا قَصده من ذَلِك، فروى من طَرِيق معقل بن يسَار أَن عمر شاور الهرمزان فِي فَارس وأصبهان وأذربيجن أَن بأيها يبْدَأ، وَإِنَّمَا شاوره عمر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، فِي ذَلِك لِأَنَّهُ كَانَ أعلم بأحوال تِلْكَ الْبِلَاد.
قَوْله: ( قَالَ: نعم) أَي: قَالَ الهرمزان: نعم، وَهُوَ حرف إِيجَاب،.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي: إِن صحت الرِّوَايَة بِلَفْظ فعل الْمَدْح فتقديره: نعم الْمثل مثلهَا، وَالضَّمِير فِي مثلهَا يرجع إِلَى الأَرْض الَّتِي يدل عَلَيْهَا السِّيَاق، وارتفاع: مثلهَا، على الِابْتِدَاء وَخَبره قَوْله: مثل طَائِر.
قَوْله: ( والجناج قَيْصر) ، هُوَ ملك الرّوم، قيل: فِيهِ نظر لِأَن كسْرَى لم يكن رَأْسا للروم، ونوزع فِي هَذَا بِأَن كسْرَى رَأس الْكل لِأَنَّهُ لم يكن فِي زَمَانه ملك أكبر مِنْهُ، لِأَن سَائِر مُلُوك الْبِلَاد كَانُوا يهابونه ويهادونه.
قَوْله: ( فلينفروا إِلَى كسْرَى) ، إِنَّمَا أَشَارَ بالنفير أَولا إِلَى كسْرَى لكَونه رَأْسا، فَإِذا فَاتَ الرَّأْس فَاتَ الْكل.
وَأَشَارَ إِلَى هَذَا الْمَعْنى بقوله: ( وَإِن شدخ الرَّأْس) أَي: وَإِن كسر، من الشدخ بالشين الْمُعْجَمَة وَالدَّال الْمُهْملَة وَالْخَاء الْمُعْجَمَة، قَالَ ابْن الْأَثِير: الشدخ كسر الشَّيْء الأجوف، تَقول: شدخت رَأسه فانشدخ، فَإِن قلت: قَالَ: فالرأس كسْرَى والجناح قَيْصر والجناح الآخر فَارس، وَمَا الرّجلَانِ؟ قلت: لقيصر الفربخ مثلا، ولكسرى الْهِنْد مثلا، وَلَا شكّ أَن الفربخ كَانَت فِي طرف من قَيْصر متصلين بِهِ، والهند كَانَت فِي طرف من كسْرَى متصلين بِهِ، وَإِنَّمَا لم يقل: وَإِن كسر الرّجلَانِ فَكَذَا، اكْتِفَاء للْعلم بِحَالهِ قِيَاسا على الْجنَاح، لَا سِيمَا وَأَنه بِالنِّسْبَةِ إِلَى الظَّاهِر أسهل حَالا من الْجنَاح.
فَإِن قلت: إِذا انْكَسَرَ الجناحان وَالرجلَانِ جَمِيعًا لَا ينْهض أَيْضا؟ قلت: الْغَرَض أَن الْعُضْو الشريف هُوَ الأَصْل فَإِذا صلح صلح الْجَسَد كُله، وَإِذا فسد فسد، بِخِلَاف الْعَكْس.
قَوْله: (.

     وَقَالَ  بكر)
، هُوَ بكر بن عبد الله الْمَذْكُور.
( وَزِيَاد) ، هُوَ زِيَاد بن جُبَير الْمَذْكُور.
قَوْله: ( فندبنا) ، بِفَتْح الدَّال وَالْبَاء على صِيغَة الْمَاضِي، أَي: طلبنا ودعانا وعزم علينا أَن نَجْتَمِع للْجِهَاد.
قَوْله: ( وَاسْتعْمل علينا النُّعْمَان بن مقرن) أَي: جعله أَمِيرا علينا، وَكَانَ النُّعْمَان قدم على عمر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، بِفَتْح الْقَادِسِيَّة الَّتِي ذَكرنَاهَا عَن قريب، وَفِي رِوَايَة ابْن أبي شيبَة: فَدخل عمر الْمَسْجِد فَإِذا هُوَ بالنعمان يُصَلِّي، فَقعدَ فَلَمَّا فرغ قَالَ: إِنِّي مستعملك! قَالَ: أما جابياً فَلَا، وَلَكِن غازياً.
قَالَ: فَإنَّك غازٍ، فَخرج وَمَعَهُ الزبير وَحُذَيْفَة وَابْن عمر والأشعث وَعَمْرو بن معدي كرب، وَفِي رِوَايَة الطَّبَرَانِيّ: فَأَرَادَ عمر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، أَن يسير بِنَفسِهِ ثمَّ بعث النُّعْمَان وَمَعَهُ ابْن عمر وَجَمَاعَة، وَكتب إِلَى أبي مُوسَى الْأَشْعَرِيّ أَن يسير بِأَهْل الْبَصْرَة، وَإِلَى حُذَيْفَة أَن يسير بِأَهْل الْكُوفَة حَتَّى يجتمعوا بنهاوند، وَإِذا التقيتم فأميركم النُّعْمَان بن مقرن، بِضَم الْمِيم وَفتح الْقَاف وَكسر الرَّاء الْمُشَدّدَة وبالنون: ابْن عَائِذ بن منجي بن هجير بن نصر بن حبشية بن كَعْب بن عبد بن تور بن هدمة بن الأطم بن عُثْمَان.
وَهُوَ مزينة بن عَمْرو بن أد بن طابخة الْمُزنِيّ، قَالَ أَبُو عمر: وَيُقَال: النُّعْمَان بن عَمْرو بن مقرن، يكنى أَبَا عَمْرو، وَيُقَال: أَبَا حَكِيم.
قَالَ مُصعب: هَاجر النُّعْمَان بن مقرن وَمَعَهُ سَبْعَة أخوة، وروى عَنهُ أَنه قَالَ: قدمنَا على رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي أَربع مائَة من مزينة، ثمَّ سكن الْبَصْرَة وتحول عَنْهَا إِلَى الْكُوفَة.
قَوْله: ( حَتَّى إِذا كُنَّا بِأَرْض الْعَدو) وَهِي نهاوند، بِضَم النُّون وَتَخْفِيف الْهَاء وَفتح الْوَاو وَسُكُون النُّون، وَفِي آخِره دَال مُهْملَة، وَضبط بَعضهم: بِفَتْح النُّون وَلَيْسَ كَذَلِك، بل بِالضَّمِّ لِأَن الَّذِي بناها نوح، عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام، وَكَانَت تسمى: نوح أوند، يَعْنِي: عمرها نوح، عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام، فأبدلوا الْحَاء هَاء، وَهِي مَدِينَة جنوبي هَمدَان وَلها أَنهَار وبساتين، وَهِي كَثِيرَة الْفَوَاكِه وَتحمل فواكهها إِلَى الْعرَاق لجودتها، مِنْهَا إِلَى هَمدَان أَرْبَعَة عشر فرسخاً، وَهِي من بِلَاد عراق الْعَجم فِي حد بِلَاد الجيل.
قَوْله: ( وَخرج علينا عَامل كسْرَى فِي أَرْبَعِينَ ألفا) ، كَانَ هَؤُلَاءِ الْأَرْبَعُونَ ألفا من أهل فَارس وكرمان، وَكَانَ من أهل نهاوند عشرُون ألفا وَمن أهل أَصْبَهَان عشرُون، وَمن أهل قُم وقاشان عشرُون وَمن أهل أذربيجان ثَلَاثُونَ ألفا وَمن بِلَاد أُخْرَى عشرُون ألفا فالجملة مائَة ألف وَخَمْسُونَ ألفا فُرْسَانًا، وَكَانَ عَامل كسْرَى الَّذِي على هَؤُلَاءِ الْجَيْش الغيرزان، وَيُقَال: بنْدَار، وَيُقَال: ذُو الحاجبين،.

     وَقَالَ  ابْن الْأَثِير فِي ( كتاب الأذواء) : ذُو الحاجبين هُوَ خرزاد بن هُرْمُز من الْفرس أحد الْأُمَرَاء الْأَرْبَعَة الَّذين أَمرتهم الْأَعَاجِم على كورة نهاوند، وَكَانَت هَذِه الْوَقْعَة الَّتِي وَقعت على نهاوند وقْعَة عَظِيمَة، وَكَانَ الْمُسلمُونَ يسمونها فتح الْفتُوح،.

     وَقَالَ  ابْن إِسْحَاق والواقدي: كَانَت وقْعَة نهاوند فِي سنة إِحْدَى وَعشْرين،.

     وَقَالَ  سيف: كَانَت فِي سنة سبع عشرَة، وَقيل: فِي سنة تسع عشرَة، وَكَانَت هَذِه الْوَاقِعَة أَربع وقعات، وَفِي الْوَقْعَة الثَّانِيَة قتل النُّعْمَان ابْن مقرن أَمِير الْجَيْش وَقَامَ مقَامه حُذَيْفَة بن الْيَمَان، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، قَوْله: ( فَقَامَ ترجمان) ، بِفَتْح التَّاء وَضمّهَا وَضم الْجِيم وَالْوَجْه الثَّالِث فتحهما نَحْو: الزَّعْفَرَان.
قَوْله: ( فَقَالَ الْمُغيرَة) ، وَهُوَ الْمُغيرَة بن شُعْبَة، وَكَانَ هُوَ الترجمان، وَكَذَلِكَ كَانَ هُوَ الترجمان بَين الهرمزان وَعمر بن الْخطاب، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، فِي الْمَدِينَة لما قدم الهرمزان إِلَيْهِ كَمَا ذَكرْنَاهُ.
قَوْله: ( قَالَ: مَا أَنْتُم؟) هَكَذَا خَاطب عَامل كسْرَى الَّذِي هُوَ عينه على جَيْشه بِصِيغَة من لَا يعقل احتقاراً لَهُ.
قَوْله: ( قَالَ: نَاس من الْعَرَب) أَي: قَالَ الْمُغيرَة: نَحن نَاس من الْعَرَب ... إِلَى آخر مَا ذكره، وَفِي رِوَايَة ابْن أبي شيبَة، فَقَالَ: إِنَّكُم معشر الْعَرَب، أَصَابَكُم جوع وَجهد فجئتم، فَإِن شِئْتُم مرناكم، بِكَسْر الْمِيم وَسُكُون الرَّاء أَي: أعطيناكم الْميرَة، أَي الزَّاد وَرَجَعْتُمْ، وَفِي رِوَايَة الطَّبَرِيّ: إِنَّكُم معشر الْعَرَب أطول النَّاس جوعا وَأبْعد النَّاس من كل خير، وَمَا مَنَعَنِي أَن أَمر هَؤُلَاءِ الأساورة أَن ينتظموكم بالنشاب إلاَّ تقذراً لجيفكم.
قَالَ الْمُغيرَة: فحمدت لله وأثنيت عَلَيْهِ، ثمَّ قلت: مَا أَخْطَأت شَيْئا من صفتنا، كَذَلِك كُنَّا حَتَّى بعث الله إِلَيْنَا رَسُوله.
قَوْله: ( نَعْرِف أَبَاهُ وَأمه) ، وَزَاد فِي رِوَايَة ابْن أبي شيبَة: فِي شرف منا أوسطنا حسباً وأصدقنا حَدِيثا.
قَوْله: ( فَقَالَ النُّعْمَان) يَعْنِي للْمُغِيرَة: رُبمَا أشهدك الله أَي أحضرك الله مثلهَا، أَي: مثل هَذِه الشدَّة مَعَ رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَوْله: ( فَلم يندمك) بِضَم الْيَاء من الإندام، يُقَال: أندمه الله فندم، وَالْمعْنَى: لم يندمك فِيمَا لقِيت مَعَه من الشدَّة.
قَوْله: ( وَلم يخزك) من الإخزاء، يُقَال: خزي، بِالْكَسْرِ: إِذا ذل وَهَان، ويروى: فَلم يحزنك، بِالْحَاء الْمُهْملَة وَالنُّون، وَهِي رِوَايَة الْأَكْثَرين، وَالْأولَى رِوَايَة الْمُسْتَمْلِي، وَهِي أوجه لوفاق مَا قبله، كَمَا فِي حَدِيث وَفد عبد الْقَيْس: غير خزايا وَلَا ندامى، وَهَذِه المحاورة الَّتِي وَقعت بَين النُّعْمَان بن مقرن والمغيرة بن شُعْبَة بِسَبَب تَأْخِير النُّعْمَان الْقِتَال، فَاعْتَذر النُّعْمَان بقوله: ( وَلَكِنِّي شهِدت الْقِتَال مَعَ رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم) إِلَى آخِره،.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي مَا معنى الِاسْتِدْرَاك؟ وَأَيْنَ توسطه بَين كلامين متغايرين؟ قلت: كَانَ الْمُغيرَة قصد الِاشْتِغَال بِالْقِتَالِ أول النَّهَار بعد الْفَرَاغ من المكالمة مَعَ الترجمان فَقَالَ النُّعْمَان: إِنَّك شهِدت الْقِتَال مَعَ رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم لكنك مَا ضبطت انْتِظَاره للهبوب،.

     وَقَالَ  ابْن بطال: قَوْله: ( وَلَكِنِّي شهِدت) إِلَى آخِره كَلَام مُسْتَأْنف وَابْتِدَاء قصَّة أُخْرَى.
قلت: الَّذِي قَالَه الْكرْمَانِي هُوَ الَّذِي يَقْتَضِيهِ سِيَاق الْكَلَام، وسياقه على مَا لَا يخفى على المتأمل، وَفِي رِوَايَة الطَّبَرِيّ: قد كَانَ الله أشهدك أَمْثَالهَا، وَالله مَا مَنَعَنِي أَن أناجزهم إلاَّ شَيْء شهدته من رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَهُوَ قَوْله: كَانَ إِذا لم يُقَاتل أول النَّهَار إِلَى آخِره.
قَوْله: ( حَتَّى تهب الْأَرْوَاح) جمع ريح، وَأَصله: روح، قلبت الْوَاو يَاء لسكونها وانكسار مَا قبلهَا، والتصغير والتكسير يردان الْأَشْيَاء إِلَى أُصُولهَا.
وَقد حكى ابْن جني جمع ريح على: أرياح.
قَوْله: ( وتحضر الصَّلَوَات) يَعْنِي: بعد زَوَال الشَّمْس، تدل عَلَيْهِ رِوَايَة ابْن أبي شيبَة: وتزول الشَّمْس، وَزَاد فِي رِوَايَة الطَّبَرِيّ: ويطيب الْقِتَال، وَفِي رِوَايَة ابْن أبي شيبَة: وَينزل النَّصْر.
وَفِي الحَدِيث من الْفَوَائِد منقبة النُّعْمَان وَمَعْرِفَة الْمُغيرَة بن شُعْبَة بِالْحَرْبِ وَقُوَّة نَفسه وشهامته وفصاحته وبلاغته واشتمال كَلَامه على بَيَان أَحْوَالهم الدِّينِيَّة والدنياوية، وعَلى بَيَان معجزات الرَّسُول صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وأخباره عَن المغيبات ووقوعها كَمَا أخبر.
وَفِيه: فضل المشورة وَأَن الْكَبِير لَا نقص عَلَيْهِ فِي مُشَاورَة من هُوَ دونه، وَأَن الْمَفْضُول قد يكون أَمِيرا على الْأَفْضَل، لِأَن الزبير ابْن الْعَوام، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، كَانَ فِي جَيش عَلَيْهِ النُّعْمَان بن مقرن، وَالزُّبَيْر أفضل مِنْهُ اتِّفَاقًا وَفِيه: ضرب الْمثل.
وَفِيه: جودة تصور الهرمزان، وَكَذَلِكَ استشارة عمر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ.
وَفِيه: الْإِرْسَال إِلَى الإِمَام بالبشارة.
وَفِيه: فضل الْقِتَال بعد زَوَال الشَّمْس على مَا قبله.