هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
4851 قَالَ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ : حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ يُونُسَ ، ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ ، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ : أَنَّ النِّكَاحَ فِي الجَاهِلِيَّةِ كَانَ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْحَاءٍ : فَنِكَاحٌ مِنْهَا نِكَاحُ النَّاسِ اليَوْمَ : يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ أَوِ ابْنَتَهُ ، فَيُصْدِقُهَا ثُمَّ يَنْكِحُهَا ، وَنِكَاحٌ آخَرُ : كَانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا : أَرْسِلِي إِلَى فُلاَنٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ ، وَيَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا وَلاَ يَمَسُّهَا أَبَدًا ، حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ ، فَإِذَا تَبَيَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِذَا أَحَبَّ ، وَإِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةِ الوَلَدِ ، فَكَانَ هَذَا النِّكَاحُ نِكَاحَ الِاسْتِبْضَاعِ . وَنِكَاحٌ آخَرُ : يَجْتَمِعُ الرَّهْطُ مَا دُونَ العَشَرَةِ ، فَيَدْخُلُونَ عَلَى المَرْأَةِ ، كُلُّهُمْ يُصِيبُهَا ، فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ ، وَمَرَّ عَلَيْهَا لَيَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَهَا ، أَرْسَلَتْ إِلَيْهِمْ ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ يَمْتَنِعَ ، حَتَّى يَجْتَمِعُوا عِنْدَهَا ، تَقُولُ لَهُمْ : قَدْ عَرَفْتُمُ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِكُمْ وَقَدْ وَلَدْتُ ، فَهُوَ ابْنُكَ يَا فُلاَنُ ، تُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ بِاسْمِهِ فَيَلْحَقُ بِهِ وَلَدُهَا ، لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَمْتَنِعَ بِهِ الرَّجُلُ ، وَنِكَاحُ الرَّابِعِ : يَجْتَمِعُ النَّاسُ الكَثِيرُ ، فَيَدْخُلُونَ عَلَى المَرْأَةِ ، لاَ تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَهَا ، وَهُنَّ البَغَايَا ، كُنَّ يَنْصِبْنَ عَلَى أَبْوَابِهِنَّ رَايَاتٍ تَكُونُ عَلَمًا ، فَمَنْ أَرَادَهُنَّ دَخَلَ عَلَيْهِنَّ ، فَإِذَا حَمَلَتْ إِحْدَاهُنَّ وَوَضَعَتْ حَمْلَهَا جُمِعُوا لَهَا ، وَدَعَوْا لَهُمُ القَافَةَ ، ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَهَا بِالَّذِي يَرَوْنَ ، فَالْتَاطَ بِهِ ، وَدُعِيَ ابْنَهُ ، لاَ يَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِكَ فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالحَقِّ ، هَدَمَ نِكَاحَ الجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ إِلَّا نِكَاحَ النَّاسِ اليَوْمَ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
4851 قال يحيى بن سليمان : حدثنا ابن وهب ، عن يونس ، ح وحدثنا أحمد بن صالح ، حدثنا عنبسة ، حدثنا يونس ، عن ابن شهاب ، قال : أخبرني عروة بن الزبير ، أن عائشة ، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته : أن النكاح في الجاهلية كان على أربعة أنحاء : فنكاح منها نكاح الناس اليوم : يخطب الرجل إلى الرجل وليته أو ابنته ، فيصدقها ثم ينكحها ، ونكاح آخر : كان الرجل يقول لامرأته إذا طهرت من طمثها : أرسلي إلى فلان فاستبضعي منه ، ويعتزلها زوجها ولا يمسها أبدا ، حتى يتبين حملها من ذلك الرجل الذي تستبضع منه ، فإذا تبين حملها أصابها زوجها إذا أحب ، وإنما يفعل ذلك رغبة في نجابة الولد ، فكان هذا النكاح نكاح الاستبضاع . ونكاح آخر : يجتمع الرهط ما دون العشرة ، فيدخلون على المرأة ، كلهم يصيبها ، فإذا حملت ووضعت ، ومر عليها ليال بعد أن تضع حملها ، أرسلت إليهم ، فلم يستطع رجل منهم أن يمتنع ، حتى يجتمعوا عندها ، تقول لهم : قد عرفتم الذي كان من أمركم وقد ولدت ، فهو ابنك يا فلان ، تسمي من أحبت باسمه فيلحق به ولدها ، لا يستطيع أن يمتنع به الرجل ، ونكاح الرابع : يجتمع الناس الكثير ، فيدخلون على المرأة ، لا تمتنع ممن جاءها ، وهن البغايا ، كن ينصبن على أبوابهن رايات تكون علما ، فمن أرادهن دخل عليهن ، فإذا حملت إحداهن ووضعت حملها جمعوا لها ، ودعوا لهم القافة ، ثم ألحقوا ولدها بالذي يرون ، فالتاط به ، ودعي ابنه ، لا يمتنع من ذلك فلما بعث محمد صلى الله عليه وسلم بالحق ، هدم نكاح الجاهلية كله إلا نكاح الناس اليوم
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated 'Urwa bin Az-Zubair:

'Aishah, the wife of the Prophet (ﷺ) (ﷺ) told him that there were four types of marriage during Pre-Islamic period of Ignorance. One type was similar to that of the present day i.e. a man used to ask somebody else for the hand of a girl under his guardianship or for his daughter's hand, and give her Mahr and then marry her. The second type was that a man would say to his wife after she had become clean from her period. Send for so-and-so and have sexual intercourse with him. Her husband would then keep awy from her and would never sleep with her till she got pregnant from the other man with whom she was sleeping. When her pregnancy became evident, he husband would sleep with her if he wished. Her husband did so (i.e. let his wife sleep with some other man) so that he might have a child of noble breed. Such marriage was called as Al-Istibda'. Another type of marriage was that a group of less than ten men would assemble and enter upon a woman, and all of them would have sexual relation with her. If she became pregnant and delivered a child and some days had passed after delivery, she would sent for all of them and none of them would refuse to come, and when they all gathered before her, she would say to them, You (all) know waht you have done, and now I have given birth to a child. So, it is your child so-and-so! naming whoever she liked, and her child would follow him and he could not refuse to take him. The fourth type of marriage was that many people would enter upon a lady and she would never refuse anyone who came to her. Those were the prostitutes who used to fix flags at their doors as sign, and he who would wished, could have sexual intercourse with them. If anyone of them got pregnant and delivered a child, then all those men would be gathered for her and they would call the Qa'if (persons skilled in recognizing the likeness of a child to his father) to them and would let the child follow the man (whom they recognized as his father) and she would let him adhere to him and be called his son. The man would not refuse all that. But when Muhammad (ﷺ) was sent with the Truth, he abolished all the types of marriages observed in pre-Islamic period of Ignorance except the type of marriage the people recognize today.

":"ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، ان سے یونس نے ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا ہم سے احمدبن صالح نے بیان کیا ، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبردیاور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح چار طرح ہوتے تھے ۔ ایک صورت تو یہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں ، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کر لیتا ۔ دوسرا نکاح یہ تھا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے جب وہ حیض سے پاک ہو جاتی تو کہتا تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کرا لے اس مدت میں شوہر اس سے جدا رہتا اور اسے چھوتا بھی نہیں ۔ پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہو جاتا جس سے وہ عارضی طور پر صحبت کرتی رہتی ، تو حمل کے ظاہر ہونے کے بعد اس کا شوہر اگر چاہتا تو اس سے صحبت کرتا ۔ ایسا اس لئے کرتے تھے تاکہ ان کا لڑکا شریف اور عمدہ پیدا ہو ۔ یہ نکاح ” استبضاع “ کہلاتا تھا ۔ تیسری قسم نکاح کی یہ تھی کہ چند آدمی جو تعداد میں دس سے کم ہوتے کسی ایک عورت کے پاس آنا جانا رکھتے اور اس سے صحبت کرتے ۔ پھر جب وہ عورت حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو وضع حمل پر چند دن گزرنے کے بعد وہ عورت اپنے ان تمام مردوں کو بلاتی ۔ اس موقع پر ان میں سے کوئی شخص انکا ر نہیں کر سکتا تھا ۔ چنانچہ وہ سب اس عورت کے پاس جمع ہو جاتے اور وہ ان سے کہتی کہ جو تمہارا معاملہ تھا وہ تمہیں معلوم ہے اور اب میں نے یہ بچہ جنا ہے ۔ پھر وہ کہتی کہ اے فلاں ! یہ بچہ تمہارا ہے ۔ وہ جس کا چاہتی نام لے دیتی اور وہ لڑکا اسی کا سمجھا جاتا ، وہ شخص اس سے انکار کی جرات نہیں کر سکتا تھا ۔ چوتھا نکاح اس طور پر تھا کہ بہت سے لوگ کسی عورت کے پاس آیا جایا کرتے تھے ۔ عورت اپنے پاس کسی بھی آنے والے کو روکتی نہیں تھی ۔ یہ کسبیاں ہوتی تھیں ۔ اس طرح کی عورتیں اپنے دروازوں پر جھنڈے لگائے رہتی تھیں جو نشانی سمجھے جاتے تھے ۔ جو بھی چاہتا ان کے پاس جاتا ۔ اس طرح کی عورت جب حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو اس کے پاس آنے جانے والے جمع ہوتے اور کسی قیافہ جاننے والے کو بلاتے اور بچہ کا ناک نقشہ جس سے ملتا جلتا ہوتا اس عورت کے اس لڑکے کو اسی کے ساتھ منسوب کر دیتے اور وہ بچہ اسی کا بیٹا کہا جا تا ، اس سے کوئی انکار نہیں کرتا تھا ۔ پھر جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ رسول ہو کر تشریف لائے آپ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کو باطل قرار دے دیا صرف اس نکاح کو باقی رکھا جس کا آج کل رواج ہے ۔

شرح الحديث من عمدة القاري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    ( بابُُ منْ قالَ: لَا نِكَاحَ إلاَّ بِوَلِيٍّ)

أَي: هَذَا بابُُ فِي بَيَان ( من قَالَ: لَا نِكَاح إلاَّ بولِي) ، هَذَا لفظ الحَدِيث رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيّ من حَدِيث أبي مُوسَى الْأَشْعَرِيّ، وَإِنَّمَا ترْجم بِهَذَا وَلم يُخرجهُ لكَونه لَيْسَ على شَرطه، وَكَذَلِكَ لم يُخرجهُ مُسلم وَفِيه كَلَام كَثِيرَة قد ذَكرْنَاهُ عَن قريب، وَلَكِن لما كَانَ ميله إِلَى من قَالَ: لَا نِكَاح إلاّ بولِي، احْتج بِثَلَاث آيَات ذكر هُنَا فِي كل آيَة قِطْعَة وَهِي قَوْله.

لِقَوْلِ الله تَعالى { فَلَا تعضلوهن} ( الْبَقَرَة: 232)

وَفِي بعض النّسخ لقَوْله تَعَالَى: { وَإِذا طلّقْتُم النِّسَاء فبلغن أَجلهنَّ فَلَا تعلضلوهن} ( الْبَقَرَة: 232) وَجه الاستدل بِهِ أَن الله تَعَالَى نهى الْأَوْلِيَاء عَن عضلهن أَي: مَنعهنَّ من التَّزْوِيج، فَلَو كَانَ العقد إلَيْهِنَّ لم يكنَّ ممنوعات.
قلت: لَا يتم الاستدل بِهِ لِأَن ظَاهر الْكَلَام أَن الْخطاب للأزواج الَّذين يعاقون نِسَاءَهُمْ ثمَّ يعضلونها بعد انْقِضَاء الْعدة تأثما.
ولحميَّة الْجَاهِلِيَّة لَا يتركونهن يتزوجهن من شئن من الْأزْوَاج.
فَإِن قلت: هَذِه الْآيَة نزلت فِي قصَّة معقل بن يسَار، على مَا رَوَاهُ البُخَارِيّ، على مَا يَأْتِي عَن قريب، وَرَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ فِي الْكُبْرَى من رِوَايَة الْحسن عَن مقعل بن يسَار، قَالَ: كَانَت لي أُخْت تخْطب فأمنعها الحَدِيث، وَفِيه: فَأنْزل الله تَعَالَى: { فَلَا تعضلوهن} ( الْبَقَرَة: 232) فَقَالَ: من قَالَ: لَا نِكَاح إلاَّ بولِي: أَمر الله تَعَالَى بترك عضلهن، فَدلَّ ذَلِك أَن إِلَيْهِم عقد نِكَاحهنَّ.
قلت: هَذَا الحَدِيث رُوِيَ من وُجُوه كَثِيرَة مُخْتَلفَة، وَكَذَلِكَ ذكرت وُجُوه فِي سَبَب نزُول هَذِه الْآيَة، فَمنهمْ من قَالَ: الْخطاب فِيهِ للأولياء، وَمِنْهُم من قَالَ الْخطاب: للأزواج الذيم طلقوا، وَمِنْهُم من قَالَ: الْخطاب لسَائِر النَّاس، فعلى هَذَا الأيتم بِهِ الِاسْتِدْلَال على مَا ذكرنَا.
وَأَيْضًا يحْتَمل أَن يكون عضل معقل بن يسَار لأجل تزهيده وترغيبه أُخْته فِي الْمُرَاجَعَة، فتقف عِنْد ذَلِك، فَأمر بترك ذَلِك.
.

     وَقَالَ  أَبُو بكر الْجَصَّاص، بعد أَن رُوِيَ حَدِيث معقل من رِوَايَة سماك عَن ابْن أخي معقل عَن معقل بن يسَار: إِن هَذَا الحَدِيث غير ثَابت على مَذْهَب أهل النَّقْل لِأَن فِي سَنَده رجلا مَجْهُولا، وَأما حَدِيث الْحسن الْبَصْرِيّ فمرسل، وَأما الْآيَة فَالظَّاهِر أَنَّهَا خطاب للأزواج، كَمَا ذكرنَا.

فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ وكَذَلِكَ البِكْرُ

أَي: فَدخل فِي قَوْله عز وَجل: { فَلَا تعضلوهن} ( الْبَقَرَة: 232) الثّيّب وَالْبكْر لعُمُوم لفظ النِّسَاء، وَفِي بعض النّسخ: قَالَ أَبُو عبد الله: فَدخلت فِيهِ الثّيّب وَالْبكْر، وَأَبُو عبد الله هُوَ البُخَارِيّ نَفسه.

وَقَالَ: { وَلَا تنْكِحُوا الْمُشْركين حَتَّى يُؤمنُوا} ( الْبَقَرَة: 122)

وَجه الِاسْتِدْلَال بِهِ أَن الله خَاطب الْأَوْلِيَاء ونهاهم عَن إنكاح الْمُشْركين مولياتهم المسلمات.
قلت: الْآيَة مَنْسُوخَة بقوله: { وَالْمُحصنَات من الَّذين أُوتُوا الْكتاب من قبلكُمْ} ( الْمَائِدَة: 5) وَالْخطاب أَعم من أَن يكون للأولياء أَو غَيرهم، فَلَا يتم الِاسْتِدْلَال بِهِ.

وَقَالَ: { ( 24) وَانْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُم} ( النُّور: 23)

لَا وَجه للاستدلال بِهِ لمن قَالَ: لَا نِكَاح إلاَّ بولِي، لِأَن الْمُفَسّرين قَالُوا: مَعْنَاهُ أَيهَا الْمُؤْمِنُونَ زوجوا من لَا زوج لَهُ من أَحْرَار رجالكم ونسائكم وَالصَّالِحِينَ من عبادكُمْ وَإِمَائِكُمْ، وَمن كَانَ فِيهِ صَلَاح من غِلْمَانكُمْ وجواربكم، والأيامى جمع أيم وَهُوَ أَعم من الْمَرْأَة كَمَا ذكرنَا لتنَاوله الرجل، فَلَا يَصح أَن يُرَاد بالمخاطبين الْأَوْلِيَاء وإلاَّ كَانَ للرجل ولي.
.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي: خرج الرجل مِنْهُ بِالْإِجْمَاع فَبَقيَ الحكم فِي الْمَرْأَة بِحَالهِ.
قلت: هَذِه عوى تحْتَاج إِلَى الْبُرْهَان.



[ قــ :4851 ... غــ :5127 ]
- قَالَ يَحْيَى بنُ سُلَيْمانَ: حَدثنَا ابنُ وهْبٍ عنْ يُونُسَ.
يحيى بن سُلَيْمَان بن يحيى بن سعيد بن مُسلم بن عبيد بن مُسلم أَبُو سعيد الْجعْفِيّ الْكُوفِي المقرىء، قَالَ الْمُنْذِرِيّ: قدم يحيى بن سُلَيْمَان مصر وَحدث بهَا، وَتُوفِّي بهَا سنة ثَمَان، وَيُقَال: سبع وَثَلَاثِينَ وَمِائَتَيْنِ، وَهُوَ أحد شُيُوخ البُخَارِيّ، يروي عَن عبد الله بن وهب عَن يُونُس بن يزِيد الْأَيْلِي عَن ابْن شهَاب، وَالْبُخَارِيّ يحْكى عَن يحيى بطرِيق النَّقْل عَنهُ بِدُونِ: حَدثنَا أَو أخبرنَا، وَلَكِن يروي عَن أَحْمد بن صَالح، وَهُوَ قَوْله:
حدَّثنا أحْمَدُ بنُ صالِحٍ حَدثنَا عَنْبَسَةُ حَدثنَا يُونُسُ عنِ ابنِ شِهابٍ قَالَ: أخبرَني عُرْوَةُ بنُ الزُّبَيْرِ أنَّ عائِشَةَ زَوْجَ النبيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أخْبَرَتْهُ أنَّ النكاحَ فِي الجَاهِليَّةِ كانَ علَى أرْبَعَةٍ أنْحاء: فينكاحُ مِنْها نِكاحُ النَّاسِ اليَوْمَ، يخْطُبُ الرَّجُلُ ولِيَّتَهُ أَو ابْنَتَهُ فيُصْدِقُها ثُمَّ يَنْكِحُها، ونِكاحُ الآخَرِ: كانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لِامْرَأتِهِ إِذا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِها: أرْسِلِي إِلَى فُلاَنٍ فاسْتَبْضِعي منْهُ ويَعْتَزلُها زَوْجُها وَلَا يَمَسُّها أبَدا حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذالِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ منْهُ، فإِذَا تَبَيَّنَ حمْلُها أَصَابَهَا زَوْجُها إِذا أحَبَّ، وإِنَّما يَفْعَلُ ذالِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةٍ الوَلَد، فَكانَ هاذا النِّكاحُ نِكاحَ الاسْتِبْضاعِ، ونِكاحُ آخَرُ: يَجْتَمِعُ الرَّهطُ مَا دُونَ العَشَرَةِ فَيَدْخُلُونَ علَى المَرْأةِ كُلُّهُمْ يُصِيبُها فإِذا حَمَلَتْ ووَضَعَتْ ومَرَّ علَيْها لَيالي بعْدَ أنْ تَضَعَ حَمْلَها، أرْسَلَتْ إِلَيْهِمْ فلَمْ يَسْتَطعْ رجُلٌ منْهُم أنْ يَمْتَنِعَ حتَّى يجتَمِعُوا عِنْدَها، تقُولُ لَهُمْ: قَدْ عرَفْتُمُ الَّذِي كانَ مِنْ أمْرِكُمُ، وقَدْ ولَدْتُ فهوَ ابْنُكَ يَا فلانَ، تُسَمِّي منْ أحَبَّتْ باسْمِهِ، فيَلْحَقُ بِهِ ولدُها لَا يَسْتَطيعُ أنْ يَمْتَنِعَ بِهِ الرَّجُلُ.
ونِكاحُ الرَّابِعِ: يَجْتَمِعُ النَّاسُ الكَثِيرُ فَيَدْخُلُونَ علَى المَرْأةِ لَا تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جاءَها، وهُنّ البغَايا، كُنَّ يَنْصِبْنَ علَى أبْوابِهِنَّ راياتٍ تكُونُ عَلما، فمَنْ أرادَهُنَّ دخَلَ علَيْهِنَّ، فإِذَا حَمَلَتْ إحْدَاهُنَّ ووَضَعَتْ حَمْلَها جُمِعُوا لهَا ودَعَوْا لَهُمُ الْقافَةَ، ثُمَّ ألْحقُوا ولَدَها بالَّذِي يَرَوْنَ، فالْتاطَ بهِ ودُعِيَ ابْنَهُ لَا يمْتَنعُ مِنْ ذالِكَ، فلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بالحَقِّ هَدَمَ نِكاحَ الجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ إلاَّ نِكاحَ النَّاسِ اليَوْمَ.

مطابقته للتَّرْجَمَة تُؤْخَذ من قَوْله: ( مِنْهَا نِكَاح النَّاس الْيَوْم) إِلَى قَوْله: ( وَنِكَاح آخر) .

وَأحمد بن صَالح أَبُو جَعْفَر الْمصْرِيّ، وعنبسة، بِفَتْح الْعين الْمُهْملَة وَسُكُون النُّون وَفتح الْبَاء الْمُوَحدَة وَالسِّين الْمُهْملَة: ابْن خَالِد بن أخي يُونُس.

والْحَدِيث أخرجه أَبُو دَاوُد أَيْضا فِي النِّكَاح عَن أَحْمد بن صَالح بِهِ.

قَوْله: ( على أَرْبَعَة أنحاء) أَي: أَرْبَعَة أَنْوَاع، وَهُوَ جمع نَحْو، يَأْتِي لمعان بِمَعْنى الْجِهَة وَالنَّوْع والمثل وَالْعلم الْمَعْرُوف فِي الْعَرَبيَّة.
قَوْله: ( وَابْنَته) كلمة: أَو، للتنويع لَا للشَّكّ.
قَوْله: ( فيصدقها) بِضَم الْيَاء وَسُكُون الصَّاد، أَي: يَجْعَل لَهَا صَدَاقا معينا.
قَوْله: ( وَنِكَاح الآخر) هُوَ النَّوْع الثَّانِي، وَهُوَ بِالْإِضَافَة فِي رِوَايَة، أَي: نِكَاح الصِّنْف الآخر، وَفِي رِوَايَة البَاقِينَ: وَنِكَاح آخر، بِالتَّنْوِينِ: وَآخر، بِدُونِ الْألف وَاللَّام صفته.
قَوْله: ( إِذا طهرت) بِلَفْظ الغائبة.
قَوْله: ( من طمثها) بِفَتْح الطَّاء الْمُهْملَة وَسُكُون الْمِيم وبالثاء الْمُثَلَّثَة أَي: من حَيْضهَا.
قَوْله: ( فاستبضعي) أَي: اطلبي مِنْهُ المباضعة أَي المجامعة، وَهِي مُشْتَقَّة من الْبضْع وَهُوَ الْفرج، وَوَقع فِي رِوَايَة إصبغ عِنْد الدَّارَقُطْنِيّ: استرضعي، بالراء بدل الْبَاء الْمُوَحدَة قَالَ: رِوَايَة مُحَمَّد بن إِسْحَاق الصَّاغَانِي الأول هُوَ الصَّوَاب يَعْنِي: الْبَاء الْمُوَحدَة.
قَوْله: ( وَلَا يَمَسهَا) أَي: وَلَا يُجَامِعهَا.
قَوْله: ( تستبضع مِنْهُ) أَي: من الرجل الَّذِي تستبضع الْمَرْأَة مِنْهُ أَي تطلب مِنْهُ الْجِمَاع.
قَوْله: ( أَصَابَهَا) أَي: جَامعهَا زَوجهَا.
قَوْله: ( وَإِنَّمَا يفعل ذَلِك) أَي: الاستبضاع من فلَان قَوْله: ( رَغْبَة) أَي: لأجل رَغْبَة ( فِي نجابة الْوَلَد) من نجب ينجب إِذا كَانَ فَاضلا نفيسا فِي نَوعه، وَكَانُوا يطْلبُونَ ذَلِك اكتسابا من مَاء الْفَحْل وَكَانُوا يطلبونه من أَشْرَافهم وَرُؤَسَائِهِمْ وأكابرهم.
قَوْله: ( نِكَاح الاستبضاع) بِالنّصب لِأَنَّهُ خبر: كَانَ، وَيجوز بِالرَّفْع على تَقْدِير: هُوَ نِكَاح الاستبضاع.
قَوْله: ( وَنِكَاح آخر) هُوَ النَّوْع الثَّالِث من الْأَنْوَاع الْأَرْبَعَة قَوْله: ( يجْتَمع الرَّهْط) وَقد مر غير مرّة أَن الرَّهْط اسْم لما دون الْعشْرَة، وَلَا يكون فيهم امْرَأَة وَلَا وَاحِد لَهُ من لَفظه، وَيجمع على أرهط وأرهاط وأراهط جمع الْجمع، وَإِنَّمَا قَالَ: مَا دون الْعشْرَة، احْتِرَازًا عَن قَول الْبَعْض: إِن الرَّهْط إِلَى الْأَرْبَعين.
قَوْله: ( كلهم يُصِيبهَا) أَي: كلهم يجامعونها وَذَلِكَ بِرِضَاهَا وبالتواطؤ بَينهم.
قَوْله: ( وَمر عَلَيْهَا لَيَال) وَفِي رِوَايَة أبي ذَر: وَمر لَيَال، بِدُونِ لفظ: عَلَيْهَا.
قَوْله: ( قد عَرَفْتُمْ) خطاب لأولئك الرِّجَال، وَفِي رِوَايَة فالتاطته وَفِي رِوَايَة الْكشميهني: قد عرفت، بِصِيغَة الْخطاب للْوَاحِد مِنْهُم.
قَوْله: ( وَقد ولدت) بِضَم التَّاء لِأَنَّهُ كَلَامهَا.
قَوْله: ( فَهُوَ ابْنك) الظَّاهِر أَنه إِذا كَانَ ذكرا تَقول: هُوَ ابْنك، وَيحْتَمل أَنه إِذا كَانَ بِنْتا لَا تَقول: هَذِه بنتك، لأَنهم كَانُوا يكْرهُونَ الْبَنَات، حَتَّى إِن مِنْهُم من كَانَ يقتل بنته الْحَقِيقِيَّة وَهِي الموؤدة.
قَوْله: ( فَيلْحق بِهِ وَلَدهَا) هَكَذَا فِي رِوَايَة أبي ذَر، وَفِي رِوَايَة غَيره: فيلتحق بِهِ وَلَدهَا وَيلْحق أَن قرىء بِفَتْح الْيَاء يكون قَوْله وَلَدهَا مَرْفُوعا بِهِ وَإِن كَانَ بِضَم الْيَاء من الالحاق يكون فِيهِ الضَّمِير يرجع إِلَى الْمَرْأَة وَيكون وَلَدهَا مَنْصُوبًا.
قَوْله: ( لَا يَسْتَطِيع أَن يمْتَنع بِهِ) وَفِي رِوَايَة الْكشميهني: مِنْهُ قَوْله: ( وَنِكَاح الرَّابِع) بِالْإِضَافَة وقطعها، وَوَجهه مَا ذَكرْنَاهُ عِنْد قَوْله: ( وَنِكَاح الآخر) .
قَوْله: ( لَا تمْتَنع) أَي: الْمَرْأَة مِمَّن جاءها، ويروي: لَا تمنع من جاءها.
قَوْله: ( البغايا) جمع بغي، وَهِي الزَّانِيَة يُقَال: بَغت الْمَرْأَة تبغي بغيا بِالْكَسْرِ: إِذا زنت فَهِيَ بغي.
قَوْله: ( رايات) جمع راية.
قَوْله: ( تكون علما) أَي: عَلامَة لمن أرادهن.
قَوْله: ( أرادهن) هُوَ رِوَايَة الْكشميهني، وَفِي رِوَايَة غَيره، فَمن أَرَادَ، فَقَط.
قَوْله: ( الْقَافة) ، وَهُوَ جمع قائف وَهُوَ الَّذِي يلْحق الْوَلَد بالوالد بالآثار الْخفية.
قَوْله: ( فالتاط بِهِ) أَي: فالتصق بِهِ، يُقَال: هَذَا لَا يلتاط بِهِ أَي: لَا يلتصق بِهِ، واستلاطوه أَي: استلحقوه، وأصل اللوط بِالْفَتْح اللصوق، وَفِي رِوَايَة الْكشميهني: فالتاطه، بِغَيْر التَّاء الْمُثَنَّاة يَعْنِي: اسْتَلْحقهُ.
قَوْله: ( نِكَاح الْجَاهِلِيَّة) وَفِي رِوَايَة الدَّارَقُطْنِيّ: نِكَاح الْجَاهِلِيَّة.
قَوْله: ( كُله) أَي: كل مَا ذكرت عَائِشَة من أَنْوَاع الْأَنْكِحَة الثَّلَاثَة،.

     وَقَالَ  الدَّاودِيّ: ذكرت عَائِشَة أَرْبَعَة أنكحة وَبَقِي عَلَيْهَا أنحاء لم تذكرها.
الأول: نِكَاح الخدن، وَهِي فِي قَوْله تَعَالَى: { وَلَا متخذات أخدان} ( النِّسَاء: 52) كَانُوا يَقُولُونَ: مَا استتر فَلَا بَأْس بِهِ وَمَا ظهر فَهُوَ لوم الثَّانِي: نِكَاح الْمُتْعَة.
الثَّالِث: نِكَاح الْبَدَل، وَقد أخرج الدَّارَقُطْنِيّ من حَدِيث أبي هُرَيْرَة: كَانَ الْبَدَل فِي الْجَاهِلِيَّة أَن يَقُول الرجل للرجل: إنزل لي عَن امْرَأَتك، وَأنزل لَك عَن امْرَأَتي وَأَزِيدك، وَإِسْنَاده ضَعِيف جدا.