هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
3016 حَدَّثَنَا الفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا المُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ المُزَنِيُّ ، وَزِيَادُ بْنُ جُبَيْرٍ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ ، قَالَ : بَعَثَ عُمَرُ النَّاسَ فِي أَفْنَاءِ الأَمْصَارِ ، يُقَاتِلُونَ المُشْرِكِينَ ، فَأَسْلَمَ الهُرْمُزَانُ ، فَقَالَ : إِنِّي مُسْتَشِيرُكَ فِي مَغَازِيَّ هَذِهِ ؟ قَالَ : نَعَمْ مَثَلُهَا وَمَثَلُ مَنْ فِيهَا مِنَ النَّاسِ مِنْ عَدُوِّ المُسْلِمِينَ مَثَلُ طَائِرٍ لَهُ رَأْسٌ وَلَهُ جَنَاحَانِ وَلَهُ رِجْلاَنِ ، فَإِنْ كُسِرَ أَحَدُ الجَنَاحَيْنِ نَهَضَتِ الرِّجْلاَنِ بِجَنَاحٍ وَالرَّأْسُ ، فَإِنْ كُسِرَ الجَنَاحُ الآخَرُ نَهَضَتِ الرِّجْلاَنِ وَالرَّأْسُ ، وَإِنْ شُدِخَ الرَّأْسُ ذَهَبَتِ الرِّجْلاَنِ وَالجَنَاحَانِ وَالرَّأْسُ ، فَالرَّأْسُ كِسْرَى ، وَالجَنَاحُ قَيْصَرُ ، وَالجَنَاحُ الآخَرُ فَارِسُ ، فَمُرِ المُسْلِمِينَ ، فَلْيَنْفِرُوا إِلَى كِسْرَى ، - وَقَالَ بَكْرٌ ، وَزِيَادٌ جَمِيعًا عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ - قَالَ : فَنَدَبَنَا عُمَرُ ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْنَا النُّعْمَانَ بْنَ مُقَرِّنٍ ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِأَرْضِ العَدُوِّ ، وَخَرَجَ عَلَيْنَا عَامِلُ كِسْرَى فِي أَرْبَعِينَ أَلْفًا ، فَقَامَ تَرْجُمَانٌ ، فَقَالَ : لِيُكَلِّمْنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ ، فَقَالَ المُغِيرَةُ : سَلْ عَمَّا شِئْتَ ؟ قَالَ : مَا أَنْتُمْ ؟ قَالَ : نَحْنُ أُنَاسٌ مِنَ العَرَبِ ، كُنَّا فِي شَقَاءٍ شَدِيدٍ وَبَلاَءٍ شَدِيدٍ ، نَمَصُّ الجِلْدَ وَالنَّوَى مِنَ الجُوعِ ، وَنَلْبَسُ الوَبَرَ وَالشَّعَرَ ، وَنَعْبُدُ الشَّجَرَ وَالحَجَرَ ، فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الأَرَضِينَ - تَعَالَى ذِكْرُهُ وَجَلَّتْ عَظَمَتُهُ - إِلَيْنَا نَبِيًّا مِنْ أَنْفُسِنَا نَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ ، فَأَمَرَنَا نَبِيُّنَا رَسُولُ رَبِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُقَاتِلَكُمْ حَتَّى تَعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ ، أَوْ تُؤَدُّوا الجِزْيَةَ ، وَأَخْبَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رِسَالَةِ رَبِّنَا ، أَنَّهُ مَنْ قُتِلَ مِنَّا صَارَ إِلَى الجَنَّةِ فِي نَعِيمٍ لَمْ يَرَ مِثْلَهَا قَطُّ ، وَمَنْ بَقِيَ مِنَّا مَلَكَ رِقَابَكُمْ ، فَقَالَ النُّعْمَانُ : رُبَّمَا أَشْهَدَكَ اللَّهُ مِثْلَهَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمْ يُنَدِّمْكَ ، وَلَمْ يُخْزِكَ ، وَلَكِنِّي شَهِدْتُ القِتَالَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ ، انْتَظَرَ حَتَّى تَهُبَّ الأَرْوَاحُ ، وَتَحْضُرَ الصَّلَوَاتُ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  وقال بكر ، وزياد جميعا عن جبير بن حية قال : فندبنا عمر ، واستعمل علينا النعمان بن مقرن ، حتى إذا كنا بأرض العدو ، وخرج علينا عامل كسرى في أربعين ألفا ، فقام ترجمان ، فقال : ليكلمني رجل منكم ، فقال المغيرة : سل عما شئت ؟ قال : ما أنتم ؟ قال : نحن أناس من العرب ، كنا في شقاء شديد وبلاء شديد ، نمص الجلد والنوى من الجوع ، ونلبس الوبر والشعر ، ونعبد الشجر والحجر ، فبينا نحن كذلك إذ بعث رب السموات ورب الأرضين تعالى ذكره وجلت عظمته إلينا نبيا من أنفسنا نعرف أباه وأمه ، فأمرنا نبينا رسول ربنا صلى الله عليه وسلم أن نقاتلكم حتى تعبدوا الله وحده ، أو تؤدوا الجزية ، وأخبرنا نبينا صلى الله عليه وسلم عن رسالة ربنا ، أنه من قتل منا صار إلى الجنة في نعيم لم ير مثلها قط ، ومن بقي منا ملك رقابكم ، فقال النعمان : ربما أشهدك الله مثلها مع النبي صلى الله عليه وسلم ، فلم يندمك ، ولم يخزك ، ولكني شهدت القتال مع رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا لم يقاتل في أول النهار ، انتظر حتى تهب الأرواح ، وتحضر الصلوات
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Selon Bakr ibn 'Abd Allah alMuzany et Ziyâd ibn Jubayr, Jubayr ibn Hayya dit: «'Umar avait envoyé plusieurs expéditions vers les grandes villes pour combattre les Associants... [Et il arriva ensuite] qu'alHurmuzân embrassa l'Islam. Alors 'Umar lui dit: Je veux te consulter au sujet de mes expéditionsci... — Certainement, accepta alHurmuzân. Le cas de ces expéditions et des hommes qui sont aux pays ennemis des Musulmans ressemble à un oiseau ayant une tête, des ailes et des pattes. Si l'une des deux ailes se cassait, resteraient alors les deux pattes pour supporter l'aile [restante] et la tête; si l'autre aile se cassait à son tour, resteraient alors les deux pattes et la tête; mais si c'est la tête qui est broyée, il ne restera ni pattes ni ailes ni tête. Or la tête, c'est Khosroês; quant à Héraclius, il forme l'une des deux ailes; l'autre aile est la Perse. Donne donc l'ordre aux Musulmans d'attaquer Khosroês. «En effet, 'Umar nous appela et désigna à notre tête anNu'mân ibn Muqarrin. Une fois dans les terres de l'ennemi surgit soudainement le gouverneur de Khosroês avec quarante mille hommes. Un interprète parut alors et dit: Qu'un homme parmi vous vienne me parler! — Demande ce que tu veux, lui dit alMughîra. — Qu'êtesvous? — Nous sommes des Arabes. Nous vivions dans un grand malheur et une dure détresse; nous sucions le cuir et les noyaux [de dattes] à cause de la famine; nous nous vêtions de poils et nous adorions les arbres et les pierres... Ainsi était notre situation quand le Seigneur des cieux et des terres, glorifié soit Son nom et magnifiée soit Sa grandeur! nous envoya un prophète faisant partie de nous et dont nous connaissons le père et la mère. Il, notre prophète et messager de notre Seigneur, nous ordonna de vous combattre jusqu'à ce que vous adoriez Allah seul, ou que vous payiez le tribut. De plus, il nous informa du message de notre Seigneur: celui d'entre nous qui tombe [dans la bataille] ira au Paradis [et y sera] dans des délices dont il n'avait jamais vu de pareil; quant à ceux d'entre nous qui restent en vie, ils auront possession de vos nuques.

":"ہم سے فضل بن یعقوب نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن جعفرالرقی نے ، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے ، کہا ہم سے سعید بن عبیداللہ ثقفی نے بیان کیا ، ان سے بکر بن عبداللہ مزنی اور زیاد بن جبیر ہر دو نے بیان کیا اور ان سے جبیر بن حیہ نے بیان کیا کہکفار سے جنگ کے لیے عمر رضی اللہ عنہ نے فوجوں کو ( فارس کے ) بڑے بڑے شہروں کی طرف بھیجا تھا ۔ ( جب لشکر قادسیہ پہنچا اور لڑائی کا نتیجہ مسلمانوں کے حق میں نکلا ) تو ہرمزان ( شوستر کا حاکم ) اسلام لے آیا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا کہ میں تم سے ان ( ممالک فارس وغیرہ ) پر فوج بھیجنے کے سلسلے میں مشورہ چاہتا ہوں ( کہ پہلے ان تین مقاموں فارس ، اصفہان اور آذربائیجان میں کہاں سے لڑائی شروع کی جائے ) اس نے کہا جی ہاں ! اس ملک کی مثال اور اس میں رہنے والے اسلام دشمن باشندوں کی مثال ایک پرندے جیسی ہے جس کا سر ہے ، دو بازو ہیں ۔ اگر اس کا ایک بازو توڑ دیا جائے تو وہ اپنے دونوں پاؤں پر ایک بازو اور ایک سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے ۔ اگر دوسرا بازو بھی توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں اور سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے ۔ لیکن اگر سر توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں دونوں بازو اور سر سب بے کار رہ جاتا ہے ۔ پس سر تو کسریٰ ہے ، ایک بازو قیصر ہے اور دوسرا فارس ! اس لیے آپ مسلمانوں کو حکم دے دیں کہ پہلے وہ کسریٰ پر حملہ کریں ۔ اور بکر بن عبداللہ اور زیاد بن جبیر دونوں نے بیان کیا کہ ان سے جبیر بن حیہ نے بیان کیا کہ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ( جہاد کے لیے ) بلایا اور نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو ہمارا امیر مقرر کیا ۔ جب ہم دشمن کی سرزمین ( نہاوند ) کے قریب پہنچے تو کسریٰ کا ایک افسر چالیس ہزار کا لشکر ساتھ لیے ہوئے ہمارے مقابلہ کے لیے بڑھا ۔ پھر ایک ترجمان نے آ کر کہا کہ تم میں سے کوئی ایک شخص ( معاملات پر ) گفتگو کرے ۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ( مسلمانوں کی نمائندگی کی اور ) فرمایا کہ جو تمہارے مطالبات ہوں ، انہیں بیان کرو ۔ اس نے پوچھا آخر تم لوگ ہو کون ؟ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم عرب کے رہنے والے ہیں ، ہم انتہائی بدبختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا تھے ۔ بھوک کی شدت میں ہم چمڑے ، اور گٹھلیاں چوسا کرتے تھے ۔ اون اور بال ہماری پوشاک تھی ۔ اور پتھروں اور درختوں کی ہم عبادت کیا کرتے تھے ۔ ہماری مصیبتیں اسی طرح قائم تھیں کہ آسمان اور زمین کے رب نے ، جس کا ذکر اپنی تمام عظمت و جلال کے ساتھ بلند ہے ۔ ہماری طرف ہماری ہی طرح ( کے انسانی عادات و خصائص رکھنے والا ) ایک نبی بھیجا ۔ ہم اس کے باپ اور ماں کو جانتے ہیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تم سے اس وقت تک جنگ کرتے رہیں ۔ جب تک تم صرف اللہ اکیلے کی عبادت نہ کرنے لگو ۔ یا پھر اسلام نہ قبول کرنے کی صورت میں جزیہ دینا قبول کر لو اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے رب کا یہ پیغام بھی پہنچایا ہے کہ ( اسلام کے لیے لڑتے ہوئے ) جہاد میں ہمارا جو آدمی بھی قتل کیا جائے گا وہ ایسی جنت میں جائے گا ، جو اس نے کبھی نہیں دیکھی اور جو لوگ ہم میں سے زندہ باقی رہ جائیں گے وہ ( فتح حاصل کر کے ) تم پر حاکم بن سکیں گے ۔ ( مغیرہ رضی اللہ عنہ نے یہ گفتگو تمام کر کے نعمان رضی اللہ عنہ سے کہا لڑائی شروع کرو ) ۔ نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا تم کو تو اللہ پاک ایسی کئی لڑائیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رکھ چکا ہے ۔ اور اس نے ( لڑائی میں دیر کرنے پر ) تم کو نہ شرمندہ کیا نہ ذلیل کیا اور میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑائی میں موجود تھا ۔ آپ کا قاعدہ تھا اگر صبح سویرے لڑائی شروع نہ کرتے اور دن چڑھ جاتا تو اس وقت تک ٹھہرے رہتے کہ سورج ڈھل جائے ، ہوائیں چلنے لگیں ، نمازوں کا وقت آن پہنچے ۔

Selon Bakr ibn 'Abd Allah alMuzany et Ziyâd ibn Jubayr, Jubayr ibn Hayya dit: «'Umar avait envoyé plusieurs expéditions vers les grandes villes pour combattre les Associants... [Et il arriva ensuite] qu'alHurmuzân embrassa l'Islam. Alors 'Umar lui dit: Je veux te consulter au sujet de mes expéditionsci... — Certainement, accepta alHurmuzân. Le cas de ces expéditions et des hommes qui sont aux pays ennemis des Musulmans ressemble à un oiseau ayant une tête, des ailes et des pattes. Si l'une des deux ailes se cassait, resteraient alors les deux pattes pour supporter l'aile [restante] et la tête; si l'autre aile se cassait à son tour, resteraient alors les deux pattes et la tête; mais si c'est la tête qui est broyée, il ne restera ni pattes ni ailes ni tête. Or la tête, c'est Khosroês; quant à Héraclius, il forme l'une des deux ailes; l'autre aile est la Perse. Donne donc l'ordre aux Musulmans d'attaquer Khosroês. «En effet, 'Umar nous appela et désigna à notre tête anNu'mân ibn Muqarrin. Une fois dans les terres de l'ennemi surgit soudainement le gouverneur de Khosroês avec quarante mille hommes. Un interprète parut alors et dit: Qu'un homme parmi vous vienne me parler! — Demande ce que tu veux, lui dit alMughîra. — Qu'êtesvous? — Nous sommes des Arabes. Nous vivions dans un grand malheur et une dure détresse; nous sucions le cuir et les noyaux [de dattes] à cause de la famine; nous nous vêtions de poils et nous adorions les arbres et les pierres... Ainsi était notre situation quand le Seigneur des cieux et des terres, glorifié soit Son nom et magnifiée soit Sa grandeur! nous envoya un prophète faisant partie de nous et dont nous connaissons le père et la mère. Il, notre prophète et messager de notre Seigneur, nous ordonna de vous combattre jusqu'à ce que vous adoriez Allah seul, ou que vous payiez le tribut. De plus, il nous informa du message de notre Seigneur: celui d'entre nous qui tombe [dans la bataille] ira au Paradis [et y sera] dans des délices dont il n'avait jamais vu de pareil; quant à ceux d'entre nous qui restent en vie, ils auront possession de vos nuques.

شرح الحديث من إرشاد الساري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،   
[ قــ :3016 ... غــ : 3159 ]
- حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ وَزِيَادُ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ قَالَ: "بَعَثَ عُمَرُ النَّاسَ فِي أَفْنَاءِ الأَمْصَارِ يُقَاتِلُونَ الْمُشْرِكِينَ، فَأَسْلَمَ الْهُرْمُزَانُ، فَقَالَ: إِنِّي مُسْتَشِيرُكَ فِي مَغَازِيَّ هَذِهِ.
قَالَ: نَعَمْ، مَثَلُهَا وَمَثَلُ مَنْ فِيهَا مِنَ النَّاسِ مِنْ عَدُوِّ الْمُسْلِمِينَ مَثَلُ طَائِرٍ لَهُ رَأْسٌ وَلَهُ جَنَاحَانِ وَلَهُ رِجْلاَنِ، فَإِنْ كُسِرَ أَحَدُ الْجَنَاحَيْنِ نَهَضَتِ الرِّجْلاَنِ بِجَنَاحٍ وَالرَّأْسُ.
فَإِنْ كُسِرَ الْجَنَاحُ الآخَرُ نَهَضَتِ الرِّجْلاَنِ وَالرَّأْسُ.
وَإِنْ شُدِخَ الرَّأْسُ ذَهَبَتِ الرِّجْلاَنِ وَالْجَنَاحَانِ وَالرَّأْسُ.
فَالرَّأْسُ كِسْرَى وَالْجَنَاحُ قَيْصَرُ وَالْجَنَاحُ الآخَرُ فَارِسُ.
فَمُرِ الْمُسْلِمِينَ فَلْيَنْفِرُوا إِلَى كِسْرَى.
.

     وَقَالَ  بَكْرٌ وَزِيَادٌ جَمِيعًا عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ قَالَ: فَنَدَبَنَا عُمَرُ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْنَا النُّعْمَانَ بْنَ مُقَرِّنٍ.
حَتَّى إِذَا كُنَّا بِأَرْضِ الْعَدُوِّ، وَخَرَجَ عَلَيْنَا عَامِلُ كِسْرَى فِي أَرْبَعِينَ أَلْفًا، فَقَامَ تُرْجُمَانٌ فَقَالَ:
لِيُكَلِّمْنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ.
فَقَالَ الْمُغِيرَةُ: سَلْ عَمَّا شِئْتَ.
قَالَ: مَا أَنْتُمْ؟ قَالَ: نَحْنُ أُنَاسٌ مِنَ الْعَرَبِ كُنَّا فِي شَقَاءٍ شَدِيدٍ وَبَلاَءٍ شَدِيدٍ.
نَمَصُّ الْجِلْدَ وَالنَّوَى مِنَ الْجُوعِ.
وَنَلْبَسُ الْوَبَرَ وَالشَّعَرَ.
وَنَعْبُدُ الشَّجَرَ وَالْحَجَرَ.
فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الأَرَضِينَ -تَعَالَى ذِكْرُهُ وَجَلَّتْ عَظَمَتُهُ- إِلَيْنَا نَبِيًّا مِنْ أَنْفُسِنَا نَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ فَأَمَرَنَا نَبِيُّنَا رَسُولُ رَبِّنَا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَنْ نَقَاتِلَكُمْ حَتَّى تَعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ، أَوْ تُؤَدُّوا الْجِزْيَةَ.
وَأَخْبَرَنَا نَبِيُّنَا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عَنْ رِسَالَةِ رَبِّنَا أَنَّهُ مَنْ قُتِلَ مِنَّا صَارَ إِلَى الْجَنَّةِ فِي نَعِيمٍ لَمْ يَرَ مِثْلَهَا قَطُّ.
وَمَنْ بَقِيَ مِنَّا مَلَكَ رِقَابَكُمْ" [الحديث 3159 - طرفه في: 7530] .

وبه قال: ( حدّثنا الفضل بن يعقوب) البغدادي قال: ( حدّثنا عبد الله بن جعفر الرقي) بفتح الراء وكسر القاف المشددتين نسبة إلى الرقة مدينة بالقرب من الفرات قال: ( حدّثنا المعتمر بن سليمان) بسكون العين المهملة وفتح الفوقية وكسر الميم وليس هو المعمر بفتح المهملة وتشديد الميم المفتوحة ولا المعمر بسكون العين ابن راشد قال: ( حدّثنا سعيد بن عبيد الله) بضم العين وفتح الموحدة مصغرًا ابن جبير بن حيّة ( الثقفي) قال: ( حدّثنا بكر بن عبد الله) بسكون الكاف ( المزني) البصري ( وزياد بن جبير) بضم الجيم وفتح الموحدة وهو عم سعيد بن عبيد الله كلاهما ( عن) والد زياد ( جبير بن حية) بفتح الحاء المهملة والتحتية المشددة ابن مسعود الثقفي أنه ( قال: بعث عمر) بن الخطاب -رضي الله عنهما- ( الناس في أفناء الأمصار) بفتح الهمزة وسكون الفاء وفتح النون ممدودًا والأمصار بالميم ولم أره بالنون في أصل من الأصول والمصر المدينة العظيمة ( يقاتلون المشركين) فلما كانوا بالقادسية أتاهم في الجيش الذين أرسلهم يزدجرد إلى قتال المسلمين فوقع بينهم قتال عظيم لم يعهد مثله مستهل المحرم سنة أربع عشرة وأبلى في ذلك اليوم جماعة من الشجعان كطليحة الأسدي وعمرو بن معد يكرب وضرار بن الخطاب، وأرسل الله تعالى في ذلك اليوم ريحًا شديدة أرمت خيام الفرس من أماكنها وهرب رستم مقدم الجيش وأدركه المسلمون وقتلوه وانهزمت الفرس، وقتل المسلمون منهم خلقًا كثيرًا ولم يزل المسلمون وراءهم إلى أن دخلوا مدينة الملك وهي المدائن التي فيها إيوان كسرى وكان الهرمزان بضم الهاء وسكون الراء وضم الميم وتخفيف الزاي واسمه رستم من جملة الهاربين ووقعت بينه وبين المسلمين وقعة ثم وقع الصلح بينه وبينهم ثم نقضه، فجمع أبو موسى الأشعري -رضي الله عنه- الجيش وحاصروه فسأل الأمان إلى أن يحمل إلى عمر -رضي الله عنه- فوجهه أبو موسى الأشعري -رضي الله عنه- مع أنس إليه ( فأسلم الهرمزان) طائعًا وصار عمر يقربه ويستشيره ( فقال) له: ( إني مستشيرك في مغازي هذه) بتشديد ياء مغازي أي فارس وأصبهان وأذربيجان كما عند ابن أبي شيبة أي بأيها نبدأ لأن الهرمزان كان أعلم بشأنها من غيره.
( قال) الهرمذان: ( نعم مثلها) أي الأرض التي دل عليها السياق ( ومثل من فيها من الناس من عدوّ المسلمين مثل طائر له رأس) برفع مثل خبر المبتدأ الذي هو مثلها وما بعده عطف عليه ( وله جناحان وله رجلان فإن كسر) بضم الكاف مبنيًّا للمفعول ( أحد الجناحين نهضت الرجلان بجناح والرأس) بالرفع عطفًا على الرجلان ولأبي ذرّ والرأس بالجر عطفًا على بجناح ( فإن
كسر الجناح الآخر نهضت الرجلان والرأس وإن شدخ)
بضم الشين المعجمة بعد الدال المهملة المكسورة خاء معجمة أي كسر ( الرأس ذهبت الرجلان والجناحان والرأس) فإذا فات الرأس فات الكل ( فالرأس كسرى) بكسر الكاف وتفتح ( والجناح قيصر) غير منصرف صاحب الروم ( والجناح الآخر فارس) غير منصرف اسم الجبل المعروف من العجم، وتعقب هذا بأن كسرى لم يكن رأسًا للروم.
وأجيب: بأن كسرى كان رأس الكل لأنه لم يكن في زمانه ملك أكبر منه لأن سائر ملوك البلاد كانت تهادنه وتهاديه ولم يقل في الحديث والرجلان اكتفاء بالسابق للعلم به فرجل قيصر الفرنج مثلاً لاتصالها به وكسرى الهند مثلاً قاله الكرماني ( فمر المسلمين فلينفروا) بكسر الفاء ( إلى كسرى) فإنه الرأس وبقطعها يبطل الجناحان.

( وقال بكر) هو ابن عبد الله المزني ( وزياد) هو ابن جبير ( جميعًا عن جبير بن حيّة فندبنا) بفتح الدال والموحدة أي طلبنا ودعانا ( عمر) -رضي الله عنه- للغزو ( واستعمل علينا النعمان بن مقرن) بالميم المضمومة والقاف المفتوحة وبعد الراء المشددة المكسورة نون المزني الصحابي أميرًا ( حتى إذا) أي سرنا حتى إذا ( كنا بأرض العدوّ) وهي نهاوند وكان قد خرج معهم فيما رواه ابن أبي شيبة الزبير وحذيفة وابن عمرو الأشعث وعمرو بن معد يكرب ( وخرج) بالواو وسقطت لأبي ذر وابن عساكر ( علينا عامل كسرى) بندار كما عند الطبراني من رواية مبارك بن فضالة وعند ابن أبي شيبة ذو الجناحين ( في أربعين ألفًا) من أهل فارس وكرمان ومن غيرهما كنهاوند وأصبهان مائة ألف وعشرة آلاف ( فقام ترجمان) بفتح أوّله وضمه لهم لم يسم ( فقال: ليكلمني رجل منكم) بالجزم على الأمر ( فقال المغيرة) : أي ابن شعبة الصحابي ( سل عما) بألف ولأبي ذر وابن عساكر عم ( شئت؟ قال) : أي الترجمان ولأبوي الوقت وذر فقال ( ما أنتم؟) بصيغة من لا يعقل احتقارًا ( قال) : أي المغيرة ( نحن أناس من العرب كنا في شقاء شديد وبلاء شديد نمص الجلد) بفتح الميم في الفرع وأصله ( والنوى من الجوع ونلبس الوبر والشعر ونعبد الشجر والحجر فبينا) بغير ميم ( نحن كذلك إذ بعث رب السماوات ورب الأرضين) بفتح الراء ( تعالى ذكره وجلت عظمته إلينا نبيًّا من أنفسنا نعرف أباه وأمه) زاد في رواية ابن أبي شيبة في شرف منا أوسطنا حسبًا وأصدقنا حديثًا ( فأمرنا نبينا رسول ربنا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أن نقاتلكم حتى تعبدوا الله وحده أو تؤدّوا الجزية) وهذا موضع الترجمة وفيه دلالة على جواز أخذها من المجوس لأنهم كانوا مجوسًا.
( وأخبرنا نبينا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عن رسالة ربنا أنه من قتل منا) أي في الجهاد ( صار إلى الجنة في نعيم لم ير مثلها) أي الجنة ( قط.
ومن بقي منا ملك رقابكم)
.
بالأسر وفيه كما قاله الكرماني فصاحة المغيرة من حيث إن كلامه مبين لأحوالهم فيما يتعلق بدنياهم من المطعوم والملبوس وبدينهم من العبادة وبمعاملتهم مع الأعداء من طلب التوحيد أو الجزية ولمعادهم في الآخرة إلى كونهم في الجنة وفي الدنيا إلى كونهم ملوكًا ملاكًا للرقاب.


[ قــ :3016 ... غــ : 3160 ]
- فَقَالَ النُّعْمَانُ: رُبَّمَا أَشْهَدَكَ اللَّهُ مِثْلَهَا مَعَ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَلَمْ يُنَدِّمْكَ وَلَمْ يُخْزِكَ وَلَكِنِّي
شَهِدْتُ الْقِتَالَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، كَانَ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ انْتَظَرَ حَتَّى تَهُبَّ الأَرْوَاحُ وَتَحْضُرَ الصَّلَوَاتُ".

( فقال النعمان) بن مقرن للمغيرة بن شعبة لما أنكر عليه تأخير القتال وذلك أن المغيرة كان قصد الاشتغال بالقتال أوّل النهار بعد الفراغ من المكالمة مع الترجمان: ( ربما أشهدك الله) أي أحضرك ( مثلها) مثل هذه الوقعة ( مع النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) وانتظر بالقتال إلى الهبوب ( فلم يندمك) على التأني والصبر ( ولم يخزك) بالخاء المعجمة بغير نون، ولأبي ذر عن الكشميهني: ولم يحزنك بالحاء المهملة والنون والأوّل أوجه لوفاق سابقه فطلبك العجلة لأنك لم تضبط، ( ولكني شهدت القتال مع رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) وضبطت ( كان إذا لم يقاتل في أوّل النهار انتظر) بالقتال ( حتى تهب الأرواح) جمع ريح بالياء وأصله روح بالواو بدليل الجمع الذي غالب حاله أن يردّ الشيء إلى أصله فقلبت واو المفرد ياء لسكونها وانكسار ما قبلها وحكى ابن جني في جمعه أرياح قال الزركشي لما رآهم قالوا رياح.
قال في المصابيح: إن اعتماد صاحب هذا القول على رياح وهم لأن موجب قلب الواو في رياح ثابت لانكسار ما قبلها كحياض جمع حوض ورياض جمع روض والمقتضي للقلب في أرياح مفقود والمعتمد في هذا إنما هو السماع اهـ.
وفي القاموس جمع الريح أرواح وأرياح ورياح وريح كعنب وجمع الجمع أراويح وأراييح.

( وتحضر الصلوات) بعد زوال الشمس كما عند ابن أبي شيبة وزاد في رواية الطبري ويطيب القتال وعند ابن أبي شيبة: وينزل النصر.

وفيه فضيلة القتال بعد الزوال، ويطابق الترجمة أيضًا في تأخير النعمان المقاتلة وانتظار هبوب الرياح وهذه موادعة في هذا الزمان مع الإمكان للمصلحة.