هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
4885 وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ : عَنْ أَبِي عُثْمَانَ واسْمُهُ الجَعْدُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : مَرَّ بِنَا فِي مَسْجِدِ بَنِي رِفَاعَةَ ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَرَّ بِجَنَبَاتِ أُمِّ سُلَيْمٍ دَخَلَ عَلَيْهَا فَسَلَّمَ عَلَيْهَا ، ثُمَّ قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا بِزَيْنَبَ ، فَقَالَتْ لِي أُمُّ سُلَيْمٍ : لَوْ أَهْدَيْنَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدِيَّةً ، فَقُلْتُ لَهَا : افْعَلِي ، فَعَمَدَتِ الى تَمْرٍ وَسَمْنٍ وَأَقِطٍ ، فَاتَّخَذَتْ حَيْسَةً فِي بُرْمَةٍ ، فَأَرْسَلَتْ بِهَا مَعِي إِلَيْهِ ، فَانْطَلَقْتُ بِهَا إِلَيْهِ ، فَقَالَ لِي : ضَعْهَا ثُمَّ أَمَرَنِي فَقَالَ : ادْعُ لِي رِجَالًا - سَمَّاهُمْ - وَادْعُ لِي مَنْ لَقِيتَ قَالَ : فَفَعَلْتُ الَّذِي أَمَرَنِي ، فَرَجَعْتُ فَإِذَا البَيْتُ غَاصٌّ بِأَهْلِهِ ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى تِلْكَ الحَيْسَةِ وَتَكَلَّمَ بِهَا مَا شَاءَ اللَّهُ ، ثُمَّ جَعَلَ يَدْعُو عَشَرَةً عَشَرَةً يَأْكُلُونَ مِنْهُ ، وَيَقُولُ لَهُمْ : اذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ ، وَلْيَأْكُلْ كُلُّ رَجُلٍ مِمَّا يَلِيهِ قَالَ : حَتَّى تَصَدَّعُوا كُلُّهُمْ عَنْهَا ، فَخَرَجَ مِنْهُمْ مَنْ خَرَجَ ، وَبَقِيَ نَفَرٌ يَتَحَدَّثُونَ ، قَالَ : وَجَعَلْتُ أَغْتَمُّ ، ثُمَّ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ الحُجُرَاتِ وَخَرَجْتُ فِي إِثْرِهِ ، فَقُلْتُ : إِنَّهُمْ قَدْ ذَهَبُوا ، فَرَجَعَ فَدَخَلَ البَيْتَ ، وَأَرْخَى السِّتْرَ وَإِنِّي لَفِي الحُجْرَةِ ، وَهُوَ يَقُولُ : { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ ، إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ ، وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا ، فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَ مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ، إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ ، وَاللَّهُ لاَ يَسْتَحْيِي مِنَ الحَقِّ } قَالَ أَبُو عُثْمَانَ : قَالَ أَنَسٌ : إِنَّهُ خَدَمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  سماهم وادع لي من لقيت قال : ففعلت الذي أمرني ، فرجعت فإذا البيت غاص بأهله ، فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم وضع يديه على تلك الحيسة وتكلم بها ما شاء الله ، ثم جعل يدعو عشرة عشرة يأكلون منه ، ويقول لهم : اذكروا اسم الله ، وليأكل كل رجل مما يليه قال : حتى تصدعوا كلهم عنها ، فخرج منهم من خرج ، وبقي نفر يتحدثون ، قال : وجعلت أغتم ، ثم خرج النبي صلى الله عليه وسلم نحو الحجرات وخرجت في إثره ، فقلت : إنهم قد ذهبوا ، فرجع فدخل البيت ، وأرخى الستر وإني لفي الحجرة ، وهو يقول : { يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي ، إلا أن يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه ، ولكن إذا دعيتم فادخلوا ، فإذا طعمتم فانتشروا ولا مستأنسين لحديث ، إن ذلكم كان يؤذي النبي فيستحيي منكم ، والله لا يستحيي من الحق } قال أبو عثمان : قال أنس : إنه خدم رسول الله صلى الله عليه وسلم عشر سنين
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير، 

Narrated Anas bin Malik:

Whenever the Prophet (ﷺ) passed by (my mother Um-Sulaim) he used to enter her and greet her. Anas further said: Once the Prophet (ﷺ) way a bridegroom during his marriage with Zainab, Um Sulaim said to me, Let us give a gift to Allah's Messenger (ﷺ) . I said to her, Do it. So she prepared Haisa (a sweet dish) made from dates, butter and dried yoghurt and she sent it with me to him. I took it to him and he said, Put it down, and ordered me to call some men whom he named, and to invite whomever I would meet. I did what he ordered me to do, and when I returned, I found the house crowded with people and saw the Prophet (ﷺ) keeping his hand over the Haisa and saying over it whatever Allah wished (him to say). Then he called the men in batches of ten to eat of it, and he said to them, Mention the Name of Allah, and each man should eat of the dish the nearest to him. When all of them had finished their meals, some of them left and a few remained there talking, over which I felt unhappy. Then the Prophet (ﷺ) went out towards the dwelling places (of his wives) and I too, went out after him and told him that those people had left. Then he returned and entered his dwelling place and let the curtains fall while I was in (his) dwelling place, and he was reciting the Verses:-- 'O you who believe! Enter not the Prophet's house until leave is given you for a meal, (and then) not (as early as) to what for its preparation. But when you are invited, enter, and when you have taken your meals, disperse without sitting for a talk. Verily such (behavior) annoys the Prophet; and he would be shy of (asking) you (to go), but Allah is not shy of (telling you) the Truth.' (33-53) Abu Uthman said: Anas said, I served the Prophet for ten years.

":"اور ابراہیم بن طہمان نے ابوعثمان جعدبن دینار سے روایت کیا ، انہوں نے انس بن مالک سے ، ابوعثمان کہتے ہیں کہانس رضی اللہ عنہ ہمارے سامنے سے بنی رفاعہ کی مسجد میں ( جو بصرہ میں ہے ) گزرے ۔ میں نے ان سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قاعدہ تھا آپ جب ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف سے گزرتے تو ان کے پاس جاتے ، ان کو سلام کرتے ( وہ آپ کی رضاعی خالہ ہوتی تھیں ) پھر انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک بار ایسا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دولہا تھے ۔ آپ نے زینب رضی اللہ عنہا سے نکا ح کیا تھا تو ام سلیم ( میری ماں ) مجھ سے کہنے لگیں اس وقت ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ تحفہ بھیجیں تو اچھا ہے ۔ میں نے کہا مناسب ہے ۔ انہوں نے کھجور اور گھی اور پنیر ملا کر ایک ہانڈی میں حلوہ بنایا اور میرے ہاتھ میں دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھجوایا ، میں لے کر آپ کے پاس چلا ، جب پہنچا تو آپ نے فرمایا رکھ دے اور جا کر فلاں فلاں لوگوں کو بلا لا آپ نے ان کا نام لیا اور جو بھی کوئی تجھ کو راستے میں ملے اس کو بلا لے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آپ کے حکم کے موافق لوگوں کو دعوت دینے گیا ۔ لوٹ کر جو آ یا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سارا گھر لوگوں سے بھرا ہوا ہے ۔ میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونو ں ہاتھ اس حلوے پر رکھے اور جو اللہ کو منظور تھا وہ زبان سے کہا ( برکت کی دعا فرمائی ) پھر دس دس آدمیوں کو کھانے کے لئے بلانا شروع کیا ۔ آپ ان سے فرماتے جاتے تھے اللہ کا نام لو اور ہر ایک آدمی اپنے آگے سے کھائے ۔ ( رکابی کے بیچ میں ہاتھ نہ ڈالے ) یہا ں تک کہ سب لوگ کھا کر گھر کے باہر چل دئیے ۔ تین آدمی گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے اور مجھ کو ان کے نہ جانے سے رنج پیدا ہوا ( اس خیال سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو گی ) آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے حجروں پر گئے میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا پھر راستے میں میں نے آپ سے کہا اب وہ تین آدمی بھی چلے گئے ہیں ۔ اس وقت آپ لوٹے اور ( زینب رضی اللہ عنہا کے حجرے میں ) آئے ۔ میں بھی حجرے ہی میں تھا لیکن آپ نے میری اور اپنے بیچ میں پردہ ڈال لیا ۔ آپ سورۃ الاحزاب کی یہ آیت پڑھ رہے تھے ۔ ” مسلمانو ! نبی کے گھروں میں نہ جایا کرومگر جب کھانے کے لئے تم کو اند ر آنے کی اجازت دی جائے اس وقت جا ؤ وہ بھی ایسا ٹھیک وقت دیکھ کر کہ کھانے کے پکنے کا انتظار نہ کرنا پڑے البتہ جب بلائے جاؤ تو اندر آ جاؤ اور کھانے سے فارغ ہوتے ہی چل دو ۔ باتوں میں لگ کر وہا ں بیٹھے نہ رہا کرو ، ایسا کرنے سے پیغمبر کو تکلیف ہوتی تھی ، اس کو تم سے شرم آتی تھی ( کہ تم سے کہے کہ چلے جاؤ ) اللہ تعالیٰ حق بات میں نہیں شرماتا ۔ “ ابوعثمان ( جعدی بن دینار ) کہتے تھے کہ انس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے ۔

شرح الحديث من إرشاد الساري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    باب الْهَدِيَّةِ لِلْعَرُوسِ
( باب) إهداء ( الهدية للعروس) صبيحة البناء.


[ قــ :4885 ... غــ : 5163 ]
- وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: عَنْ أَبِي عُثْمَانَ وَاسْمُهُ الْجَعْدُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: مَرَّ بِنَا فِي مَسْجِدِ بَنِي رِفَاعَةَ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- إِذَا مَرَّ بِجَنَبَاتِ أُمِّ سُلَيْمٍ دَخَلَ عَلَيْهَا فَسَلَّمَ عَلَيْهَا.
ثُمَّ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عَرُوسًا بِزَيْنَبَ، فَقَالَتْ لِي أُمُّ سُلَيْمٍ: لَوْ اهْدَيْنَا لِرَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- هَدِيَّةً، فَقُلْتُ لَهَا: افْعَلِي.
فَعَمَدَتْ إِلَى تَمْرٍ وَسَمْنٍ وَأَقِطٍ فَاتَّخَذَتْ حَيْسَةً فِي بُرْمَةٍ فَأَرْسَلَتْ بِهَا مَعِي إِلَيْهِ، فَانْطَلَقْتُ بِهَا إِلَيْهِ فَقَالَ لِي: «ضَعْهَا».
ثُمَّ أَمَرَنِي فَقَالَ: «ادْعُ لِي رِجَالًا» سَمَّاهُمْ، وَادْعُ لِي مَنْ لَقِيتَ.
قَالَ: فَفَعَلْتُ الَّذِي أَمَرَنِي فَرَجَعْتُ فَإِذَا الْبَيْتُ غَاصٌّ بِأَهْلِهِ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى تِلْكَ الْحَيْسَةِ وَتَكَلَّمَ بِهَا مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ جَعَلَ يَدْعُو عَشَرَةً عَشَرَةً يَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَقُولُ لَهُمُ: «اذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ، وَلْيَأْكُلْ كُلُّ رَجُلٍ مِمَّا يَلِيهِ» قَالَ: حَتَّى تَصَدَّعُوا كُلُّهُمْ عَنْهَا.
فَخَرَجَ مِنْهُمْ مَنْ خَرَجَ، وَبَقِيَ نَفَرٌ يَتَحَدَّثُونَ، قَالَ: وَجَعَلْتُ أَغْتَمُّ ثُمَّ خَرَجَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- نَحْوَ الْحُجُرَاتِ، وَخَرَجْتُ فِي إِثْرِهِ فَقُلْتُ: إِنَّهُمْ قَدْ ذَهَبُوا فَرَجَعَ فَدَخَلَ الْبَيْتَ وَأَرْخَى السِّتْرَ، وَإِنِّي لَفِي الْحُجْرَةِ وَهْوَ يَقُولُ: «{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَ مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لاَ يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ} [الأحزاب: 53] قَالَ أَبُو عُثْمَانَ: قَالَ أَنَسٌ إِنَّهُ خَدَمَ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عَشْرَ سِنِينَ.

( وقال إبراهيم) بن طهمان الهروي: ( عن أبي عثمان واسمه الجعد) بفتح الجيم وسكون العين المهملة ابن دينار اليشكري البصري ( عن أنس بن مالك قال) أبو عثمان الجعد: ( مرّ بنا) أنس بالبصرة ( في مسجد بني رفاعة) بكسر الراء وتخفيف الفاء وبالعين المهملة ابن الحارث ( فسمعته يقول: كان النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- إذا مرّ بجنبات) أمي ( أم سليم) بفتح الجيم والنون والموحدة أي ناحيتها ( دخل عليها فسلم عليها ثم قال) أنس: ( كان النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عروسًا بزينب) بنت جحش الأسدية ( فقالت لي) أمي: ( أم سليم لو أهدينا لرسول الله) ولأبي ذر عن الكشميهني إلى رسول الله ( -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- هدية فقلت لها: افعلي) ذلك ( فعمدت) بفتح الميم ( إلى تمر وسمن وأقط فاتخذت حيسة) بفتح الحاء المهملة وبعد التحتية سين مهملة ( في برمة) في قِدر من حجر ( فأرسلت بها) بالحيسة ( معي إليه) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ( فانطلقت بها إليه فقال لي) :
( ضعها، ثم أمرني فقال: ادع لي رجالًا) سماهم ( وادع لي من لقيت.
قال)
أنس: ( ففعلت الذي أمرني) به ( فرجعت فإذا البيت غاص) بالغين المعجمة والصاد المهملة المشددة بينهما ألف أي ممتلئ ( بأهله فرأيت النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وضع يديه) بالتثنية ( على تلك الحيسة) التي أرسلتها أم سليم ( وتكلم بها) بالموحدة قبل الهاء مصححًا عليها بالفرع كأصله ( ما شاء الله) أن يتكلم، وسقط لفظ بها لأبي ذر ( ثم جعل يدعو عشرة عشرة) من القوم الذين اجتمعوا ( يأكلون منه) من الطعام المسمى بالحيسة ( ويقول لهم) عليه الصلاة والسلام: ( اذكروا اسم الله وليأكل كل رجل مما يليه.
قال: حتى
تصدعوا)
بتشديد الدال المهملة تفرقوا ( كلهم عنها) عن الحيسة ( فخرج منهم من خرج وبقي نفر) ثلاثة رجال ( يتحدثون) في الحجرة ( قال) أنس ( وجعلت أغتمّ) بالغين المعجمة وتشديد الميم أي أحزن من عدم خروجهم ( ثم خرج النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- نحو الحجرات) سكن أمهات المؤمنين ( وخرجت في أثره فقلت) له ( إنهم قد ذهبوا فرجع) -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ( فدخل البيت وأرخى الستر وإني لفي الحجرة وهو) عليه الصلاة والسلام ( يقول: { يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم} ) أي إلا مصحوبين بالإذن فهو في موضع الحال ( { إلى طعام غير ناظرين إناه} ) مصدر أنى الطعام إذا أدرك أي لا ترقبوا الطعام إذا طبخ حتى إذا قارب الاستواء تعرضتم للدخول ( { ولكن إذا دعيتم فادخلوا فإذا طعمتم فانتشروا} ) تفرقوا وأخرجوا من منزله ( { ولا مستأنسين لحديث وإن ذلكم} ) الانتظار والاستئناس ( { كان يؤذي النبي} ) لتضييق المنزل عليه وعلى أهله ( { فيستحيي منكم} ) أن يخرجكم ( { والله لا يستحيي من الحق} ) [الأحزاب: 53] وسقط لأبي ذر قوله: { ولكن إذا دعيتم} إلى آخره وقال بعد قوله: { إناه} إلى قوله: { والله لا يستحيي من الحق} ( قال أبو عثمان) الجعد ( قال أنس: إنه) أي أنسًا ( خدم رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عشر سنين) .

قال في الفتح: وقد استشكل القاضي ما وقع هنا أن الوليمة بزينب كانت من الحيس الذي أهدته أم سليم وإن المشهور من الروايات أنه أولم عليها بالخبز واللحم ولم يقع في القصة تكثير ذلك الطعام وإنما فيه أنه أشبع المسلمين خبزًا ولحمًا قال: وهذا وهم من رواية وتركيب القصة على أخرى.
وأجاب: بأن حضور الحيسة صادف حضور الخبز واللحم فأكلوا كلهم من ذلك.

وقال القرطبي: لعل الذين دعوا إلى الخبز واللحم أكلوا حتى شبعوا وذهبوا ولم يرجعوا وبقي النفر الذين كانوا يتحدثون عنده حتى جاء أنس بالحيسة فأمر أن يدعو أناسًا آخرين ومَن لقي فدخلوا فأكلوا أيضًا حتى شبعوا واستمر أولئك النفر يتحدثون.

وهذا الحديث أخرجه مسلم في النكاح والترمذي في التفسير.