هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
586 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ ، كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ ، وَإِنْ أَرْبَعٌ فَخَامِسٌ أَوْ سَادِسٌ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلاَثَةٍ ، فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ ، قَالَ : فَهُوَ أَنَا وَأَبِي وَأُمِّي - فَلاَ أَدْرِي قَالَ : وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ - بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ ، وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ لَبِثَ حَيْثُ صُلِّيَتِ العِشَاءُ ، ثُمَّ رَجَعَ ، فَلَبِثَ حَتَّى تَعَشَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَاءَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ ، قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ : وَمَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ - أَوْ قَالَتْ : ضَيْفِكَ - قَالَ : أَوَمَا عَشَّيْتِيهِمْ ؟ قَالَتْ : أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ ، قَدْ عُرِضُوا فَأَبَوْا ، قَالَ : فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ ، فَقَالَ يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ ، وَقَالَ : كُلُوا لاَ هَنِيئًا ، فَقَالَ : وَاللَّهِ لاَ أَطْعَمُهُ أَبَدًا ، وَايْمُ اللَّهِ ، مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرُ مِنْهَا - قَالَ : يَعْنِي حَتَّى شَبِعُوا - وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ مِنْهَا ، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ : يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا ؟ قَالَتْ : لاَ وَقُرَّةِ عَيْنِي ، لَهِيَ الآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلاَثِ مَرَّاتٍ ، فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ ، وَقَالَ : إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ - يَعْنِي يَمِينَهُ - ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ، ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ ، وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ ، فَمَضَى الأَجَلُ ، فَفَرَّقَنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا ، مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ ، اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ ، فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ ، أَوْ كَمَا قَالَ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  فلا أدري قال : وامرأتي وخادم بيننا وبين بيت أبي بكر ، وإن أبا بكر تعشى عند النبي صلى الله عليه وسلم ، ثم لبث حيث صليت العشاء ، ثم رجع ، فلبث حتى تعشى النبي صلى الله عليه وسلم ، فجاء بعد ما مضى من الليل ما شاء الله ، قالت له امرأته : وما حبسك عن أضيافك أو قالت : ضيفك قال : أوما عشيتيهم ؟ قالت : أبوا حتى تجيء ، قد عرضوا فأبوا ، قال : فذهبت أنا فاختبأت ، فقال يا غنثر فجدع وسب ، وقال : كلوا لا هنيئا ، فقال : والله لا أطعمه أبدا ، وايم الله ، ما كنا نأخذ من لقمة إلا ربا من أسفلها أكثر منها قال : يعني حتى شبعوا وصارت أكثر مما كانت قبل ذلك ، فنظر إليها أبو بكر فإذا هي كما هي أو أكثر منها ، فقال لامرأته : يا أخت بني فراس ما هذا ؟ قالت : لا وقرة عيني ، لهي الآن أكثر منها قبل ذلك بثلاث مرات ، فأكل منها أبو بكر ، وقال : إنما كان ذلك من الشيطان يعني يمينه
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،  عن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ ، كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ ، وَإِنْ أَرْبَعٌ فَخَامِسٌ أَوْ سَادِسٌ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلاَثَةٍ ، فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ ، قَالَ : فَهُوَ أَنَا وَأَبِي وَأُمِّي - فَلاَ أَدْرِي قَالَ : وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ - بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ ، وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ لَبِثَ حَيْثُ صُلِّيَتِ العِشَاءُ ، ثُمَّ رَجَعَ ، فَلَبِثَ حَتَّى تَعَشَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَاءَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ ، قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ : وَمَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ - أَوْ قَالَتْ : ضَيْفِكَ - قَالَ : أَوَمَا عَشَّيْتِيهِمْ ؟ قَالَتْ : أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ ، قَدْ عُرِضُوا فَأَبَوْا ، قَالَ : فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ ، فَقَالَ يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ ، وَقَالَ : كُلُوا لاَ هَنِيئًا ، فَقَالَ : وَاللَّهِ لاَ أَطْعَمُهُ أَبَدًا ، وَايْمُ اللَّهِ ، مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرُ مِنْهَا - قَالَ : يَعْنِي حَتَّى شَبِعُوا - وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ مِنْهَا ، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ : يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا ؟ قَالَتْ : لاَ وَقُرَّةِ عَيْنِي ، لَهِيَ الآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلاَثِ مَرَّاتٍ ، فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ ، وَقَالَ : إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ - يَعْنِي يَمِينَهُ - ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ، ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ ، وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ ، فَمَضَى الأَجَلُ ، فَفَرَّقَنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا ، مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ ، اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ ، فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ ، أَوْ كَمَا قَالَ .

Narrated Abu `Uthman:

`Abdur Rahman bin Abi Bakr said, The Suffa Companions were poor people and the Prophet (ﷺ) said, 'Whoever has food for two persons should take a third one from them (Suffa companions). And whosoever has food for four persons he should take one or two from them' Abu Bakr took three men and the Prophet (ﷺ) took ten of them. `Abdur Rahman added, my father my mother and I were there (in the house). (The sub-narrator is in doubt whether `Abdur Rahman also said, 'My wife and our servant who was common for both my house and Abu Bakr's house). Abu Bakr took his supper with the Prophet (ﷺ) and remained there till the `Isha' prayer was offered. Abu Bakr went back and stayed with the Prophet (ﷺ) till the Prophet (ﷺ) took his meal and then Abu Bakr returned to his house after a long portion of the night had passed. Abu Bakr's wife said, 'What detained you from your guests (or guest)?' He said, 'Have you not served them yet?' She said, 'They refused to eat until you come. The food was served for them but they refused. `Abdur Rahman added, I went away and hid myself (being afraid of Abu Bakr) and in the meantime he (Abu Bakr) called me, 'O Ghunthar (a harsh word)!' and also called me bad names and abused me and then said (to his family), 'Eat. No welcome for you.' Then (the supper was served). Abu Bakr took an oath that he would not eat that food. The narrator added: By Allah, whenever any one of us (myself and the guests of Suffa companions) took anything from the food, it increased from underneath. We all ate to our fill and the food was more than it was before its serving. Abu Bakr looked at it (the food) and found it as it was before serving or even more than that. He addressed his wife (saying) 'O the sister of Bani Firas! What is this?' She said, 'O the pleasure of my eyes! The food is now three times more than it was before.' Abu Bakr ate from it, and said, 'That (oath) was from Satan' meaning his oath (not to eat). Then he again took a morsel (mouthful) from it and then took the rest of it to the Prophet. So that meal was with the Prophet. There was a treaty between us and some people, and when the period of that treaty had elapsed the Prophet (ﷺ) divided us into twelve (groups) (the Prophet's companions) each being headed by a man. Allah knows how many men were under the command of each (leader). So all of them (12 groups of men) ate of that meal.

":"ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا ، ان سے ان کے باپ سلیمان بن طرخان نے ، کہا کہ ہم سے ابوعثمان نہدی نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بیان کی کہاصحاب صفہ نادار مسکین لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ تیسرے ( اصحاب صفہ میں سے کسی ) کو اپنے ساتھ لیتا جائے ۔ اور جس کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہے تو وہ پانچویں یا چھٹے آدمی کو سائبان والوں میں سے اپنے ساتھ لے جائے ۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمی اپنے ساتھ لائے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ گھر کے افراد میں اس وقت باپ ، ماں اور میں تھا ۔ ابوعثمان راوی کا بیان ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے یہ کہا یا نہیں کہ میری بیوی اور ایک خادم جو میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کے گھر کے لیے تھا یہ بھی تھے ۔ خیر ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ٹھہر گئے ۔ ( اور غالباً کھانا بھی وہیں کھایا ۔ صورت یہ ہوئی کہ ) نماز عشاء تک وہیں رہے ۔ پھر ( مسجد سے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں آئے اور وہیں ٹھہرے رہے تاآنکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کھانا کھا لیا ۔ اور رات کا ایک حصہ گزر جانے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آپ گھر تشریف لائے تو ان کی بیوی ( ام رومان ) نے کہا کہ کیا بات پیش آئی کہ مہمانوں کی خبر بھی آپ نے نہ لی ، یا یہ کہ مہمان کی خبر نہ لی ۔ آپ نے پوچھا ، کیا تم نے ابھی انہیں رات کا کھانا نہیں کھلایا ۔ ام رومان نے کہا کہ میں کیا کروں آپ کے آنے تک انھوں نے کھانے سے انکار کیا ۔ کھانے کے لیے ان سے کہا گیا تھا لیکن وہ نہ مانے ۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ڈر کر چھپ گیا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پکارا اے غنثر ! ( یعنی او پاجی ) آپ نے برا بھلا کہا اور کوسنے دئیے ۔ فرمایا کہ کھاؤ تمہیں مبارک نہ ہو ! خدا کی قسم ! میں اس کھانے کو کبھی نہیں کھاؤں گا ۔ ( آخر مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا ) ( عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کہا ) خدا گواہ ہے کہ ہم ادھر ایک لقمہ لیتے تھے اور نیچے سے پہلے سے بھی زیادہ کھانا ہو جاتا تھا ۔ بیان کیا کہ سب لوگ شکم سیر ہو گئے ۔ اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ گیا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو کھانا پہلے ہی اتنا یا اس سے بھی زیادہ تھا ۔ اپنی بیوی سے بولے ۔ بنوفراس کی بہن ! یہ کیا بات ہے ؟ انھوں نے کہا کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک کی قسم ! یہ تو پہلے سے تین گنا ہے ۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہ کھانا کھایا اور کہا کہ میرا قسم کھانا ایک شیطانی وسوسہ تھا ۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بقیہ کھانا لے گئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ وہ صبح تک آپ کے پاس رکھا رہا ۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ ہم مسلمانوں کا ایک دوسرے قبیلے کے لوگوں سے معاہدہ تھا ۔ اور معاہدہ کی مدت پوری ہو چکی تھی ۔ ( اس قبیلہ کا وفد معاہدہ سے متعلق بات چیت کرنے مدینہ میں آیا ہوا تھا ) ہم نے ان میں سے بارہ آدمی جدا کئے اور ہر ایک کے ساتھ کتنے آدمی تھے اللہ کو ہی معلوم ہے ان سب نے ان میں سے کھایا ۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کچھ ایسا ہی کہا ۔

شرح الحديث من فتح البارى لابن رجب

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    باب
السمر مع الأهل والضيف
[ قــ :586 ... غــ :602 ]
- ثنا أبو النعمان: ثنا المعتمر بن سليمان: ثنا أبي: ثنا أبو عثمان، عن عبد الرحمن بن أبي بكر، قال: إن أصحاب الصفة كانوا أناساً فقراء، وأن النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قال: ( من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث، وإن أربعة فخامس أو سادس) وإن أبا بكر جاء بثلاثة، وانطلق النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بعشرة.
قال: فهو أنا وأبي وأمي – ولا أدري هل قال: وامرأتي – وخادم بين بيتنا وبيت أبي بكر، وإن أبا بكر تعشى عند النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، ثم لبث حتى صليت العشاء، ثم رجع فلبث حتى تعشى النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، فجاء بعدما مضى من الليل ما شاء الله.
قالت له امرأته: ما حبسك عن أضيافك – أو قال: ضيفك -؟ قال: أو ما عشيتيهم؟ قالت: أبوا حتى تجيء، قد عرضوا فأبوا.
قال: فذهبت أنا فاختبأت، قال: يا غنثر، فجدع وسب، وقال: كلوا لا هنيئاً.
فقال: والله، لا أطعمه أبداً، وايم الله، ما كنا ناخذ من لقمة إلا ربا من أسفلها أكثر منها، حتى شبعوا، وصارت أكثر مما كانت قبل ذلك، فنظر إليها أبو بكر فإذا هي كما هي أو أكثر.
قال لامرأته: يا أخت بني فراس، ما هذا؟ قالت: لا وقرة عيني، لهي الآن أكثر منها قبل ذلك بثلاث مرات، فأكل منها أبو بكر، وقال: إنما كان ذلك من الشيطان – يعني: يمينه -، ثم أكل منها لقمة، ثم حملها إلى النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، فأصبحت عنده، وكان بيننا وبين قوم عقد، فمضى الأجل، فعرفنا اثني عشر رجلاً، مع كل رجل منهم أناس، الله أعلم كم مع كل رجل، فأكلوا منها أجمعون – أو كما قال.

في هذا الحديث فوائد كثيرة:
منها: استحباب إيثار الفقراء بالشبع من الطعام ومواساتهم فيه، فلهذا أمر من كان عنده طعام اثنين أن يذهب بثالث، ومن كان عنده طعام أربعة أن يذهب بخامس – أو سادس -، وهذا شك من الراوي.

ولفظ مسلم في هذا الحديث: ( من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثلاثة، ومن كان عنده طعام أربعة فليذهب بخامس – بسادس) - أو كما قال.

وهذا يدل على أن الراوي شك.

وفي ( الصحيحين) ، عن أبي هريرة، عن النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، قال: ( طعام الاثنين كافي الثلاثة، وطعام الثلاثة كافي الأربعة) .
وفي ( صحيح مسلم) ، عن أبي الزبير، عن جابر، عن النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ( طعام الواحد يكفي الاثنين، وطعام الاثنين يكفي الأربعة، وطعام الأربعة يكفي الثمانية) .

وفي هذا إشارة إلى أن البركة تتضاعف مع الكثرة والاجتماع على الطعام.

وفي ( سنن ابن ماجه) بإسناد ضعيف، عن عمر – مرفوعاً -: ( كلوا جميعاً ولا تفرقوا؛ فإن البركة مع الجماعة) .

وخرج أبو داود وابن ماجه من حديث وحشي، أن أصحاب النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قالوا: يا رسول الله، إنا نأكل ولا نشبع؟ قال: ( فلعلكم تتفرقون؟) قالوا: نعم.
قال: ( فاجتمعوا على طعامكم، واذكروا اسم الله يبارك لكم فيه) .

ومعنى: ( يكفي) : أنه يكتفي به، وإن لم يشبعه.

وكان عمر في عام الرمادة يدخل على أهل البيت من المسلمين مثلهم، ويقول: لن يهلك امرؤ وعنده نصف قوته.

فهذا مأخوذ من هذا الحديث.
والله أعلم.

ومجئ أبي بكر بثلاثة، إن كان هو وامرأته وابنه فقط، فقد أتى بنظير عدتهم، وإن كانوا خمسة – على رواية الشك -، فقد صاروا ثمانية، وطعام الأربعة يكفي الثمانية.

وأخذ النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عشرة على قدر قوته على الإيثار، وما خصه الله به من الجود والكرم في اليسر والإعسار.

ومنها: أنه إذ أتى الأنسان بضيوف إلى منزله، فإنه يجوز له أن يكلهم إلى أهله وولده، ولا يحضر معهم في الأكل؛ فإن في ذلك كفاية إذا وثق من اهله وولده بالقيام بحقهم.

ومنها: اختصاص أبي بكر بالنبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - في عشائه عنده، واحتباسه إلى أن يمضي ما شاء الله من الليل.

وقد سبق حديث عمر في سمر أبي بكر وعمر عند النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - في الباب الماضي.

وأماسب أبي بكر ولده؛ فظنه أنه قصر في حق ضيفه، ولم يقم به كما ينبغي.

ومعنى ( جدع) – أي: قطعه بالقول الغليظ.

وأماقوله: ( يا غنثر) ، فروي بوجهين – ذكرهما الخطأبي -:
أحدهما: ( عنتر) بالعين المهملة، والتاء المثناة من فوق، وهما مفتوحتان.

قال الخطأبي: إن كانت هذه محفوظة، فالعنتر: الذباب -: قاله ثعلب.

سمي به لصوته؛ وكأنه حين حقره وصغره شبهه بالذباب.

والثاني: ( غنثر) بالغين المعجمة المضمومة وبالثاء المثلثة -، فهو مأخوذ من الغثارة، وهي: الجهل، يقال: رجل أغثر وغنثر.
والنون زائدة.
ومنها: إثبات كرامات الأولياء وخرق العوائد لهم.

وهو قول عامة أهل السنة، ووافق على ذلك المعتزلة في زمن الأنبياء خاصة، كما جرى لأبي بكر في هذه القضية، وجعلوها من جملة معجزاتهم حينئذ.

والتحقيق: أنها من جملة معجزات الأنبياء على كل حال، وفي كل زمان؛ لأن ما يكرم الله بذلك أولياءه، فإنما هو من بركة اتباعهم للأنبياء، وحسن اقتدائهم بهم، فدوام ذلك لأتباعهم وخواصهم من جملة معجزاتهم وآياتهم.

ومنها: جواز الإهداء إلى الأخوان الطعام بالليل، مع العلم بأنهم قد تعشوا واكتفوا، وإن أدى ذلك إلى أن يبيت الطعام عندهم.

واستمرت هذه الآية في ذلك الطعام حتى أكل منه الجمع الكثير من الغد.

ومعنى: ( عرفنا اثني عشر رجلاً) – أي: جعلناهم عرفاً.

وروي: ( ففرقنا) .

ومنها: من حلف على يمين، فرأى غيرها خيراً منها، فإنه يأتي الذي هو خير، ولا تحرم عليه يمينه فعل ما حلف على الامتناع منه، وهذا قول جمهور العلماء.

وقد ثبت، أن النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أمر بأن يأتي الذي هو خير ويكفر، وكان في نفسه يفعل ذلك.

وقد قيل: إن اليمين تحرم المحلوف عليه تحريماً ترفعه الكفارة.

والصحيح: خلافه؛ لأنه يجوز الإقدام على فعل المحلوف قبل التكفير بالاتفاق، ولو كان محرماً لوجب تحليله بالكفارة قبله، كالظهار.

وفي ( سنن أبي داود) هذا الحديث، قال: ( ولم يبلغني كفارة) وهذا من قول بعض الرواة.

وهذا بمجرده لا ينفي أن يكون أبو بكر كفر عن يمينه، بل الظاهر – أو المجزوم به – انه كفرها.

وقد ثبت من حديث هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، قالت: كان أبو بكر إذا حلف على يمين لا يحنث، حتى نزلت آية الكفارة، فقال: لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيراً منها إلا أتيت الذي هو خير، وكفرت يميني.

كذا رواه يحيى القطان والليث والثوري وابن المبارك وغيرهم، عن هشام.

وخرجه البخاري في ( صحيحه هذا) من رواية النضر بن شميل، عن هشام.

وخالفهم الطفاوي، فرواه عن هشام، عن أبيه، عن عائشة.

ورفعه وهم منه، والصحيح: كان أبو بكر -: كذا قاله البخاري والدارقطني.

وفي ( صحيح مسلم) عن أبي هريرة، قال: أعتم رجل عند النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، ثم رجع إلى أهله، فوجد الصبية قد ناموا، فاتاه أهله بطعام، فحلف لا يأكل؛ من أجل صبيته، ثم بدا له فأكل، فأتي رسول الله - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -[فذكر] ذلك [له] ، فقال رسول الله - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ( من حلف على يمين فرأى غيرها خيراً منها فليأتها، وليكفر [عن] يمينه) .

ولعل هذا الرجل هو أبو بكر الصديق، وتكون الإشارة إلى هذا القصة، إلا أن حديث عبد الرحمن يدل على أنه لم يكن لأبي بكر صبية.

وقد ذهب قوم إلى أن من حلف على شيء فرأى غيره خيراً منه أنه يأتي الذي هو خير، ويكون ذلك كفارة يمينه، ولا يحتاج إلى كفارة بمال أو صوم.

وهذا معروف عن ابن المسيب والشعبي وسعيد بن جبير وسالم وعكرمة، وزاد عليه، فجعل من حلف بطلاق على معصية، أنه لا يفعل ما حلف عليه، ولا طلاق عليه.

وهذا شذوذ.

وروي أصل هذا عن ابن عباس.

وروي عنه مرفوعاً.
خرجه ابن حبان في ( صحيحه) .

ولا يصح رفعه.

وروى مالك بن يحيى بن عمرو بن مالك النكري، عن أبيه، عن جده، عن أبي الجوزاء، عن ابن عباس، عن النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ( من حلف على يمين، فرأى غيرها خيراً منها، فليأتها؛ فإنها كفارتها، إلا طلاقاً أو عتاقاً) .

خرجه ابن عدي.

وقال: هو غير محفوظ؛ تفرد به يحيى، عن أبيه.

ويحيى هذا، ضعفه ابن معين وغيره.

وقد روي عن النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - من وجوه متعددة، أنها كفارتها أن يأتي الذي هو خير، وفي أسانيدها كلها مقال.

والأحاديث الصحاح كلها تدل على أنه يكفر يمينه، قال ذلك أبو داود ومسلم في ( كتاب التمييز) وغيرهما.

وكانت يمين أبي بكر ألا يأكل هذا الطعام في غضب، ولهذا قال: إنما ذلك من الشيطان –يعني: يمينه.

وفيه: دليل على انعقاد يمين الغضبان، كما حلف النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - في غضبه ألا يحمل النفر من الأشعريين، ثم حملهم، وقال: ( لا احلف على يمين، فأرى غيرها خيراً منها إلا كفرت عن يميني، وأتيت الذي هو خير) .
وفي الحديث: جواز الحلف بقرة العين؛ فإن امرأة أبي بكر حلفت بذلك، ولم ينكره عليها.

وقرة عين المؤمن: هو ربه وكلامه وذكره وطاعته.

ومقصود البخاري من هذا الحديث: جواز السمر عند الأهل والضيف؛ فإن أبا بكر سمر عند أهله وضيفه لما رجع من عند النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، بعد أن ذهب من الليل ما ذهب منه.
والظاهر – أيضا -: أنه سمر عند النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -.

وفي السمر عند الأهل: حديث ابن عباس، أن النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - صلى العشاء، ثم دخل بيته، فتحدث مع أهله ساعة.

وقد خرجه [البخاري] في موضع آخر.

وقد روي عن عائشة، أنها رأت قوماً يسمرون، فقالت: انصرفوا إلى أهليكم، فإن لهم فيكم نصيباً.

وهذا يلد على انها استحبت السمر عند الأهل لما فيه من المؤأنسة لهم، وهو من حسن العشرة.

وقد روي عن النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، أنه كان يسمر مع بعض الوفود الذين يفدون عليه المدينة، وهو من نوع السمر مع الضيف.

فخرج أبو داود وابن ماجه من رواية عبد الله بن عبد الرحمن بن يعلي الطائفي، عن عثمان بن عبد الله بن أوس، عن جده أوس بن حذيفة، قال: كنت في وفد ثقيف، فكان النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يأتينا كل ليلة بعد العشاء، فيحدثنا قائماً على رجليه، حتى يتراوح بين رجليه، وأكثر ما يحدثنا ما لقي من قومه من قريش – وذكر الحديث.

وسئل أبو حاتم عن هذا الحديث، فقال: حديث أبي برزة أصح منه.

يعني: حديثه: كان يكره الحديث بعدها.

وروي الرخصة في السمر للمصلي والمسافر [..] خاصة.

خرجه الإمام أحمد من رواية خيثمة، عن رجل من قومه من قريش، عن عبد الله، قال: قال رسول الله - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ( لا سمر بعد الصلاة) – يعني: العشاء الآخرة - ( إلا لمصل أو مسافر) .

قال ابن المديني: في إسناده انقطاع؛ لأن الرجل الذي لم يسمه خيثمة لا أدري هو من أصحاب عبد الله، أو لا؟ وقد روى خيثمة عن غير واحد من أصحاب عبد الله، منهم: سويد بن غفلة، وأرجو أن يكون هذا الرجل منهم.
وقال الأثرم: هو حديث غير قوي؛ لأن في إسناده رجلاً لم يسم.

وقد أخذ به الإمام أحمد، فكره السمر في حديث الدنيا، ورخص فيه للمسافر.

وروي من وجه آخر بزيادة، من رواية ابن وهب، عن معاوية، عن أبي عبد الله الأنصاري، عن عائشة، أن النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قال: ( لا سمر إلا لثلاثة: مصل، أو مسافر، أو عروس) .

خرجه سمويه الأصبهاني الحافظ: نا عبد الله بن الزبير: نا ابن وهب – فذكره.

وخرجه بقي بن مخلد في ( مسنده) : ثنا ابن مقلاص: ثنا ابن وهب: أخبرني معاوية، عن أبي حمزة، عن عائشة زوج النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، قالت: ما رأيت رسول الله - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نائماً قبل العشاء، ولا لاغياً بعدها، أماذاكراً فيغنم، أو نائماً فيسلم.

قال معاوية: وحدثني أبو عبد الله الأنصاري، عن زوج النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، قالت: السمر لثلاثة: لعروس، أو لمسافر، أو لمتهجد بالليل.
وهذا موقوف على عائشة.

وأبو عبد الله وأبو حمزة، مجهولان.

وروى الحسين بن إسحاق التستري، عن أحمد، أنه سئل عن السمر بعد العشاء الآخر؟ قل: لا، إلا لمسافر أو مصل، فأماالفقه فأرجو أن لا يكون به بأس.

ونقل عبد الله بن أحمد، عن أبيه، أنه سئل عن الحديث [الذي] نهى رسول الله - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عن النوم قبل العشاء، والحديث بعدها، والرجل يقعد مع عياله بعدما يصلي يتحدث ثم ينام: هل يحرج؟ قال: ينبغي أن يجتنب الحديث والسمر بعدها.

وهذا يدل على كراهة السمر مع الأهل - أيضا.

وقال سفيان الثوري: كان يقال: لا سمر بعد العشاء، إلا لمصل، أو مسافر.
قال: ولا بأس أن يكتب الشيء، أو يعمل بعد العشاء.

وهذا يدل على أن سهر الأنسان في عمل يعمله وحده، من غير مسامرة لغيره، أنه لا كراهة فيه، بخلاف المسامرة والمحادثة.
والله سبحانه وتعالى أعلم.