هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
2596 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَامِرًا ، يَقُولُ : حَدَّثَنِي جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : أَنَّهُ كَانَ يَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ قَدْ أَعْيَا ، فَمَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَضَرَبَهُ فَدَعَا لَهُ ، فَسَارَ بِسَيْرٍ لَيْسَ يَسِيرُ مِثْلَهُ ، ثُمَّ قَالَ : بِعْنِيهِ بِ وَقِيَّةٍ ، قُلْتُ : لاَ ، ثُمَّ قَالَ : بِعْنِيهِ بِوَقِيَّةٍ ، فَبِعْتُهُ ، فَاسْتَثْنَيْتُ حُمْلاَنَهُ إِلَى أَهْلِي ، فَلَمَّا قَدِمْنَا أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ وَنَقَدَنِي ثَمَنَهُ ، ثُمَّ انْصَرَفْتُ ، فَأَرْسَلَ عَلَى إِثْرِي ، قَالَ : مَا كُنْتُ لِآخُذَ جَمَلَكَ ، فَخُذْ جَمَلَكَ ذَلِكَ ، فَهُوَ مَالُكَ ، قَالَ شُعْبَةُ : عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ جَابِرٍ : أَفْقَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ إِلَى المَدِينَةِ ، وَقَالَ إِسْحَاقُ : عَنْ جَرِيرٍ ، عَنْ مُغِيرَةَ : فَبِعْتُهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرِهِ ، حَتَّى أَبْلُغَ المَدِينَةَ ، وَقَالَ عَطَاءٌ ، وَغَيْرُهُ : لَكَ ظَهْرُهُ إِلَى المَدِينَةِ وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ المُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ : شَرَطَ ظَهْرَهُ إِلَى المَدِينَةِ ، وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ : عَنْ جَابِرٍ : وَلَكَ ظَهْرُهُ حَتَّى تَرْجِعَ ، وَقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ : عَنْ جَابِرٍ : أَفْقَرْنَاكَ ظَهْرَهُ إِلَى المَدِينَةِ ، وَقَالَ الأَعْمَشُ : عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ جَابِرٍ : تَبَلَّغْ عَلَيْهِ إِلَى أَهْلِكَ ، وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ ، وَابْنُ إِسْحَاقَ : عَنْ وَهْبٍ ، عَنْ جَابِرٍ : اشْتَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَقِيَّةٍ . وَتَابَعَهُ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ جَابِرٍ ، وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : عَنْ عَطَاءٍ ، وَغَيْرِهِ ، عَنْ جَابِرٍ : أَخَذْتُهُ بِأَرْبَعَةِ دَنَانِيرَ ، وَهَذَا يَكُونُ وَقِيَّةً عَلَى حِسَابِ الدِّينَارِ بِعَشَرَةِ دَرَاهِمَ وَلَمْ يُبَيِّنِ الثَّمَنَ ، مُغِيرَةُ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ جَابِرٍ ، وَابْنُ المُنْكَدِرِ ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، وَقَالَ الأَعْمَشُ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ جَابِرٍ : وَقِيَّةُ ذَهَبٍ ، وَقَالَ أَبُو إِسْحَاقَ : عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ جَابِرٍ : بِمِائَتَيْ دِرْهَمٍ ، وَقَالَ دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ ، عَنْ جَابِرٍ : اشْتَرَاهُ بِطَرِيقِ تَبُوكَ ، أَحْسِبُهُ قَالَ : بِأَرْبَعِ أَوَاقٍ ، وَقَالَ أَبُو نَضْرَةَ : عَنْ جَابِرٍ : اشْتَرَاهُ بِعِشْرِينَ دِينَارًا وَقَوْلُ الشَّعْبِيِّ : بِوَقِيَّةٍ أَكْثَرُ الِاشْتِرَاطُ أَكْثَرُ وَأَصَحُّ عِنْدِي قَالَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
2596 حدثنا أبو نعيم ، حدثنا زكرياء ، قال : سمعت عامرا ، يقول : حدثني جابر رضي الله عنه : أنه كان يسير على جمل له قد أعيا ، فمر النبي صلى الله عليه وسلم ، فضربه فدعا له ، فسار بسير ليس يسير مثله ، ثم قال : بعنيه ب وقية ، قلت : لا ، ثم قال : بعنيه بوقية ، فبعته ، فاستثنيت حملانه إلى أهلي ، فلما قدمنا أتيته بالجمل ونقدني ثمنه ، ثم انصرفت ، فأرسل على إثري ، قال : ما كنت لآخذ جملك ، فخذ جملك ذلك ، فهو مالك ، قال شعبة : عن مغيرة ، عن عامر ، عن جابر : أفقرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ظهره إلى المدينة ، وقال إسحاق : عن جرير ، عن مغيرة : فبعته على أن لي فقار ظهره ، حتى أبلغ المدينة ، وقال عطاء ، وغيره : لك ظهره إلى المدينة وقال محمد بن المنكدر ، عن جابر : شرط ظهره إلى المدينة ، وقال زيد بن أسلم : عن جابر : ولك ظهره حتى ترجع ، وقال أبو الزبير : عن جابر : أفقرناك ظهره إلى المدينة ، وقال الأعمش : عن سالم ، عن جابر : تبلغ عليه إلى أهلك ، وقال عبيد الله ، وابن إسحاق : عن وهب ، عن جابر : اشتراه النبي صلى الله عليه وسلم بوقية . وتابعه زيد بن أسلم ، عن جابر ، وقال ابن جريج : عن عطاء ، وغيره ، عن جابر : أخذته بأربعة دنانير ، وهذا يكون وقية على حساب الدينار بعشرة دراهم ولم يبين الثمن ، مغيرة ، عن الشعبي ، عن جابر ، وابن المنكدر ، وأبو الزبير ، عن جابر ، وقال الأعمش ، عن سالم ، عن جابر : وقية ذهب ، وقال أبو إسحاق : عن سالم ، عن جابر : بمائتي درهم ، وقال داود بن قيس ، عن عبيد الله بن مقسم ، عن جابر : اشتراه بطريق تبوك ، أحسبه قال : بأربع أواق ، وقال أبو نضرة : عن جابر : اشتراه بعشرين دينارا وقول الشعبي : بوقية أكثر الاشتراط أكثر وأصح عندي قاله أبو عبد الله
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated Jabir:

While I was riding a (slow) and tired camel, the Prophet (ﷺ) passed by and beat it and prayed for Allah's Blessings for it. The camel became so fast as it had never been before. The Prophet (ﷺ) then said, Sell it to me for one Uqiyya (of gold). I said, No. He again said, Sell it to me for one Uqiyya (of gold). I sold it and stipulated that I should ride it to my house. When we reached (Medina) I took that camel to the Prophet (ﷺ) and he gave me its price. I returned home but he sent for me (and when I went to him) he said, I will not take your camel. Take your camel as a gift for you. (Various narrations are mentioned here with slight variations in expressions relating the condition that Jabir had the right to ride the sold camel up to Medina).

(2718) D’après ‘Amir, Jâbir [rapporte] qu’il était sur un chameau fatigué lorsque

":"ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے عامر سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہوہ ( ایک غزوہ کے موقع پر ) اپنے اونٹ پر سوار آ رہے تھے ، اونٹ تھک گیا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کو ایک ضرب لگائی اور اس کے حق میں دعا فرمائی ، چنانچہ اونٹ اتنی تیزی سے چلنے لگا کہ کبھی اس طرح نہیں چلا تھا ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اسے ایک اوقیہ میں مجھے بیچ دو ۔ میں نے انکار کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر پھر میں نے آپ کے ہاتھ بیچ دیا ، لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرا لیا ۔ پھر جب ہم ( مدینہ ) پہنچ گئے ، تو میں نے اونٹ آپ کو پیش کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت بھی ادا کر دی ، لیکن جب میں واپس ہونے لگا تو میرے پیچھے ایک صاحب کو مجھے بلانے کے لیے بھیجا ( میں حاضر ہوا تو ) آپ نے فرمایا کہ میں تمہارا اونٹ کوئی لے تھوڑا ہی رہا تھا ، اپنا اونٹ لے جاؤ ، یہ تمہارا ہی مال ہے ۔ ( اور قیمت واپس نہیں لی ) شعبہ نے مغیرہ کے واسطے سے بیان کیا ، ان سے عامر نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تک اونٹ پر مجھے سوار ہونے کی اجازت دی تھی ، اسحاق نے جریر سے بیان کیا اور ان سے مغیرہ نے کہ ( جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ) پس میں نے اونٹ اس شرط پر بیچ دیا کہ مدینہ پہنچنے تک اس پر میں سوار رہوں گا ۔ عطاء وغیرہ نے بیان کیا کہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ) اس پر مدینہ تک کی سواری تمہاری ہے ۔ محمد بن منکدر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ انہوں نے مدینہ تک سواری کی شرط لگائی تھی ۔ زید بن اسلم نے جابر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا کہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ) مدینہ تک اس پر تم ہی رہو گے ۔ ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ مدینہ تک کی سواری کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دی تھی ۔ اعمش نے سالم سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) اپنے گھر تک تم اسی پر سوار ہو کے جاؤ ۔ عبیداللہ اور ابن اسحاق نے وہب سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ اونٹ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اوقیہ میں خریدا تھا ۔ اس روایت کی متابعت زید بن اسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے کی ہے ۔ ابن جریج نے عطاء وغیرہ سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے ( کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ) میں تمہارا یہ اونٹ چار دینار میں لیتا ہوں ، اس حساب سے کہ ایک دینار دس درہم کا ہوتا ہے ، چار دینار کا ایک اوقیہ ہو گا ۔ مغیرہ نے شعبی کے واسطہ سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے ( ان کی روایت میں اور ) اسی طرح ابن المنکدر اور ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں قیمت کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اعمش نے سالم سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں ایک اوقیہ سونے کی وضاحت کی ہے ۔ ابواسحاق نے سالم سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں دو سو درہم بیان کیے ہیں اور داود بن قیس نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ بن مقسم نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ تبوک کے راستے میں ( غزوہ سے واپس ہوتے ہوئے ) خریدا تھا ۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا کہ چار اوقیہ میں ( خریدا تھا ) ابونضرہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت میں بیان کیا کہ بیس دینار میں خریدا تھا ۔ شعبی کے بیان کے مطابق ایک اوقیہ ہی زیادہ روایتوں میں ہے ۔ اسی طرح شرط لگانا بھی زیادہ روایتوں سے ثابت ہے اور میرے نزدیک صحیح بھی یہی ہے ، یہ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے فرمایا ۔

(2718) D’après ‘Amir, Jâbir [rapporte] qu’il était sur un chameau fatigué lorsque

شرح الحديث من عمدة القاري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    (بابٌُ إِذا اشتَرَطَ الْبَائِعُ ظَهْرَ الدَّابَّةِ إِلَى مكانٍ مُسَمَّى جازَ)

أَي: هَذَا بابُُ يذكر فِيهِ إِذا اشْترط البَائِع ظهر الدَّابَّة الَّتِي بَاعهَا يَعْنِي: اشْترط ركُوبهَا إِلَى مَكَان مُسَمّى معِين جَازَ هَذَا البيع، وَإِنَّمَا أطلقهُ مَعَ أَن فِيهِ الْخلاف، لِأَنَّهُ يرى بِصِحَّة هَذَا البيع لصِحَّة الدَّلِيل وقوته عِنْده، وَبِه قَالَ أَيْضا جمَاعَة وهم: الْأَوْزَاعِيّ وَمَالك وَأحمد وَإِسْحَاق وَأَبُو ثَوْر وَابْن الْمُنْذر، فَإِنَّهُم قَالُوا: (إِذا بَاعَ من رجل دَابَّة بِثمن مَعْلُوم على أَن يركبهَا البَائِع.
أَن البيع جَائِز، وَالشّرط جَائِز، وَاحْتَجُّوا فِي ذَلِك بِحَدِيث جَابر، هَذَا.

     وَقَالَ : فرقة: (البيع جَائِز وَالشّرط بَاطِل) وهم: ابْن أبي ليلى وَأحمد فِي رِوَايَة وَأَشْهَب من الْمَالِكِيَّة،.

     وَقَالَ  آخَرُونَ: البيع فَاسد، وهم: أَبُو حنيفَة وَأَبُو يُوسُف وَمُحَمّد وَالشَّافِعِيّ، وَقد بسطنا الْكَلَام فِيهِ فِي كتاب الْبيُوع.



[ قــ :2596 ... غــ :2718 ]
- حدَّثنا أبُو نُعَيْمٍ قَالَ حدَّثنا زَكَرِيَّاءُ قَالَ سَمِعْتُ عامِرَاً يَقُولُ حدَّثني جابِرٌ رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ أنَّهُ كانَ يَسِيرُ علَى جَمَلٍ لهُ قَدْ أعْيَا فمَرَّ النبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَضَرَبَهُ فَدَعَا لَهُ فَسارَ بِسَيْر لَيْسَ يَسِيِرُ مِثْلَهُ ثُمَّ قالَ بِعْنِيهِ بِوَقِيَّةَ قلْتُ لَا ثُمَّ قَالَ بِعْنِيهِ بِوَقِيَّةٍ فَبِعْتُهُ فاسْتَثْنَيْتُ حُمْلانَهُ إِلَى أهْلِي فلَمَّا قَدِمْنَا أتَيْتُهُ بالجَمَلِ ونَقَدَنِي ثَمَنَهُ ثمَّ انْصَرَفْتُ فأرْسَلَ عَلَى إثْرِي قَالَ مَا كُنْتُ لِآخُذَ جَمَلَكَ فَخُذْ جَمَلَكَ ذالِكَ فَهْوَ مالُكَ.

.
مطابقته للتَّرْجَمَة فِي قَوْله: (فَبِعْته فاستثنيت حملانه إِلَى أَهلِي، فَإِنَّهُ بيع فِيهِ شَرط ركُوب الدَّابَّة إِلَى مَكَان مُسَمّى، وَهُوَ الْمَدِينَة، وَكَانَ بَينه وَبَين الْمَدِينَة ثَلَاثَة أَيَّام، وَمن هَذَا قَالَ مَالك: إِن كَانَ الِاشْتِرَاط فِي الرّكُوب إِلَى مَكَان قريب: كَالْيَوْمِ واليومين وَالثَّلَاثَة، فَالْبيع جَائِز، وَإِن كَانَ أَكثر من ذَلِك فَلَا يجوز.

وَأَبُو نعيم، بِضَم النُّون: الْفضل بن دُكَيْن، وزكرياء هُوَ ابْن أبي زَائِدَة الْكُوفِي، وعامر هُوَ الشّعبِيّ.
والْحَدِيث مضى فِي الاستقراض وَغَيره، وَمضى الْكَلَام فِيهِ هُنَاكَ، ولنتكلم أَيْضا لزِيَادَة الْفَائِدَة، وَإِن وَقع مكرراً.

قَوْله: (قد أعيى) أَي: تَعب.
قَوْله: (فَضَربهُ فَدَعَا لَهُ) كَذَا بِالْفَاءِ فيهمَا، كَأَنَّهُ عقب الدُّعَاء لَهُ بضربه، وَفِي رِوَايَة مُسلم وَأحمد من هَذَا الْوَجْه: فَضَربهُ بِرجلِهِ ودعا لَهُ، وَفِي رِوَايَة يُونُس بن بكير عَن زَكَرِيَّاء عِنْد الْإِسْمَاعِيلِيّ، فَضَربهُ ودعا لَهُ فَمشى مشْيَة مَا مَشى قبل ذَلِك مثلهَا وَفِي رِوَايَة مُغيرَة: فزجره ودعا لَهُ، وَفِي رِوَايَة عَطاء وَغَيره عَن جَابر الَّتِي تقدّمت فِي الْوكَالَة: فَمر بِي النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَ: من هَذَا؟ قلت: جَابر بن عبد الله.
قَالَ: مَالك؟ قلت: إِنِّي على جمل ثقال، فَقَالَ: أَمَعَك قضيب؟ قلت: نعم.
قَالَ: أعطنيه.
فأعطيته فَضَربهُ فزجره، فَكَانَ من ذَلِك الْمَكَان من أول الْقَوْم.
وَفِي رِوَايَة النَّسَائِيّ، من هَذَا الْوَجْه: فأزحف، فزجره النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، فانبسط حَتَّى كَانَ أَمَام الْجَيْش، وَفِي رِوَايَة وهب بن كيسَان عَن جَابر الَّتِي تقدّمت فِي الْبيُوع: (فَتخلف فَنزل فحجنه بِمِحْجَنِهِ) ، ثمَّ قَالَ لي: إركب، فركبته فقد رَأَيْته أكفه عَن رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَعند أَحْمد، من هَذَا الْوَجْه: قلت: يَا رَسُول الله أَبْطَأَ بِي جملي هَذَا.
قَالَ: أنخه، وأناخ رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، ثمَّ قَالَ: أَعْطِنِي هَذِه الْعَصَا، أَو إقطع لي عَصا من هَذِه الشَّجَرَة، فَقطعت، فَأَخذهَا فنخسه بهَا نخسات، ثمَّ قَالَ: إركب، فركبت.
وَفِي رِوَايَة الطَّبَرَانِيّ من حَدِيث زيد ابْن أسلم عَن جَابر: فَأَبْطَأَ عَليّ جملي حَتَّى ذهب النَّاس، فَجعلت أرقبه ويهمني شَأْنه، فَإِذا النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، فَقَالَ: أجابر؟ قلت: نعم.
قَالَ: مَا شَأْنك؟ قلت: أَبْطَأَ عَليّ جملي، فنفث فِيهَا، أَي: فِي الْعَصَا.
ثمَّ مج من المَاء فِي نَحره، ثمَّ ضربه بالعصا، فانبعث فَمَا كدت أمْسكهُ، وَفِي رِوَايَة أبي الزبير عَن جَابر عِنْد مُسلم، فَكنت بعد ذَلِك أحبس خطامه لأسْمع حَدِيثه، وَله من طَرِيق أبي نَضرة عَن جَابر: فنخسه ثمَّ قَالَ: إركب بِسم الله، زَاد فِي رِوَايَة مُغيرَة، فَقَالَ: كَيفَ ترى بعيرك؟ قلت: بِخَير، قد أَصَابَته بركتك.
قَوْله: (فَسَار بسير) ، سَار ماضٍ، وبسير: جَار ومجرور، ومصدر لَيْسَ يسير بِلَفْظ فعل الْمُضَارع.
قَوْله: (بعنيه بوقية) ، بِفَتْح الْوَاو وَحذف الْألف فِيهِ، لُغَة، قَالَ الْجَوْهَرِي: وَهِي أَرْبَعُونَ درهما.
قلت: كَانَ هَذَا فِي عرفهم فِي ذَلِك الزَّمَان، وَفِي عرف النَّاس بعد ذَلِك عشرَة دَرَاهِم، وَفِي عرف أهل مصر الْيَوْم اثْنَي عشر درهما، وَفِي عرف أهل الشَّام: خَمْسُونَ درهما، وَفِي عرف أهل حلب: سِتُّونَ درهما، وَفِي عرف أهل عينتاب: مائَة دِرْهَم، وَفِي عرض بعض أهل الرّوم: مائَة وَخَمْسُونَ درهما، وَفِي مَوَاضِع أَكثر من ذَلِك، حَتَّى إِن موضعا فِيهِ الوقية ألف دِرْهَم.
قَوْله: (قلت: لَا) أَي: لَا أبيعه.
قَالَ ابْن التِّين: قَوْله: لَا، لَيْسَ بِمَحْفُوظ إلاَّ أَن يُرِيد: لَا أبيعكه، هُوَ لَك بِغَيْر ثمن.
قلت: كَأَن ابْن التِّين نزه جَابِرا عَن قَوْله: لَا، لسؤال النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَلكنه ثَبت قَوْله لَا وَلَكِن مَعْنَاهُ لَا أبيع بل أهبه لَك وَالنَّفْي يوتوجه لترك البيع لَا الْكَلَام رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَالدَّلِيل عَلَيْهِ رِوَايَة وهب بن كيسَان عَن جَابر عِنْد أَحْمد: أتبيعني جملك هَذَا يَا جَابر؟ قلت: بل أهبه لَك.
فَإِن قلت: جَاءَ فِي رِوَايَة أَحْمد: فَكرِهت أَن أبيعه.
قلت: كَرَاهَته لوُقُوع صُورَة البيع بَينه وَبَين رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم.
لِأَن قَصده كَانَ صُورَة الْهِبَة فالكراهة لَا ترجع إِلَى سُؤال الرَّسُول عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام وَلكنه لما سَأَلَهُ ثَانِيًا أجَاب بِالْبيعِ امتثالاً لكَلَامه، وَمَعَ هَذَا أَخذ الثّمن، والجمل على مَا دلّ عَلَيْهِ الحَدِيث.
قَوْله: (فاستثنيت حملانه) بِضَم الْحَاء أَي: حمله، أَي: اشْترطت أَن يكون لي حق الْحمل عَلَيْهِ إِلَى الْمَدِينَة، كَأَنَّهُ اسْتثْنى هَذَا الْحق من حُقُوق البيع، وَفِي رِوَايَة الْإِسْمَاعِيلِيّ بِلَفْظ: واستثنيت ظَهره إِلَى أَن تقدم.
قَوْله: (فَلَمَّا قدمنَا) أَي: الْمَدِينَة، وَفِي رِوَايَة مُغيرَة عَن الشّعبِيّ الْمُتَقَدّمَة فِي الاستقراض: فَلَمَّا دنونا من الْمَدِينَة استأذنته، فَقَالَ: تزوجت بكرا أم ثَيِّبًا.
وَسَيَأْتِي فِي النِّكَاح، فَقدمت الْمَدِينَة فَأخْبرت خَالِي بِبيع الْجمل، فلامني، وَفِي رِوَايَة أَحْمد من رِوَايَة نُبيح: أتيت عَمَّتي بِالْمَدِينَةِ فَقلت لَهَا: ألم تري أَنِّي بِعْت ناضحنا؟ فَمَا رَأَيْتهَا أعجبها.
قلت: نُبيح، بِضَم النُّون وَفتح الْبَاء الْمُوَحدَة وَسُكُون الْيَاء آخر الْحُرُوف وَفِي آخِره حاء مُهْملَة: وَاسم خَال جَابر، جد، بِفَتْح الْجِيم وَتَشْديد الدَّال.
ابْن قيس، وَاسم عمته.
هِنْد بنت عمر.
وَقَوله: (على إثري) بِكَسْر الْهمزَة أَي: ورائي.
قَوْله: (مَا كنت لآخذ جملك) وَوَقع فِي رِوَايَة أبي نعيم، شيخ البُخَارِيّ بِلَفْظ: أَترَانِي إِنَّمَا ماكستك لآخذ جملك ودراهمك؟ همالك.
قَوْله: (ماكستك) من المماكسة أَي: المناقصة فِي الثّمن، وَوَقع فِي رواي الْبَزَّار، من طَرِيق أبي المتَوَكل عَن جَابر: أَن الْجمل كَانَ أَحْمَر.

قَالَ شُعْبَةُ عنْ مُغِيرَةَ عنْ عامِرِ عنْ جابِرٍ أفْقَرني رسولُ الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ظَهْرَهُ إِلَى المَدِينَةِ
أَشَارَ البُخَارِيّ بِهَذَا، وَبِمَا بعده إِلَى اخْتِلَاف أَلْفَاظ جَابر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، مُغيرَة هُوَ ابْن مقسم الْكُوفِي، وعامر هُوَ الشّعبِيّ وَهَذَا التَّعْلِيق وَصله الْبَيْهَقِيّ من طَرِيق يحيى بن كثير عَنهُ.
قَوْله: أفقرني، بِتَقْدِيم الْفَاء على الْقَاف، أَي: حَملَنِي على فقاره، وَهُوَ عِظَام الظّهْر.

وَقَالَ إسْحَاقُ عنْ جَرِيرٍ عنْ مُغيرَةَ فَبِعْتُهُ علَى أنَّ لي فَقارَ ظَهْرِهِ حتَّى أبْلُغَ المَدِينَةَ
أسْحَاق هُوَ ابْن إِبْرَاهِيم الْمَعْرُوف بِابْن رَاهَوَيْه، وَجَرِير هُوَ ابْن عبد الحميد، وَهُوَ التَّعْلِيق يَأْتِي مَوْصُولا فِي الْجِهَاد.

وَقَالَ عَطَاءٌ وغيْرُهُ لَكَ ظَهْرُهُ إِلَى المَدِينَةِ
عَطاء هُوَ ابْن أبي رَبَاح يَعْنِي: روى عَطاء عَن جَابر وَغَيره أَيْضا بِهَذَا اللَّفْظ، وَهَذَا التَّعْلِيق تقدم مَوْصُولا فِي الْوكَالَة.

وقالَ مُحَمَّدُ بنُ الْمُنْكَدِرِ عنْ جابِرٍ شَرَطَ ظَهْرَهُ إِلَى المَدِينَةِ

هَذَا التَّعْلِيق وَصله الْبَيْهَقِيّ من طَرِيق الْمُنْكَدر عَن أَبِيه بِهِ، وَوَصله الطَّبَرَانِيّ من طَرِيق عُثْمَان بن مُحَمَّد الأخنسي عَن مُحَمَّد بن الْمُنْكَدر، بن مُحَمَّد بن الْمُنْكَدر بِلَفْظ: فَبِعْته إِيَّاه وشرطت إِلَى ركُوبه إِلَى الْمَدِينَة.

وقالَ زَيْدُ بنُ أسْلَمَ عنْ جابِرٍ ولَكَ ظَهْرُهُ حتَّى تَرْجِعَ

هَذَا التَّعْلِيق وَصله الطَّبَرَانِيّ وَالْبَيْهَقِيّ من طَرِيق عبد الله بن زيد بن أسلم عَن أَبِيه بِتَمَامِهِ.

وَقَالَ أبُو الزُّبَيْرِ عنْ جابِرٍ أفْقرْنَاكَ ظَهْرَهُ إلَى المَدِينَةِ
أَبُو الزبير مُحَمَّد بن مُسلم بن تدرس، وَهَذَا التَّعْلِيق وَصله الْبَيْهَقِيّ من طَرِيق حَمَّاد بن زيد عَن أَيُّوب عَن أبي الزبير بِهِ، وَهُوَ عِنْد مُسلم من هَذَا الْوَجْه بِلَفْظ: فَبِعْته مِنْهُ بِخمْس أَوَاقٍ.
قلت: على أَن لي ظَهره إِلَى الْمَدِينَة.
قَالَ: وَلَك ظَهره إِلَى الْمَدِينَة.
وللنسائي من طَرِيق ابْن عُيَيْنَة عَن أَيُّوب.
قَالَ: أَخَذته بِكَذَا وَكَذَا، وَقد أعرتك ظَهره إِلَى الْمَدِينَة.

وَقَالَ الأعْمَشُ عنْ سالِمٍ عنْ جابِرٍ تبَلَّغَ علَيْهِ إِلَى أهْلِكَ
الْأَعْمَش هُوَ سُلَيْمَان.
وَسَالم هُوَ ابْن أبي الْجَعْد، وَهَذَا التَّعْلِيق وَصله أَحْمد وَمُسلم وَعبد بن حميد من طَرِيق الْأَعْمَش.
فَلفظ أَحْمد: قد أَخَذته بوقية أركبه فَإِذا قدمت فأتنا بِهِ، وَلَفظ مُسلم: فتبلغ عَلَيْهِ إِلَى الْمَدِينَة، وَلَفظ عبد بن حميد: تبلغ عَلَيْهِ إِلَى إهلك، وَكَذَا لفظ ابْن سعد وَالْبَيْهَقِيّ.

قَالَ أبُو عُبَيْدِ الله الاشتراطُ أكْثَرُ وأصَحُّ عِنْدِي
أَبُو عبد الله هُوَ البُخَارِيّ نَفسه، أَشَارَ بذلك إِلَى أَن الروَاة اخْتلفُوا فِي قَضِيَّة جَابر هَذِه: هَل وَقع الشَّرْط فِي العقد عِنْد البيع أَو كَانَ ركُوبه للجمل بعد بَيْعه إِبَاحَة من النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بعد شِرَائِهِ على طَرِيق الْعَارِية؟.

     وَقَالَ : وُقُوع الإشتراط فِيهِ أَكثر طرقاً وَأَصَح عِنْدِي مخرجا، وَهَذَا وَجه من وُجُوه التَّرْجِيح، وَمن جملَة من صحّح الِاشْتِرَاط الإِمَام الْحَافِظ الطَّحَاوِيّ، رَحمَه الله، وَلكنه تَأَول بِأَن البيع الْمَذْكُور لم يكن على الْحَقِيقَة، لقَوْله فِي آخِره: (أَترَانِي ماكستك) إِلَى آخِره، قَالَ: إِنَّه يشْعر بِأَن القَوْل الْمُتَقَدّم لم يكن على التبايع حَقِيقَة.
قيل: رده الْقُرْطُبِيّ، (بِأَنَّهُ دَعْوَى مُجَرّدَة وتغيير وتجريف) ، لَا تَأْوِيل، (وَكَيف يصنع قَائِله فِي قَوْله: بِعته مِنْك بأوقية بعد المساومة) .
وَقَوله: (قد أَخَذته) ، وَغير ذَلِك من الْأَلْفَاظ المنصوصة فِي ذَلِك، انْتهى.
قلت: لَا تسلم أَنه دَعْوَى مُجَرّدَة، بل أثبت مَا قَالَه بقوله: (أَترَانِي ماكستك؟) وَبِقَوْلِهِ أَيْضا لجَابِر: (ترى إِنِّي إِنَّمَا حبستك لأذهب ببعيرك، يَا بِلَال! أعْطه أُوقِيَّة، وَخذ بعيرك، فهما، لَك) .
فَهَذَا صَرِيح أَنه: لَمْ يكن ثمَّة عقد حَقِيقَة؟ فضلا عَن أَن يكون فِيهِ شَرط،.

     وَقَالَ  ابْن حزم: أخبر عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام: (أَنه لم يماكسه ليَأْخُذ جمله) ، فصح أَن البيع لم يتم فِيهِ، فَقَط، فَإِنَّمَا اشْترط جَابر ركُوب جمل نَفسه فَقَط، وَقَول الْقُرْطُبِيّ، وَكَيف يصنع قَائِله فِي قَوْله: (بِعته مِنْك) ، لَا يرد على الطَّحَاوِيّ، لِأَنَّهُ لَا يُنكر صُورَة البيع، وَإِنَّمَا يُنكر حَقِيقَة البيع لما ذكرنَا، والقرطبي كَيفَ يصنع بقوله: (ترى أَنِّي حبستك لأذهب ببعيرك؟) فَإِذا تَأمل من لَهُ قريحة حادة، يعلم أَن التَّغْيِير والتحريف مِنْهُ لَا من الطَّحَاوِيّ، وَقد ذكر الْإِسْمَاعِيلِيّ أَيْضا أَن النُّكْتَة فِي ذكر البيع أَنه، عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام، أَرَادَ أَن يبر جَابر على وَجه لَا يحصل لغيره طمع فِي مثله، فَبَايعهُ فِي جمله على اسْم البيع: ليتوفر عَلَيْهِ بره، وَيبقى الْجمل قَائِما على ملك فَيكون ذَلِك أهنأ لمعروفه.
وَقيل: حَاصله أَن الشَّرْط لم يَقع فِي نفس العقد، وَإِنَّمَا وَقع سَابِقًا ولاحقاً، فتبرع بمنفعته أَولا، كَمَا تبرع بِرَقَبَتِهِ آخرا.
فَإِن قلت: وَقع فِي كَلَام القَاضِي أبي الطّيب الطَّبَرِيّ من الشَّافِعِيَّة إِن فِي بعض طرق هَذَا الْخَبَر: (فَلَمَّا نقدني الثّمن شرطت حملاني إِلَى الْمَدِينَة) ، وَاسْتدلَّ بهَا على أَن الشَّرْط تَأَخّر عَن العقد.
قلت: هَذِه مُجَرّد دَعْوَى تحْتَاج إِلَى بَيَان ذَلِك، على أَنا، وَإِن سلمنَا ثُبُوت ذَلِك، يحْتَاج إِلَى أَن يؤول على أَن معنى: نقدني الثّمن، أَي: قَرَّرَهُ لي، واتفقنا على تَعْيِينه، لِأَن الرِّوَايَات الصَّحِيحَة صَرِيحَة فِي أَن قَبضه الثّمن إِنَّمَا كَانَ بِالْمَدِينَةِ.

وَقَالَ عُبَيْدُ الله وابنُ إسْحَاقَ عنْ وهْبٍ عنْ جابِرٍ اشْتَرَاهُ النبِيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بِوَقِيَّةٍ
عبيد الله هُوَ ابْن عمر الْعمريّ، وَابْن إِسْحَاق هُوَ مُحَمَّد بن إِسْحَاق، ووهب هُوَ ابْن كيسَان.
أما تَعْلِيق عبيد الله فوصله البُخَارِيّ فِي الْبيُوع، وَلَفظه: (قَالَ: أتبيع جملك؟ قلت: نعم، فَاشْتَرَاهُ مني بأوقية) .
وَأما تَعْلِيق ابْن إِسْحَاق فوصله أَحْمد وَأَبُو يعلى وَالْبَزَّار بِطُولِهِ وَفِي حَدِيثهمْ: (قَالَ: قد أَخَذته بدرهم، قلت: إِذا تغبنني يَا رَسُول الله! قَالَ: فبدرهمين؟ قلت: لَا، فَلم يزل يرفع لي حَتَّى بلغ أُوقِيَّة ... الحَدِيث.

وتابَعَهُ زَيْدُ بنُ أسْلَمَ عنْ جابِرٍ
أَي: تَابع وهباً زيد بن أسلم عَن جَابر فِي ذكر الْأُوقِيَّة، وَوصل الْبَيْهَقِيّ هَذِه الْمُتَابَعَة.

وقالَ ابنُ جُرَيْجٍ عنْ عَطَاءٍ وغَيْرِهِ عنْ جَابِرٍ أخَذْتُهُ بِأرْبَعَةِ دَنانِيرَ وهاذا يَكُونُ وَقِيَّةً علَى حِسَابَ الدِّينَارِ بِعَشْرَةِ دَرَاهِمَ
ابْن جريج هُوَ عبد الْملك بن عبد الْعَزِيز بن جريج، وَعَطَاء هُوَ ابْن أبي رَبَاح، وَهَذَا التَّعْلِيق وَصله البُخَارِيّ فِي الْوكَالَة.
قَوْله: (وَهَذَا يكون) إِلَى آخِره، قيل: إِنَّه من كَلَام البُخَارِيّ،.

     وَقَالَ  صَاحب (التَّوْضِيح) : هَذَا من كَلَام عَطاء.
قلت: يحْتَمل هَذَا، وَهَذَا، وَالْأَقْرَب أَن يكون من كَلَام عَطاء، وَقل بَعضهم: (الدِّينَار) مُبْتَدأ، وَقَوله: (بِعشْرَة) ، خَبره أَي: دِينَار ذهب بِعشر دَرَاهِم فضَّة.
قلت: هَذَا تصرف عَجِيب لَيْسَ لَهُ وَجه أصلا، لِأَن لفظ (الدِّينَار) ، وَقع مُضافاً إِلَيْهِ، وَهُوَ مجرور بِالْإِضَافَة، وَلَا وَجه لقطع لفظ حِسَاب عَن الْإِضَافَة، وَلَا ضَرُورَة إِلَيْهِ، وَالْمعْنَى أصبح مَا يكون لِأَن معنى قَوْله: (وَهَذَا يكون وقية) ، يَعْنِي: أَرْبَعَة دَنَانِير، يكون وقية على حِسَاب الدِّينَار أَي: الدِّينَار الْوَاحِد بِعشْرَة دَرَاهِم، وَلَقَد تعسف فِي تَفْسِير الدِّينَار بِالذَّهَب وَالدَّرَاهِم بِالْفِضَّةِ، لِأَن الدِّينَار لَا يكون إلاَّ من الذَّهَب، وَالدَّرَاهِم لَا تكون إلاَّ من الْفضة، وَلَا خَفَاء فِي ذَلِك.

ولَمْ يُبَيِّنِ الثَّمَنَ مُغِيرَةَ عنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرٍ وابنُ المُنْكَدِرِ وأبُو الزُّبَيْرِ عنْ جَابِرٍ
أشارَ بِهَذَا إِلَى أَن هَؤُلَاءِ الثَّلَاثَة: الشّعبِيّ وَمُحَمّد بن الْمُنْكَدر وَأَبُو الزبير مُحَمَّد بن مُسلم لم يذكرُوا كمية الثّمن فِي روايتهم عَن جَابر.
قَوْله: (وَابْن الْمُنْكَدر) ، بِالرَّفْع مَعْطُوف على الْمُغيرَة الَّذِي هُوَ مَرْفُوع بقوله: (لم يبين) و (الثّمن) ، بِالنّصب مَفْعُوله، أما رِوَايَة الْمُغيرَة عَن الشّعبِيّ فتقدمت مَوْصُولَة فِي الاستقراض، وَسَتَأْتِي مُطَوَّلَة فِي الْجِهَاد، وَلَيْسَ فِيهَا ذكر تعْيين الثّمن، وَكَذَا أخرجه مُسلم وَالنَّسَائِيّ وَغَيرهمَا بِلَا ذكر الثّمن.
وَأما رِوَايَة ابْن الْمُنْكَدر فوصلها الطَّبَرَانِيّ، وَلَيْسَ فِيهَا التَّعْيِين أَيْضا.
وَأما رِوَايَة أبي الزبير فوصلها النَّسَائِيّ وَلم يعين الثّمن، وَلَكِن مُسلما أخرجه من طَرِيقه وَعين فِيهِ الثّمن.
وَلَفظه: (فَبِعْته مِنْهُ بِخمْس أَوَاقٍ على أَن لي ظَهره إِلَى الْمَدِينَة) .
وَقَالَ الأعْمَشُ عنْ سالِمٍ عنْ جابرٍ وَقِيَّة ذَهَبٍ
أَي: قَالَ سُلَيْمَان الْأَعْمَش فِي رِوَايَة عَن سَالم ابْن أبي الْجَعْد عَن جَابر وقية ذهب، وَهَذَا التَّعْلِيق وَصله مُسلم وَأحمد وَغَيرهمَا هَكَذَا.

وَقَالَ أبُو إسْحَاقَ عنْ سالِمٍ عَنْ جابِرِ بمائَتَيْ دِرْهَمٍ
أَبُو إِسْحَاق عَمْرو بن عبد الله السبيعِي، وَسَالم مر الْآن، وَلم تخْتَلف نسخ البُخَارِيّ أَنه قَالَ: (بِمِائَتي دِرْهَم) ،.

     وَقَالَ  النَّوَوِيّ فِي بعض الرِّوَايَات للْبُخَارِيّ: (ثَمَان مائَة دِرْهَم) ، وَالظَّاهِر أَنه تَصْحِيف.

وَقَالَ داوُدُ بنُ قَيْسٍ عنْ عُبَيْدِ الله بنِ مِقسَمٍ عنْ جابرٍ اشْتَراهُ بِطَرِيقِ تَبُوكَ أحْسِبُهُ قَالَ بأرْبَعِ أوَاقٍ
دَاوُد بن قيس الْفراء الدّباغ الْمَدِينِيّ أَبُو سُلَيْمَان وَعبيد الله بن مقسم، بِكَسْر الْمِيم وَسُكُون الْقَاف الْقرشِي الْمدنِي، وَهَذِه الرِّوَايَات تصرح بِأَن قصَّة جَابر وَقعت فِي طَرِيق تَبُوك، فوافقه على ذَلِك عَليّ بن زيد بن جدعَان عَن أبي المتَوَكل عَن جَابر أَن رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: (مر بجابر فِي غَزْوَة تَبُوك) ، فَذكر الحَدِيث، وَقد أخرجه البُخَارِيّ من وَجه آخر عَن أبي المتَوَكل عَن جَابر فَقَالَ: فِي بعض أَسْفَاره، وَلم يُعينهُ، وَكَذَا أبهمه أَكثر الروَاة عَن جَابر، وَمِنْهُم من قَالَ: كنت فِي سفر، وَمِنْهُم من قَالَ: كنت فِي غَزْوَة، وَلَا مُنَافَاة بَين هَاتين الرِّوَايَتَيْنِ وَجزم ابْن إِسْحَاق عَن وهب بن كيسَان فِي رِوَايَته أَن ذَلِك كَانَ فِي غَزْوَة ذَات الرّقاع، وَكَذَلِكَ أخرجه الْوَاقِدِيّ من طَرِيق عَطِيَّة بن عبد الله بن أنيس عَن جَابر، وَيُؤَيّد هَذِه رِوَايَة الطَّحَاوِيّ: أَن ذَلِك وَقع فِي رجوعهم من طَرِيق مَكَّة إِلَى الْمَدِينَة، وَلَيْسَت طَرِيق تَبُوك ملاقية لطريق مَكَّة: بِخِلَاف غَزْوَة ذَات الرّقاع، وَجزم السُّهيْلي أَيْضا بِمَا قَالَه ابْن إِسْحَاق قَوْله: (بِأَرْبَع أَوَاقٍ) ، بِالتَّنْوِينِ، ويروى: بِأَرْبَع أواقي، بِالْيَاءِ الْمُشَدّدَة على الأَصْل فَخفف بِحَذْف أَحدهمَا ثمَّ أعل إعلال قاضٍ.

وَقَالَ أبُو نَضْرَةَ عَن جَابر اشْتَرَاهُ بِعِشْرِينَ دِيناراً

أَبُو نَضرة، بِفَتْح النُّون وَسُكُون الضَّاد الْمُعْجَمَة: واسْمه الْمُنْذر بن مَالك الْعَبْدي، مَاتَ سنة ثَمَان وَمِائَة، وَهَذَا التَّعْلِيق وَصله ابْن مَاجَه من طَرِيق الْجريرِي عَنهُ بِلَفْظ: فَمَا زَالَ يزيدني دِينَارا دِينَارا حَتَّى بلغ عشْرين دِينَارا، وَأخرجه مُسلم وَالنَّسَائِيّ من طَرِيق أبي نَضرة، وَلم يعين الثّمن.

وقَوْلُ الشَّعْبِيِّ بِوَقِيَّةٍ أكْثَرُ الإشْتِرَاطُ أكْثرُ وأصَحُّ عِنْدِي قالَهُ أبُو عَبْدِ الله

هَذَا كَلَام البُخَارِيّ، أَي: قَول عَامر الشّعبِيّ: بوقية، أَكثر من غَيره فِي الرِّوَايَات، وَوَقع فِي بعض النّسخ: بعد هَذَا الِاشْتِرَاط، أَكثر، وَأَصَح عِنْدِي قَالَه أَبُو عبد الله، وَقد مر هَذَا فِيمَا مضى عَن قريب، وَأَبُو عبد الله هُوَ البُخَارِيّ وَاعْلَم أَنَّك رَأَيْت فِي قصَّة جَابر هَذَا الِاخْتِلَاف فِي ثمن الْجمل الْمَذْكُور فِيهَا: فروى أُوقِيَّة وَرُوِيَ: (أَرْبَعَة دَنَانِير) ، وَرُوِيَ: أُوقِيَّة ذهب، وَرُوِيَ أَربع أَوَاقٍ، وَرُوِيَ: خمس أَوَاقٍ، وَرُوِيَ: مِائَتَا دِرْهَم، وروى: (عشرُون دِينَارا) هَذَا كُله فِي رِوَايَة البُخَارِيّ، وروى أَحْمد وَالْبَزَّار من حَدِيث أبي المتَوَكل عَن جَابر: (ثَلَاثَة عشر دِينَارا) ، وَهَذَا اخْتِلَاف عَظِيم، وَالثمن فِي نفس الْأَمر وَاحِد مِنْهَا، والرواة كلهم عدُول، فَقَالَ الْإِسْمَاعِيلِيّ: لَيْسَ اخْتلَافهمْ فِي قدر الثّمن بضائر، لِأَن الْغَرَض الَّذِي سيق الحَدِيث لأَجله بَيَان كرمه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وتواضعه وحنوه على أَصْحَابه وبركة دُعَائِهِ وَغير ذَلِك، وَلَا يلْزم من وهم بَعضهم فِي قدر الثّمن توهين لأصل الحَدِيث.

وَقَالَ الْقُرْطُبِيّ: اخْتلفُوا فِي ثمن الْجمل اخْتِلَافا لَا يقبل التلفيق، وتكلَّف ذَلِك بعيد عَن التَّحْقِيق، وَهُوَ مَبْنِيّ على أَمر لم يَصح نَقله، وَلَا استقام ضَبطه، مَعَ أَنه لَا يتَعَلَّق بتحقيق ذَلِك حكم، وَإِنَّمَا يحصل من مَجْمُوع الرِّوَايَات أَنه بَاعه الْبَعِير بِثمن مَعْلُوم، بَينهمَا، وَزَاد عِنْد الْوَفَاء زِيَادَة مَعْلُومَة، وَلَا يضر عدم الْعلم بتحقيق ذَلِك.
.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي فِي وَجه التَّوْفِيق: وقية الذَّهَب قد تَسَاوِي مِائَتي دِرْهَم المساوية لعشرين دِينَارا على حِسَاب الدِّينَار بِعشْرَة، وَأما وقية الْفضة فَهِيَ أَرْبَعُونَ درهما المساوية لأربعة دَنَانِير، وَأما أَرْبَعَة أَوَاقٍ فَلَعَلَّهُ اعْتبر اصْطِلَاح أَن كل وقية عشرَة دَرَاهِم، فَهِيَ أَيْضا وقية بالاصطلاح الأول، وَالْكل رَاجع إِلَى وقية، وَوَقع الِاخْتِلَاف فِي اعْتِبَارهَا كَمَا وكيفاً.
.

     وَقَالَ  عِيَاض: قَالَ أَبُو جَعْفَر الدَّاودِيّ: لَيْسَ لوقية الذَّهَب وزن مَعْلُوم وأوقية الْفضة أَرْبَعُونَ درهما.
قَالَ: وَسبب اخْتِلَاف هَذِه الرِّوَايَات أَنهم رووا بِالْمَعْنَى، وَهُوَ جَائِز، وَالْمرَاد: أُوقِيَّة الذَّهَب كَمَا وَقع بِهِ العقد، وعنى: أواقي الْفضة، كَمَا حصل بِهِ إِنْفَاذه، وَيحْتَمل هَذَا كُله زِيَادَة على الْأُوقِيَّة، كَمَا ثَبت فِي الرِّوَايَات أَنه قَالَ: وَزَادَنِي.
، وَأما رِوَايَة: أَرْبَعَة دَنَانِير، فموافقة أَيْضا لِأَنَّهُ يحْتَمل أَن يكون أُوقِيَّة الذَّهَب حِينَئِذٍ وزن أَرْبَعَة دَنَانِير، وَرِوَايَة عشْرين دِينَارا مَحْمُولَة على دَنَانِير صغَار كَانَت لَهُم، وَأما رِوَايَة: أَربع أَوَاقٍ شكّ فِيهِ الرَّاوِي، فَلَا اعْتِبَار بهَا، وفوائد الحَدِيث مر ذكرهَا فِي الاستقراض.