هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 
586 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ ، كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ ، وَإِنْ أَرْبَعٌ فَخَامِسٌ أَوْ سَادِسٌ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلاَثَةٍ ، فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ ، قَالَ : فَهُوَ أَنَا وَأَبِي وَأُمِّي - فَلاَ أَدْرِي قَالَ : وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ - بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ ، وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ لَبِثَ حَيْثُ صُلِّيَتِ العِشَاءُ ، ثُمَّ رَجَعَ ، فَلَبِثَ حَتَّى تَعَشَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَاءَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ ، قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ : وَمَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ - أَوْ قَالَتْ : ضَيْفِكَ - قَالَ : أَوَمَا عَشَّيْتِيهِمْ ؟ قَالَتْ : أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ ، قَدْ عُرِضُوا فَأَبَوْا ، قَالَ : فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ ، فَقَالَ يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ ، وَقَالَ : كُلُوا لاَ هَنِيئًا ، فَقَالَ : وَاللَّهِ لاَ أَطْعَمُهُ أَبَدًا ، وَايْمُ اللَّهِ ، مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرُ مِنْهَا - قَالَ : يَعْنِي حَتَّى شَبِعُوا - وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ مِنْهَا ، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ : يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا ؟ قَالَتْ : لاَ وَقُرَّةِ عَيْنِي ، لَهِيَ الآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلاَثِ مَرَّاتٍ ، فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ ، وَقَالَ : إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ - يَعْنِي يَمِينَهُ - ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ، ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ ، وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ ، فَمَضَى الأَجَلُ ، فَفَرَّقَنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا ، مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ ، اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ ، فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ ، أَوْ كَمَا قَالَ
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير،  فلا أدري قال : وامرأتي وخادم بيننا وبين بيت أبي بكر ، وإن أبا بكر تعشى عند النبي صلى الله عليه وسلم ، ثم لبث حيث صليت العشاء ، ثم رجع ، فلبث حتى تعشى النبي صلى الله عليه وسلم ، فجاء بعد ما مضى من الليل ما شاء الله ، قالت له امرأته : وما حبسك عن أضيافك أو قالت : ضيفك قال : أوما عشيتيهم ؟ قالت : أبوا حتى تجيء ، قد عرضوا فأبوا ، قال : فذهبت أنا فاختبأت ، فقال يا غنثر فجدع وسب ، وقال : كلوا لا هنيئا ، فقال : والله لا أطعمه أبدا ، وايم الله ، ما كنا نأخذ من لقمة إلا ربا من أسفلها أكثر منها قال : يعني حتى شبعوا وصارت أكثر مما كانت قبل ذلك ، فنظر إليها أبو بكر فإذا هي كما هي أو أكثر منها ، فقال لامرأته : يا أخت بني فراس ما هذا ؟ قالت : لا وقرة عيني ، لهي الآن أكثر منها قبل ذلك بثلاث مرات ، فأكل منها أبو بكر ، وقال : إنما كان ذلك من الشيطان يعني يمينه
هذه الخدمةُ تعملُ بصورةٍ آليةٍ، وهي قيدُ الضبطِ والتطوير، 

: هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،  عن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ ، كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ ، وَإِنْ أَرْبَعٌ فَخَامِسٌ أَوْ سَادِسٌ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلاَثَةٍ ، فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ ، قَالَ : فَهُوَ أَنَا وَأَبِي وَأُمِّي - فَلاَ أَدْرِي قَالَ : وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ - بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ ، وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ لَبِثَ حَيْثُ صُلِّيَتِ العِشَاءُ ، ثُمَّ رَجَعَ ، فَلَبِثَ حَتَّى تَعَشَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَاءَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ ، قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ : وَمَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ - أَوْ قَالَتْ : ضَيْفِكَ - قَالَ : أَوَمَا عَشَّيْتِيهِمْ ؟ قَالَتْ : أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ ، قَدْ عُرِضُوا فَأَبَوْا ، قَالَ : فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ ، فَقَالَ يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ ، وَقَالَ : كُلُوا لاَ هَنِيئًا ، فَقَالَ : وَاللَّهِ لاَ أَطْعَمُهُ أَبَدًا ، وَايْمُ اللَّهِ ، مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرُ مِنْهَا - قَالَ : يَعْنِي حَتَّى شَبِعُوا - وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ مِنْهَا ، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ : يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا ؟ قَالَتْ : لاَ وَقُرَّةِ عَيْنِي ، لَهِيَ الآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلاَثِ مَرَّاتٍ ، فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ ، وَقَالَ : إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ - يَعْنِي يَمِينَهُ - ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ، ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ ، وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ ، فَمَضَى الأَجَلُ ، فَفَرَّقَنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا ، مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ ، اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ ، فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ ، أَوْ كَمَا قَالَ .

Narrated Abu `Uthman:

`Abdur Rahman bin Abi Bakr said, The Suffa Companions were poor people and the Prophet (ﷺ) said, 'Whoever has food for two persons should take a third one from them (Suffa companions). And whosoever has food for four persons he should take one or two from them' Abu Bakr took three men and the Prophet (ﷺ) took ten of them. `Abdur Rahman added, my father my mother and I were there (in the house). (The sub-narrator is in doubt whether `Abdur Rahman also said, 'My wife and our servant who was common for both my house and Abu Bakr's house). Abu Bakr took his supper with the Prophet (ﷺ) and remained there till the `Isha' prayer was offered. Abu Bakr went back and stayed with the Prophet (ﷺ) till the Prophet (ﷺ) took his meal and then Abu Bakr returned to his house after a long portion of the night had passed. Abu Bakr's wife said, 'What detained you from your guests (or guest)?' He said, 'Have you not served them yet?' She said, 'They refused to eat until you come. The food was served for them but they refused. `Abdur Rahman added, I went away and hid myself (being afraid of Abu Bakr) and in the meantime he (Abu Bakr) called me, 'O Ghunthar (a harsh word)!' and also called me bad names and abused me and then said (to his family), 'Eat. No welcome for you.' Then (the supper was served). Abu Bakr took an oath that he would not eat that food. The narrator added: By Allah, whenever any one of us (myself and the guests of Suffa companions) took anything from the food, it increased from underneath. We all ate to our fill and the food was more than it was before its serving. Abu Bakr looked at it (the food) and found it as it was before serving or even more than that. He addressed his wife (saying) 'O the sister of Bani Firas! What is this?' She said, 'O the pleasure of my eyes! The food is now three times more than it was before.' Abu Bakr ate from it, and said, 'That (oath) was from Satan' meaning his oath (not to eat). Then he again took a morsel (mouthful) from it and then took the rest of it to the Prophet. So that meal was with the Prophet. There was a treaty between us and some people, and when the period of that treaty had elapsed the Prophet (ﷺ) divided us into twelve (groups) (the Prophet's companions) each being headed by a man. Allah knows how many men were under the command of each (leader). So all of them (12 groups of men) ate of that meal.

":"ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا ، ان سے ان کے باپ سلیمان بن طرخان نے ، کہا کہ ہم سے ابوعثمان نہدی نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بیان کی کہاصحاب صفہ نادار مسکین لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ تیسرے ( اصحاب صفہ میں سے کسی ) کو اپنے ساتھ لیتا جائے ۔ اور جس کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہے تو وہ پانچویں یا چھٹے آدمی کو سائبان والوں میں سے اپنے ساتھ لے جائے ۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمی اپنے ساتھ لائے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ گھر کے افراد میں اس وقت باپ ، ماں اور میں تھا ۔ ابوعثمان راوی کا بیان ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے یہ کہا یا نہیں کہ میری بیوی اور ایک خادم جو میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کے گھر کے لیے تھا یہ بھی تھے ۔ خیر ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ٹھہر گئے ۔ ( اور غالباً کھانا بھی وہیں کھایا ۔ صورت یہ ہوئی کہ ) نماز عشاء تک وہیں رہے ۔ پھر ( مسجد سے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں آئے اور وہیں ٹھہرے رہے تاآنکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کھانا کھا لیا ۔ اور رات کا ایک حصہ گزر جانے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آپ گھر تشریف لائے تو ان کی بیوی ( ام رومان ) نے کہا کہ کیا بات پیش آئی کہ مہمانوں کی خبر بھی آپ نے نہ لی ، یا یہ کہ مہمان کی خبر نہ لی ۔ آپ نے پوچھا ، کیا تم نے ابھی انہیں رات کا کھانا نہیں کھلایا ۔ ام رومان نے کہا کہ میں کیا کروں آپ کے آنے تک انھوں نے کھانے سے انکار کیا ۔ کھانے کے لیے ان سے کہا گیا تھا لیکن وہ نہ مانے ۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ڈر کر چھپ گیا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پکارا اے غنثر ! ( یعنی او پاجی ) آپ نے برا بھلا کہا اور کوسنے دئیے ۔ فرمایا کہ کھاؤ تمہیں مبارک نہ ہو ! خدا کی قسم ! میں اس کھانے کو کبھی نہیں کھاؤں گا ۔ ( آخر مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا ) ( عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کہا ) خدا گواہ ہے کہ ہم ادھر ایک لقمہ لیتے تھے اور نیچے سے پہلے سے بھی زیادہ کھانا ہو جاتا تھا ۔ بیان کیا کہ سب لوگ شکم سیر ہو گئے ۔ اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ گیا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو کھانا پہلے ہی اتنا یا اس سے بھی زیادہ تھا ۔ اپنی بیوی سے بولے ۔ بنوفراس کی بہن ! یہ کیا بات ہے ؟ انھوں نے کہا کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک کی قسم ! یہ تو پہلے سے تین گنا ہے ۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہ کھانا کھایا اور کہا کہ میرا قسم کھانا ایک شیطانی وسوسہ تھا ۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بقیہ کھانا لے گئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ وہ صبح تک آپ کے پاس رکھا رہا ۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ ہم مسلمانوں کا ایک دوسرے قبیلے کے لوگوں سے معاہدہ تھا ۔ اور معاہدہ کی مدت پوری ہو چکی تھی ۔ ( اس قبیلہ کا وفد معاہدہ سے متعلق بات چیت کرنے مدینہ میں آیا ہوا تھا ) ہم نے ان میں سے بارہ آدمی جدا کئے اور ہر ایک کے ساتھ کتنے آدمی تھے اللہ کو ہی معلوم ہے ان سب نے ان میں سے کھایا ۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کچھ ایسا ہی کہا ۔

شرح الحديث من عمدة القاري

: : هذه القراءةُ حاسوبية، وما زالت قيدُ الضبطِ والتطوير،    ( بابُُ السَّمَرِ معَ الضَّيْفِ والأَهْلِ)
أَي: هَذَا بابُُ فِي بَيَان السمر مَعَ الْأَهْل، وَأهل الرجل خاصته وَعِيَاله وحاشيته.
فَإِن قلت: مَا وَجه إِفْرَاد هَذَا الْبابُُ من الْبابُُ السَّابِق مَعَ اشتماله عَلَيْهِ ودخوله فِيهِ؟ قلت: لانحطاط رتبته عَن الْبابُُ السَّابِق، لِأَنَّهُ متمحص للطاعة لَا يَقع على غَيرهَا، وَهَذَا الْبابُُ قد يكون بالسمر الْجَائِز أَو المتردد بَين الْإِبَاحَة وَالنَّدْب، فَلذَلِك أفردها بِالذكر.



[ قــ :586 ... غــ :602]
- حدَّثنا أبُو النعْمَانِ قَالَ حدَّثنا مُعْتَمِرُ بنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدثنَا أبي قَالَ حدَّثنا أبُو عُثْمانَ عنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ أبي بَكْرٍ أنَّ أصْحَابَ الصُّفَةِ كانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ وأنَّ النَّبِيَّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ مَنْ كَانَ عَنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ وإنْ أرْبَعٌ فَخَامِسٌ أوْ سَادِسٌ وأنَّ أَبَا بَكْرٍ جاءَ بِثَلاَثَةٍ فانْطَلَقَ النبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بِعَشْرَةٍ قَالَ فَهُوَ أَنا وَأبي وأُمِّي فلاَ أدْرِي قَالَ وامْرَأَتِي وخادِمٌ بَيْنَنا وبَيْنَ بَيْتِ أبي بَكْرٍ وأنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النبيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ثُمَّ لَبِثَ حَتَّى صُلِّيَتِ العِشَاءُ ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّى تَعشَّى النَّبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَجَاءَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ الله قالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ وَمَا حَبَسَكَ عنْ أضْيَافِكَ أوْ قَالَتْ ضَيْفِكَ قَالَ أوَ مَا عَشَّيْتِهِمْ قالَتْ أبَوْا حَتَّى تَجِيءَ قَدْ عُرِضُوا فَأَبُوْا قَالَ فَذَهَبْتُ أَنا فَاخْتَبَأْتُ فَقَالَ يَا غُنْثرُ فَجَدَّع وسبَّ.

     وَقَالَ  كُلُوا لَا هَنِيئا فَقَالَ وَالله لاَ أطْعَمَهُ أبدا وَايْمُ الله مَا كُنَّا ناخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إلاَّ رَبَا مِنْ أسْفَلِهَا أكْثَرُ مِنْهَا قالَ يَعْنِي حتَّى شَبِعُوا وصارَتْ أكْثَرَ مِمَّا كانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ فَنَظَرَ إلَيْهَا أبُو بَكْرٍ فإذَا هِي كمَا هِيَ أوْ أكْثَرَ مِنْهَا فَقَالَ ل اِمْرَأَتِهِ يَا أُخْتَ بَنِي فِراسٍ مَا هَذَا قالَتْ ل اَ وَقُرَّةِ عَيْنِي لَهِيَ الآنَ أكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلاَثِ مَرَّاتٍ فاكَلَ مِنْهَا أبُو بَكْرٍ.

     وَقَالَ  إنَّما كانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَعْنِي يَمِينَهُ ثُمَّ أكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى النَّبي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فأصْبَحَتْ عِنْدَهُ وكانَ بَيْنَنا وبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ فَمَضَى الأجَلُ فَفَرَّقَنَا اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلاً مَعَ كلِّ رَجُل مِنْهُمْ أُنَاسٌ الله أعْلَمُ كَمْ مَعَ كلِّ رَجلٍ فأَكَلُوا مِنهَا أجْمَعُونَ أوْ كَما قَالَ.
.


مطابقته للتَّرْجَمَة تُؤْخَذ من قَول أبي بكر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ لزوجته: ( أَوَمَا عَشَّيْتِيهِمْ؟) ، ومراجعته لخَبر الأضياف.
وَقَوله: لاضيافه: ( كلوا) ، وكل ذَلِك فِي معنى السمر الْمُبَاح.

ذكر رِجَاله: وهم خَمْسَة: الأول: أَبُو النُّعْمَان مُحَمَّد بن الْفضل السدُوسِي.
الثَّانِي: مُعْتَمر بن سُلَيْمَان السدُوسِي.
الثَّالِث: أَبوهُ سُلَيْمَان بن طرخان.
الرَّابِع: أَبُو عُثْمَان عبد الرَّحْمَن بن مل بن عَمْرو النَّهْدِيّ، مَاتَ سنة خمس وَتِسْعين وَهُوَ ابْن ثَلَاثِينَ وَمِائَة سنة، وَكَانَ قد أدْرك الْجَاهِلِيَّة، تقدم فِي بابُُ الصَّلَاة كَفَّارَة.
الْخَامِس: عبد الرَّحْمَن ابْن أبي بكر الصّديق، رَضِي الله تَعَالَى عَنْهُمَا.

ذكر لطائف إِسْنَاده فِيهِ: التحديث بِصِيغَة الْجمع فِي أَرْبَعَة مَوَاضِع.
وَفِيه: العنعنة فِي مَوضِع وَاحِد.
وَفِيه: القَوْل فِي ثَلَاثَة مَوَاضِع.
وَفِيه: راوٍ من المخضرمين وَهُوَ: أَبُو عُثْمَان.
وَفِيه: رِوَايَة الصَّحَابِيّ عَن الصَّحَابِيّ ابْن الصَّحَابِيّ: وَهُوَ عبد الرَّحْمَن.

ذكر تعدد مَوْضِعه وَمن أخرجه غَيره: أخرجه البُخَارِيّ أَيْضا فِي عَلَامَات النُّبُوَّة عَن مُوسَى بن إِسْمَاعِيل، وَفِي الْأَدَب عَن أبي مُوسَى مُحَمَّد بن الْمثنى.
وَأخرجه مُسلم فِي الْأَطْعِمَة عَن عبيد الله بن معَاذ وحامد ابْن عمر وَمُحَمّد بن عبد الْأَعْلَى، وَعَن مُحَمَّد بن الْمثنى، وَأخرجه أَبُو دَاوُد فِي الْأَيْمَان وَالنُّذُور عَن مُحَمَّد بن الْمثنى وَعَن مُؤَمل بن هِشَام.

ذكر مَعْنَاهُ: قَوْله: ( إِن أَصْحَاب الصّفة) ، قَالَ النَّوَوِيّ: هم زهاد من الصَّحَابَة فُقَرَاء غرباء، كَانُوا يأوون إِلَى مَسْجِد النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَكَانَت لَهُم فِي آخِره صفة، وَهِي مَكَان مقتطع من الْمَسْجِد مظلل عَلَيْهِ يبيتُونَ فِيهِ، وَكَانُوا يقلون ويكثرون، وَفِي وَقت كَانُوا سبعين، وَفِي وَقت غير ذَلِك، فيزيدون بِمن يقدم عَلَيْهِم وينقصون بِمن يَمُوت أَو يُسَافر أَو يتَزَوَّج.
وَفِي ( التَّلْوِيح) : الصّفة، هُوَ مَوضِع مظلل فِي الْمَسْجِد كَانَ للْمَسَاكِين والغرباء، وهم الأوفاض، أَي: الْفرق والأخلاط من النَّاس يأوون إِلَيْهِ، وعدَّ مِنْهُم أَبُو نعيم فِي ( الْحِلْية) مائَة ونيفا.
قَوْله: ( كَانُوا أُنَاسًا) وَفِي رِوَايَة الْكشميهني: ( كَانُوا نَاسا) ، بِلَا ألف، وَالنَّاس والأناس بِمَعْنى وَاحِد.
قَوْله: ( فليذهب بثالث) ، أَي: من أَصْحَاب الصّفة، هَذَا هُوَ الصَّوَاب، وَهُوَ الْأَصَح من رِوَايَة مُسلم: ( فليذهب بِثَلَاثَة) ، لِأَن ظَاهرهَا صيرورتهم خَمْسَة، وَحِينَئِذٍ لَا يمسك رَمق أحد بِخِلَاف الْوَاحِد مَعَ الْإِثْنَيْنِ.
.

     وَقَالَ  الْقُرْطُبِيّ: لَو حملت رِوَايَة مُسلم على ظَاهرهَا فسد الْمَعْنى، وَذَلِكَ أَن الَّذِي عِنْده طَعَام إثنين إِذا أكله فِي خَمْسَة لم يكف أحدا مِنْهُم، وَلَا يمسك رمقه، بِخِلَاف الْوَاحِد مَعَ الِاثْنَيْنِ.
.

     وَقَالَ  النَّوَوِيّ: وَالَّذِي فِي مُسلم أَيْضا لَهُ وَجه تَقْدِيره: فليذهب بِمن يتم بِثَلَاثَة، أَو بِتمَام ثَلَاثَة، كَمَا قَالَ تَعَالَى: { وَقدر فِيهَا أقواتها فِي أَرْبَعَة أَيَّام} ( فصلت: 10) .
أَي: فِي تَمام أَرْبَعَة أَيَّام.
.

     وَقَالَ  ابْن الْعَرَبِيّ: لم يقل صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَن طَعَام الْإِثْنَيْنِ يشْبع الثَّلَاثَة.
إِنَّمَا قَالَ: يَكْفِي، وَهُوَ غير الشِّبَع، وَكَانَت الْمُوَاسَاة إِذْ ذَاك وَاجِبَة لشدَّة الْحَال.
قَوْله: ( وَإِن أَربع فخامس أَو سادس) أَي: وَإِن كَانَ عِنْده طَعَام أَربع فليذهب بخامس أَو بسادس، هَذَا وَجه الْجَرّ فِي: خامسٍ وسادسٍ، ويروى برفعهما، فوجهه كَذَلِك لَكِن بِإِعْطَاء الْمُضَاف إِلَيْهِ وَهُوَ أَربع اعراب الْمُضَاف وَهُوَ: طَعَام، وبإضمار مُبْتَدأ للفظ: خَامِس.
وَفِي رِوَايَة مُسلم: ( من كَانَ عِنْده طَعَام أَرْبَعَة فليذهب بخامس بسادس) .
.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي: فَإِن قلت: كَيفَ يتَصَوَّر السَّادِس إِذا كَانَ يتَصَوَّر السَّادِس إِذا كَانَ عِنْده طَعَام أَربع؟ قلت: مَعْنَاهُ: فليذهب بخامس أَو بسادس مَعَ الْخَامِس، وَالْعقل يدل عَلَيْهِ، إِذْ السَّادِس يسْتَلْزم خَامِسًا، فَكَأَنَّهُ قَالَ فليذهب بِوَاحِد أَو بإثنين، وَالْحَاصِل أَن: أَو: لَا تدل على منع الْجمع بَينهمَا، وَيحْتَمل أَن يكون معنى: أَو سادس، وَأَن كَانَ عِنْده طَعَام خمس فليذهب بسادس، فَيكون من بابُُ عطف الْجُمْلَة على الْجُمْلَة.
.

     وَقَالَ  ابْن مَالك: هَذَا الحَدِيث مِمَّا حذف فِيهِ بعد: أَن وَالْفَاء، فعلان وحرفا جرٍ باقٍ عملهما، وَتَقْدِيره: وَإِن قَامَ بأَرْبعَة فليذهب بخامس أَو بسادس، وَفِي ( التَّوْضِيح) : كلمة: أَو، للتنويع وَقيل: للْإِبَاحَة.
قَوْله: ( وَانْطَلق النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم) قَالَ هُنَا: انْطلق، وَعَن أبي بكر قَالَ: جَاءَ لِأَن الْمَجِيء هُوَ الْمَشْي المقرب إِلَى الْمُتَكَلّم.
والانطلاق الْمَشْي المبعد عَنهُ.
قَوْله: ( قَالَ) أَي: قَالَ عبد الرَّحْمَن ( فَهُوَ أَنا وَأبي وَأمي) هَذِه رِوَايَة الْكشميهني، وَفِي رِوَايَة الْمُسْتَمْلِي: ( فَهُوَ أَنا وَأمي) .
وَقَوله: وَقَوله هُوَ ضمير الشان وانا مُبْتَدأ وَأبي وَأمي عطف عَلَيْهِ وَخَبره مَحْذُوف يدل عَلَيْهِ السِّيَاق قَوْله ( وَلَا ادري) كَلَام ابي عُثْمَان النَّهْدِيّ الرَّاوِي قَوْله ( وخادم) ، بِالرَّفْع عطف على: امْرَأَتي، على تَقْدِير: أَن يكون لفظ: إمرأتي مَوْجُودا فِيهِ، وإلاَّ فَهُوَ عطف على: أُمِّي، قَوْله: ( بَين بيتنا وَبَيت أبي بكر) هَكَذَا هُوَ فِي رِوَايَة أبي ذَر، وَالرِّوَايَة الْمَشْهُورَة: ( بَيْننَا وَبَين أبي بكر) يَعْنِي: مُشْتَرك خدمتها بَيْننَا وَبَين أبي بكر.
وَقَوله: بَين، ظرف لخادم.
قَوْله: ( تعشى) أَي: أكل الْعشَاء، وَهُوَ بِفَتْح الْعين: الطَّعَام الَّذِي يُؤْكَل آخر النَّهَار.
قَوْله: ( ثمَّ لبث) أَي: فِي دَاره.
قَوْله: ( حَتَّى صليت) ، بِلَفْظ الْمَجْهُول، وَهَذِه رِوَايَة الْكشميهني، يَعْنِي لفظ: حَتَّى، وَفِي رِوَايَة غَيره: ( حَيْثُ صليت) ، قَوْله: ( الْعشَاء) أَي: صَلَاة الْعشَاء.
قَوْله: ( ثمَّ رَجَعَ) أَي: إِلَى رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم.
وَفِي ( صَحِيح) الْإِسْمَاعِيلِيّ، ( ثمَّ ركع) ، بِالْكَاف أَي: صلى النَّافِلَة بعد الْعشَاء، فَدلَّ هَذَا على أَن قَول البُخَارِيّ: ثمَّ رَجَعَ، لَيْسَ مِمَّا اتّفق عَلَيْهِ الروَاة.
قَوْله: ( حَتَّى تعشى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم) ، وَعند مُسلم: ( حَتَّى نعس النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم) ، قَوْله: ( قَالَت لَهُ) أَي لأبي بكر ( امْرَأَته) وَهِي: أم رُومَان، بِضَم الرَّاء وَفتحهَا.
.

     وَقَالَ  السُّهيْلي: اسْمهَا: دعد،.

     وَقَالَ  غَيره: زَيْنَب، وَهِي من بني فراس بن غنم بن مَالك بن كنَانَة.
قَوْله: أَو ضيفك) شكّ من الرَّاوِي،.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي: قَوْله: ( ضيفك) .
فَأن قلت: هم كَانُوا ثَلَاثَة، فَلم أفرد؟ قلت: هُوَ لفظ الْجِنْس يُطلق على الْقَلِيل وَالْكثير، أَو مصدر يتَنَاوَل الْمثنى وَالْجمع.
انْتهى.
قلت: هَذَا السُّؤَال على أَن نسخته كَانَت: ضيفك، بِدُونِ.
قَوْله: ( أضيافك) ، وَلَكِن قَوْله: أَو مصدر، غير صَحِيح لفساد الْمَعْنى.
قَوْله: ( أَوَمَا عَشَّيْتِيهِم) الْهمزَة للاستفهام، وَالْوَاو للْعَطْف على مُقَدّر بعد الْهمزَة.
ويروى: عشيتهم، بِالْيَاءِ الْحَاصِلَة من إشباع الكسرة.
قَوْله: ( أَبَوا) أَي: امْتَنعُوا، وامتناعهم من الْأكل رفقا بِهِ لظنهم أَنه لَا يجد عشَاء، فصبروا حَتَّى يَأْكُل مَعَهم.
قَوْله: ( قد عرضوا) بِفَتْح الْعين أَي: الْأَهْل من: الابْن وَالْمَرْأَة وَالْخَادِم.
وَفِي رِوَايَة ( فعرضنا عَلَيْهِم) ، ويروى: ( قد عرضوا) على صِيغَة الْمَجْهُول، ويروى: ( قد عرصوا) ، بالصَّاد الْمُهْملَة.
.

     وَقَالَ  ابْن التِّين: لَا أعلم وَجها، وَيحْتَمل أَن يكون من: عرص إِذا نشط، فَكَأَن أهل الْبَيْت نشطوا فِي الْعَزِيمَة عَلَيْهِم،.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي: وَفِي بعض النّسخ بِضَم الْعين أَي: عرض الطَّعَام على الأضياف، فَحذف الْجَار وأوصل الْفِعْل، أَو هُوَ من بابُُ الْقلب، نَحْو: عرضت الْحَوْض على النَّاقة.
قَوْله: ( قَالَ فَذَهَبت) ، أَي: قَالَ عبد الرَّحْمَن.
قَوْله: ( فاختبأت أَي: اختفيت، وَكَانَ اختفاؤه خوفًا من خصام أَبِيه لِأَنَّهُ لم يكن فِي الْمنزل من الرِّجَال غَيره، أَو لِأَنَّهُ أوصاه بهم.
قَوْله: ( فَقَالَ) أَي: أَبُو بكر: ( يَا غنثر) بِضَم الْغَيْن الْمُعْجَمَة وَسُكُون النُّون وَفتح الثَّاء الْمُثَلَّثَة وَضمّهَا أَيْضا، قَالَ ابْن قرقول: مَعْنَاهُ: يَا لئيم يَا دنيء.
وَقيل: الثقيل الوخم.
وَقيل: الْجَاهِل، من الغثارة وَهِي الْجَهْل، وَالنُّون زَائِدَة.
وَقيل: مَأْخُوذ من الغثر وَهُوَ السُّقُوط.
.

     وَقَالَ  عِيَاض: وَعَن بعض الشُّيُوخ: يَا عنتر، بِفَتْح الْعين الْمُهْملَة وَسُكُون النُّون وَفتح التَّاء الْمُثَنَّاة من فَوق، وَهُوَ: الذُّبابُُ الْأَزْرَق، شبهه بِهِ تحقيرا لَهُ، وَالْأول هُوَ الرِّوَايَة الْمَشْهُورَة، قَالَه النَّوَوِيّ.
قَوْله: ( فجدع) ، بِفَتْح الْجِيم وَتَشْديد الدَّال الْمُهْملَة وَفِي آخِره عين مُهْملَة، أَي: دَعَا بالجدع، وَهُوَ قطع الْأنف أَو الْأذن أَو الشّفة، وَهُوَ بالأنف أخص.
وَقيل: مَعْنَاهُ السب.
.

     وَقَالَ  الْقُرْطُبِيّ: فِيهِ الْبعد لقَوْله: فجدع وَسَب،.

     وَقَالَ  ابْن قرقول: وَعند الْمروزِي بالزاي قَالَ: وَهُوَ وهم.
قَالَ الْقُرْطُبِيّ: وكل ذَلِك من أبي بكر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، على ابْنه ظنا مِنْهُ أَنه فرط فِي حق الأضياف، فَلَمَّا تبين لَهُ أَن ذَلِك كَانَ من الأضياف أدَّبهم بقوله: ( كلوا لَا هَنِيئًا) ، وَحلف أَن لَا يطعمهُ.
وَقيل: إِنَّه لَيْسَ بِدُعَاء عَلَيْهِم إِنَّمَا هُوَ خبر، أَي: لم تتهنوا بِهِ فِي وقته.
.

     وَقَالَ  السفاقسي: إِنَّمَا خَاطب بذلك أَهله لَا أضيافه.
و: هَنِيئًا، مَنْصُوب على أَن فعله مَحْذُوف وَاجِب حذفه فِي السماع، وَالتَّقْدِير: هُنَاكَ الله هَنِيئًا، وهنيئا دخل عَلَيْهِ حرف النَّفْي.
قَوْله: ( وأيم الله) ، مُبْتَدأ وَخَبره مَحْذُوف أَي: ايم الله قسمي، وهمزته همزَة وصل لَا يجوز فِيهَا الْقطع عِنْد الْأَكْثَرين، وَالْأَصْل فِيهِ: يَمِين الله، ثمَّ جمع الْيَمين على أَيمن، وَلما كثر اسْتِعْمَاله فِي كَلَامهم خففوه بِحَذْف النُّون فَقَالُوا: ايم الله، وَفِيه لُغَات قد ذَكرنَاهَا فِي: بابُُ الصَّعِيد الطّيب وضوء الْمُسلم.
قَوْله: ( إلاَّ رَبَا) أَي: زَاد.
قَوْله: ( وَصَارَت) أَي: الْأَطْعِمَة.
قَوْله: ( أَكثر مِمَّا كَانَت) ، بالثاء الْمُثَلَّثَة، ويروى بِالْبَاء الْمُوَحدَة: أكبر، قَوْله: ( فَإِذا هِيَ كَمَا هِيَ) ، أَي: فَإِذا الْأَطْعِمَة كَمَا هِيَ على حَالهَا لم تنقص شَيْئا، وَالْفَاء فِيهِ: فَاء المفاجأة.
قَوْله: ( فَقَالَ لامْرَأَته) ، أَي: فَقَالَ أَبُو بكر لزوجته.
وَهِي: أم عبد الرَّحْمَن وَأم رُومَان.
قَوْله: ( يَا أُخْت بني فراس) إِنَّمَا قَالَ كَذَلِك لِأَنَّهَا زَيْنَب بنت دهمان، بِضَم الدَّال الْمُهْملَة وَسُكُون الْهَاء، أحد بني فراس بن غنم بن مَالك بن كنَانَة، كَمَا ذَكرْنَاهُ عَن قريب.
.

     وَقَالَ  النَّوَوِيّ: مَعْنَاهُ يَا من هِيَ من بني فراس.
قَوْله: ( مَا هَذَا؟) اسْتِفْهَام من أبي بكر عَن حَال الْأَطْعِمَة.
قَوْله: ( قَالَت: لَا وقرة عَيْني) ، كلمة: لَا، زَائِدَة للتَّأْكِيد، ونظائره مَشْهُورَة، وَيحْتَمل أَن تكون: لَا، نَافِيَة وَاسْمهَا مَحْذُوف أَي: لَا شَيْء غير مَا أَقُول، وَهُوَ قَوْلهَا: وقرة عَيْني، و: الْوَاو، فِيهِ وَاو الْقسم، و: قُرَّة الْعين، بِضَم الْقَاف وَتَشْديد الرَّاء: يعبر بهَا عَن المسرة، ورؤية مَا يحب الْإِنْسَان.
قيل: إِنَّمَا قيل ذَلِك لِأَن عينه تقر لبلوغ أمْنِيته، وَلَا يستشرف لشَيْء فَيكون مشتقا من الْقَرار.
وَقيل: مَأْخُوذ من القر، بِالضَّمِّ، وَهُوَ: الْبرد، أَي: إِن عينه بَارِدَة لسرورها وَعدم تقلقها.
.

     وَقَالَ  الْأَصْمَعِي: أقرّ الله عينه، أَي: أبرد دمعه لِأَن دمعة الْفَرح بَارِدَة ودمعة الْحزن حارة.
.

     وَقَالَ  الدَّاودِيّ: أَرَادَت بقرَّة عينهَا النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، فأقسمت بِهِ.
.

     وَقَالَ  ثَعْلَب: تَقول قررت بِهِ عينا أقرّ.
وَفِي ( الْغَرِيب المُصَنّف) و ( الْإِصْلَاح) : قررت وقررت قُرَّة وقرورا.
وَفِي ( كتاب الْمثنى) لِابْنِ عديس: وقرة، وَحَكَاهُ ابْن سَيّده، وَفِي ( الصِّحَاح) : تقر وتقر، وَأقر الله عينه: أعطَاهُ حَتَّى تقر، فَلَا تطمح إِلَى من هُوَ فَوْقه.
.

     وَقَالَ  ابْن خالويه: أَي: ضحِكت فَخرج من عَيْني مَاء قرور، وَهُوَ الْبَارِد، وَهُوَ ضد: أسخن الله عينه، قَالَ الْقَزاز:.

     وَقَالَ  أَبُو الْعَبَّاس: لَيْسَ كَمَا ذكر الْأَصْمَعِي من أَن دمعة الْفَرح بَارِدَة والحزن حارة، قَالَ: بل كل دمع حَار.
قَالُوا: وَمعنى قَوْلهم: هُوَ قُرَّة عَيْني إِنَّمَا يُرِيدُونَ هُوَ: رضى نَفسِي.
قَالَ: وقرة الْعين نَاقَة تُؤْخَذ من الْمغنم قبل أَن يقسم فيطبخ لَحمهَا ويصنع فيجتمع أهل الْعَسْكَر عَلَيْهِ فَيَأْكُلُونَ مِنْهُ قبل الْقِسْمَة، فَإِن كَانَ من هَذَا فَكَأَنَّهُ دعى لَهُ بالفرج وَالْغنيمَة.
وَفِي ( كتاب الفاخر) : قَالَ أَبُو عَمْرو: مَعْنَاهُ أَنَام الله عَيْنك، الْمَعْنى: صَادف سُرُورًا أذهب سهره فَنَامَ، وَحكى القالي: أقرّ الله عَيْنك، وَأقر الله بِعَيْنِك.
قَوْله: ( فَأكل مِنْهَا) ، أَي: من الْأَطْعِمَة.
قَوْله: ( إِنَّمَا كَانَ ذَلِك من الشَّيْطَان) ، يَعْنِي: يَمِينه وَهُوَ قَوْله: ( وَالله لَا أطْعمهُ أبدا) ، قَوْله: ( ثمَّ أكل مِنْهَا لقْمَة) ، وتكرار الْأكل مَعَ أَنه وَاحِد لأجل الْبَيَان.
لِأَنَّهُ لما وَقع الأول أَرَادَ الْإِبْهَام بِأَنَّهُ أكل لقْمَة، أما تَركه الْيَمين ومخالفته لأجل إِتْيَانه بالأفضل، للْحَدِيث الَّذِي ورد فِيهِ، أَو كَانَ مُرَاده لَا أطْعمهُ مَعكُمْ، أَو: فِي هَذِه السَّاعَة، أَو: عِنْد الْغَضَب، وَهَذَا مَبْنِيّ على أَنه يقبل التَّقْيِيد إِذا كَانَ اللَّفْظ عَاما، وعَلى أَن الِاعْتِبَار لعُمُوم اللَّفْظ أَو لخُصُوص السَّبَب.
قَوْله: ( إِنَّمَا كَانَ ذَلِك من الشَّيْطَان) وَفِي رِوَايَة: الأولى من الشَّيْطَان يَعْنِي، يَمِينه، فأخزاه بِالْحِنْثِ الَّذِي هُوَ خير، وَفِي بعض الرِّوَايَات: ( لما جَاءَ بالقصعة إِلَى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أكل مِنْهَا) .
قَوْله: ( فَأَصْبَحت عِنْده) أَي: أَصبَحت الْأَطْعِمَة عِنْد النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم.
قَوْله: ( عقد) أَي: عهد مهادنة، وَفِي رِوَايَة: ( وَكَانَت بَيْننَا) ، والتأنيث بِاعْتِبَار المهادنة.
وَقَوله: ( ففرقنا) الْفَاء فِيهِ فَاء الفصيحة أَي: فجاؤوا إِلَى الْمَدِينَة، ففرقنا من التَّفْرِيق أَي: جعل كل رجل مَعَ اثْنَي عشر فرقة.
وَفِي مُسلم: ( فَعرفنَا) ، بِالْعينِ وَالرَّاء الْمُشَدّدَة: أَي: جعلنَا عرفاء نقباء على قَومهمْ.
.

     وَقَالَ  الْكرْمَانِي: وَفِي بعض الرِّوَايَات: ( فقرينا) ، من: الْقرى، بِمَعْنى الضِّيَافَة.
قَوْله: ( اثْنَا عشر) ، وَفِي البُخَارِيّ ومعظم نسخ مُسلم ( اثْنَي عشر) ، وَكِلَاهُمَا صَحِيح.
الأول: على لُغَة من جعل الْمثنى بِالْألف فِي الْأَحْوَال الثَّلَاثَة،.

     وَقَالَ  السفاقسي: لَعَلَّ ضَبطه: ففرقنا بِضَم الْفَاء الثَّانِيَة وبرفع: اثْنَا عشر، على أَنه مُبْتَدأ وَخَبره: ( مَعَ كل رجل مِنْهُم أنَاس) .
قَوْله: ( الله أعلم) جملَة مُعْتَرضَة، أَي: أنَاس الله يعلم عَددهمْ.
قَوْله: ( كم مَعَ كل رجل) مُمَيّز: كم، مَحْذُوف أَي: كم رجل مَعَ كل رجل، قَوْله: ( أَو كَمَا قَالَ) ، شكّ من أبي عُثْمَان، وفاعل: قَالَ، عبد الرَّحْمَن ابْن أبي بكر، رَضِي الله تَعَالَى عَنْهُمَا.

ذكر مَا يُسْتَفَاد مِنْهُ فِيهِ: أَن للسُّلْطَان إِذا رأى مسغبة أَن يُفَرِّقهُمْ على السعَة بِقدر مَا لَا يجحف بهم.
قَالَ التَّيْمِيّ:.

     وَقَالَ  كثير من الْعلمَاء: إِن فِي المَال حقوقا سوى الزَّكَاة، وَإِنَّمَا جعل رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم على الْإِثْنَيْنِ وَاحِدًا، وعَلى الْأَرْبَعَة وَاحِدًا، وعَلى الْخَمْسَة وَاحِدًا، وَلم يَجْعَل على الْأَرْبَعَة والخمسة بِإِزَاءِ مَا يجب للإثنين مَعَ الثَّالِث، لِأَن صَاحب الْعِيَال أولى أَن يرفق بِهِ، وَالْحَاصِل فِيهِ أَن تشريك الزَّائِد على الْأَرْبَعَة لَا يضر بالباقين، وَكَانَت الْمُوَاسَاة إِذْ ذَاك وَاجِبَة لشدَّة الْحَال.
وَزَاد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَاحِدًا وواحدا رفقا لصَاحب الْعِيَال، وضيق معيشة الْوَاحِد والإثنين أرْفق بهم من ضيق معيشة الْجَمَاعَات.
وَفِيه: فَضِيلَة الإيثار والمواساة وَأَنه عِنْد كَثْرَة الإضياف يوزعهم الإِمَام على أهل الْمحلة وَيُعْطِي لكل وَاحِد مِنْهُم مَا يعلم أَنه يتحمله، وَيَأْخُذ هُوَ مَا يُمكنهُ، وَمن هَذَا أَخذ عمر بن الْخطاب، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، فعله فِي عَام الرَّمَادَة على أهل كل بَيت مثلهم من الْفُقَرَاء، وَيَقُول لَهُم: لَمْ يهْلك امْرُؤ عَن نصف قوته، وَكَانَت الضَّرُورَة ذَلِك الْعَام، وَقد تَأَول سُفْيَان بن عُيَيْنَة فِي الْمُوَاسَاة فِي المسغبة قَوْله تَعَالَى: { ان الله اشْترى من الْمُؤمنِينَ انفسهم وَأَمْوَالهمْ بِأَن لَهُم الْجنَّة} ( التَّوْبَة: 111) .
وَمَعْنَاهُ: أَن الْمُؤمنِينَ يلْزمهُم الْقرْبَة فِي أَمْوَالهم لله تَعَالَى عِنْد توجه الْحَاجة إِلَيْهِم، وَلِهَذَا قَالَ كثير من الْعلمَاء: إِن فِي المَال حَقًا سوى الزَّكَاة، وَورد فِي التِّرْمِذِيّ مَرْفُوعا.
وَفِيه: بَيَان مَا كَانَ عَلَيْهِ الشَّارِع من الْأَخْذ بِأَفْضَل الْأُمُور، والسبق إِلَى السخاء والجود، فَإِن عِيَاله، عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام، كَانُوا قَرِيبا من عدد ضيفانه هَذِه اللَّيْلَة، فَأتى بِنصْف طَعَامه أَو نَحوه، وأتى أَبُو بكر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، بِثلث طَعَامه أَو أَكثر.
وَفِيه: الْأكل عِنْد الرئيس، وَإِن كَانَ عِنْد ضيف إِذا كَانَ فِي دَاره من يقوم بخدمتهم.
وَفِيه: أَن الْوَلَد والأهل يلْزمهُم من خدمَة الضَّيْف مَا يلْزم صَاحب الْمنزل.
وَفِيه: أَن الأضياف يَنْبَغِي لَهُم أَن يتأدبوا وينتظروا صَاحب الدَّار وَلَا يتهافتوا على الطَّعَام دونه.
وَفِيه: الْأكل من طَعَام ظَهرت فِيهِ الْبركَة.
وَفِيه: إهداء مَا ترجى بركته لأهل الْفضل.
وَفِيه: أَن آيَات النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قد تظهر على يَد غَيره.
وَفِيه: مَا كَانَ عَلَيْهِ أَبُو بكر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، من حب النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم والانقطاع إِلَيْهِ وإيثاره فِي ليله ونهاره على الْأَهْل والأضياف.
وَفِيه: كَرَامَة ظَاهِرَة للصديق، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ.
وَفِيه: إِثْبَات كرامات الْأَوْلِيَاء، وَهُوَ مَذْهَب أهل السّنة.
وَفِيه: جَوَاز تَعْرِيف العرفاء للعساكر وَنَحْوهم.
وَفِيه: جَوَاز الاختفاء عَن الْوَالِد إِذا خَافَ مِنْهُ على تَقْصِير وَاقع مِنْهُ.
وَفِيه: جَوَاز الدُّعَاء بالجدع والسب على الْأَوْلَاد عِنْد التَّقْصِير.
وَفِيه: ترك الْجَمَاعَة لعذر.
وَفِيه: جَوَاز الْخطاب للزَّوْجَة بِغَيْر اسْمهَا.
وَفِيه: جَوَاز الْقسم بِغَيْر الله.
وَفِيه: حمل المضيف الْمَشَقَّة على نَفسه فِي إكرام الضيفان، وَالِاجْتِهَاد فِي رفع الوحشة وتطييب قُلُوبهم.
وَفِيه: جَوَاز ادخار الطَّعَام للغد.
وَفِيه: مُخَالفَة الْيَمين إِذا رأى غَيرهَا خيرا مِنْهَا.
وَفِيه: أَن الرَّاوِي إِذا شكّ يجب أَن يُنَبه عَلَيْهِ، كَمَا قَالَ: لَا أَدْرِي هَل قَالَ: وامرأتي، وَمثل لَفْظَة: أَو كَمَا قَالَ، وَنَحْوهَا.
وَفِيه: أَن الْحَاضِر يرى مَا لَا يرَاهُ الْغَائِب، فَإِن امْرَأَة أبي بكر، رَضِي الله تَعَالَى عَنْهُمَا، لما رَأَتْ أَن الضيفان تَأَخَّرُوا عَن الْأكل تألمت لذَلِك، فبادرت حِين قدم تسأله عَن سَبَب تَأَخره مثل ذَلِك.
وَفِيه: إِبَاحَة الْأكل للضيف فِي غيبَة صَاحب الْمنزل، وَأَن لَا يمتنعوا إِذا كَانَ قد أذن فِي ذَلِك، لإنكار الصّديق فِي ذَلِك.
وَالله تَعَالَى أعلم.